• Sun, 12 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نوجوانو! حکمت سے کام لو، ہمیں ’ آئی لو محمدؐ ‘ اپنے کردار سے ثابت کرنا ہے

Updated: October 12, 2025, 1:08 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

’آئی لو محمدؐ ‘کا یہ ہمارا اعلان درست ہے البتہ اُسے ہم سبھی اپنے کردار سے ثابت کرتے ہیں تو یہ تحریک کامیاب ترین تحریک ثابت ہوگی۔

Instead of expressing love by taking to the streets, we should express love through our character. Photo: INN
سڑکوں پر اُتر کر محبت کے اظہار کے بجائے ہمیں اپنے کردار سے محبت کااظہار کرنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

نوجوانو! آپ مشاہدہ کر ہی رہے ہیں کہ ہمارا مُلک آج اپنی تاریخ کے اُس دَور سے گزر رہا ہے جہاں فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں، سوشل میڈیا کے سارے گروپس میں بھی چھائی ہوئی ہے۔ اس ضمن میں ہم آپ سے یہی کہنا چاہیں گے ہیں کہ ہر عمل کا ردِّ عمل صرف نیوٹن کے تیسرے کُلیے تک محدود رکھیں۔ سائنس سے بڑا علم حکمت ہے، لہٰذا حکمت سے کام لیں کہ حالات کا تقاضا کیا ہے اور دینِ فطرت نےاندھیروں میں بھی کس طرح چراغ روشن کرنے کی ترکیب سمجھائی ہے۔ آج ہم یہ موضوع کالج کے طلبہ و دیگر نو جوانوں سے اسلئے چھیڑ رہے ہیں کہ ہماری قوم کے بڑے بھی اپنے سیاسی محاذوں پر نوجوانوں کا ایندھن ہی استعمال کرتے ہیں۔ جو شیلا و جذباتی بناکرراستوں پر اور مورچوں میں اتارتے ہیں، نعرے لگواتے ہیں۔ پولیس سمیت ساری سرکاری ایجنسیاں اسی انتظار میں رہتی ہیں کہ آپ کب آپے سے باہر ہوتے ہیں۔ پھر شروع ہوتے ہیں : لاٹھی، کاٹھی، گرفتاریاں، یک طرفہ کاروائیاں اور ہماری ریلیف کمیٹیاں۔ اعلیٰ تعلیمی اِداروں میں پڑھنے والے اُن طلبہ کے گھر جا کر کوئی دریافت نہیں کرتا کہ اُن نوجوانوں کی گرفتاریوں کے بعد اُن کے گھروں کا حال کیا ہے ؟ آئیے ان معاملات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیں :
شُکر، صرف شکر:
ہمارے یہاں اکثریتی فرقے کے افراد، خصوصاً ان کے سیاست داں اکثر و بیشتر اپنی تقریروں و تحریروں میں یہ کہتے نظر آتے ہیں : ’’گَرو سے کہو ہم ہندو ہیں۔ ‘‘ہرمُلک میں چونکہ اقلیت واکثریت میں (اکثر منفی ) مقابلہ آرائی اور لفظی جنگ چلتی رہتی ہے لہٰذا ہمارے یہاں کچھ جذباتی و جو شیلے خطیبان اور مقرّرین جواب میں یہ کہتے سنائی پڑتے ہیں : ’’فخر سے کہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ ‘‘ حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر عمل کا ردِّ عمل بھی ہو اور پھر اس کا اظہار بھی کچھ اس طرح کیا جائے کہ اس سے صرف اشتعال انگیزی ہو، انا اور برتری کے مقابلے شروع ہو جائیں۔ 
اب جہاں تک ہمارے اسلام کے دائرے میں شامل رہنے اور مسلمان ہونے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ اس ضمن میں قرآن مبین میں کیا فرماتا ہے، سن لیجئے : ’’اور تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس کے معاملات درست رکھو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔ ‘‘
دراصل قرآن اللہ تعالیٰ کا تعارف ہے اور قرآن کے الفاظ میں اللہ کا تعارف سن لیجئے :
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ ہے، سب کو تھامے ہوئے ہے۔ اُس کو نہ اونگھ لگتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کے سامنے بغیر اس کی اجازت کے سفارش کر سکے۔ جو کچھ لوگوں کے سامنے ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے سب کا اُسے علم ہے۔ اُس کے علم کے کسی گوشہ پر بھی کوئی شخص حاوی نہیں ہو سکتا مگر جو وہ چاہے۔ اُس کا اقتدار آسمانوں اور زمین پر چھایا ہوا ہے اُن کی نگہبانی اُس کیلئے تھکا دینے والا کام نہیں۔ وہی سب سے اوپر ہے وہی سب سے بڑا ہے۔ ‘‘ 
اس قسم کی کئی آیتیں ایسی ہیں جو اللہ کا وہ تعارف بیان کرتی ہیں کہ اُن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ انسان لرز اٹھے، کانپ اٹھے اور اللہ کی عظمت و جلال سے اُس پر ہیبت طاری ہو جائے۔ قرآن میں یہ تو موجود ہے کہ ایمان والوں پر اللہ کی یا دلرزا طاری کر دے، اللہ تعالیٰ کی بزرگی و برتری اور انسان کی کم مائیگی سے اُس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں مگر قرآن میں یہ کہیں نہیں ہے کہ اللہ کے ایمان لانے والوں کو اللہ پرفخر ہونا چاہئے۔ دراصل اللہ کے ماننے والوں کے اندر اللہ کے تصوّر ہی سے عجز و انکساری پیدا ہونی چاہئےلہٰذا فخر سے کہو ہم مسلمان ہیں، یہ سیاسی تقریبات اور جلسے جلوس والوں کا شیوہ ہوگا، مسلمانوں کا نہیں۔ اور اگر مسلمانوں کو کہنا ہی ہے تو انہیں چاہئے کہ عجز و انکساری کے ساتھ آنکھوں میں آنسو لئے بارگاہ الٰہی میں اپنے ہاتھ اوپر کئے صرف یہ کہیں کہ ’’شکر ہے تیرا، اے پروردگا، شکر ہے تیرا کہ ہم مسلمان ہیں۔ ‘‘ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 
اللہ اور رسولؐ کی اطاعت 
آج ہمارے یہاں ایک تحریک زوروں پر ہے اور اُس کا ہمیں نے نام دیا ہے: ’آئی لو محمدؐ ‘ ہم بلاشبہ اس دنیا میں صرف اور صرف اللہ اور اُس کے آخری نبیؐ کے احکامات پر عمل کرنے کیلئے آئے ہیں، سورہ العصر کے مطابق اس سے انکار کرنے والے مکمل خسارے میں ہیں البتہ دین اسلام صرف علم کا نہیں بلکہ مکمل عمل کا دین ہے اور اس پر عمل کا طریقہ بھی بڑا سادہ سا ہے۔ اپنے ہر عمل سےہم دین کی تعلیمات کا اظہار کریں۔ ایمانداری، معاملات میں سچائی، رواداری، خوفِ خدا، بھائی چارہ، وقت و وعدے کی پابندی اور علم و عمل سے محبت وغیرہ۔ دین اسلام کا حقیقی تعارف بس اسی طرح ہمیں کرنا ہے، ہاتھ میں پلے کارڈ، فلک شگاف نعرے اور مورچے وغیرہ سے ہم وہ نہیں کرپائیں گے جو اپنے اعمال سے ہم کر گزریں گے۔ 
ہم ہمیشہ ہی سے مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ہمارے کچھ بڑے ہمیشہ اس کیلئے نوجوانوں کا استعمال (بلکہ استحصال) کرتے ہیں، نوجوانو! آئیے موجودہ حالات کا حقیقی جائزہ لیں : (الف) ۵؍ہزار سال کے بعد ملک کا سب سے بڑا گروہ اپنی مکمل ذہنیت کے ساتھ اقتدار میں آیا ہے (ب) مُلک کی تمام ایجنسیوں کے ذریعے مخالف آواز کو دبانے کا کام منظّم طریقے سے ہورہا ہے (ج) عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اس کا یقین برسرِقتدارٹولے کو ہوچکا ہے (د) خواص ۴؍سال ۳۶۴؍دن اپنی دانشوری جھاڑتے رہتے ہیں مگر ۳۶۵؍ویں دن ووٹ دینے نہیں جاتے۔ (و) برسرِاقتدار ٹولہ بڑی دل جمعی سے یہ اسٹڈی کررہا ہے کہ مسلمانوں کی کس طرح نسل کشی کی جائے؟اس کی تربیت وہ غزہ سے لے بھی چُکا ہوگا (ہ) سارے مسلم ممالک کی حالت انتہائی قابل رحم بنی ہوئی ہے۔ اِن حالات میں ہمارے لئے یہ راستہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم احتجاج کریں۔ جب تناسب ۸۰:۲۰؍کا ہے تو ہمیں صرف حکمت سے کام لینا ہے اور حکمت یہ ہے کہ ہم دین کی تعلیمات کو اپنے کردار سے واضح کریں۔ ہمیں علم ہے اور ہم اس کی مثال دینا چاہیں گے کہ حضورؐ کے زمانے میں ابوجہل بھی اپنے فتنوں سے باز نہیں آیا تھامگر ہمارے پیغمبرؐ اُن کے بیٹے عکرمہ جو اپنے باپ سے زیادہ رسولؐ کے دشمن تھے وہ نہ صرف ایمان لائے بلکہ آج اُن کا نام اصحاب رسولؐ کی معززفہرست میں شامل ہے۔ حالانکہ عکرمہ نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر جارحیت، گستاخی اور اہانت رسولؐ کی کوئی قسم نہیں تھی جو اُنھوں نے آپؐ کے خلاف اختیار نہیں کی تھی، مگر رسولؐ خدا کی داعیانہ کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو شخص اپنی ابتدائی زندگی میں کفر کا کھمبا بنا ہوا تھا وہ اپنی بعد کی زندگی میں اسلام کا ایک مضبوط ستون بن گیا۔ 
’آئی لو محمدؐ ‘کا یہ ہمارا اعلان درست ہے البتہ اُسے ہم سبھی اپنے کردار سے ثابت کرتے ہیں تو یہ تحریک کامیاب ترین تحریک ثابت ہوگی، ورنہ بعض عناصر اذان کی آوازدبانے کیلئے ہنومان چالیسا شروع کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ ’آئی لو محمدؐ ‘ کے جواب میں نہ جانے کتنے سارے فتنوں سے پُر نعرے تخلیق کریں گے۔ اس میں سب سے بڑا نقصان ہمارے ہر گھر کے اُن نوجوانوں کا ہوگا جو علم، تعلیم، روزگار اور خوشحالی کی جانب اپنا پہلا قدم بڑھارہے ہیں، لہٰذا نوجوانو! دل میں یہ ٹھان لیں کہ ’آئی لو محمدؐ ‘ ہم ثابت کریں گے مگر اپنے کردار سے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK