۲۰۰۶ء کے لرزہ خیز لوکل ٹرین دھماکوں کے ۱۲؍ ملزمین کو گزشتہ روز بامبے ہائی کورٹ نے بَری کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ ان کے خلاف پیش کردہ شواہد اِس قابل نہیں ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے۔
EPAPER
Updated: July 22, 2025, 1:40 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
۲۰۰۶ء کے لرزہ خیز لوکل ٹرین دھماکوں کے ۱۲؍ ملزمین کو گزشتہ روز بامبے ہائی کورٹ نے بَری کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ ان کے خلاف پیش کردہ شواہد اِس قابل نہیں ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے۔
۲۰۰۶ء کے لرزہ خیز لوکل ٹرین دھماکوں کے ۱۲؍ ملزمین کو گزشتہ روز بامبے ہائی کورٹ نے بَری کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ ان کے خلاف پیش کردہ شواہد اِس قابل نہیں ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے۔ اس ستم ظریفی کو محسوس کیجئے کہ انہی ناقص شواہد کی بناء پر اس کیس کی فائلیں گزشتہ اُنیس سال سے عدالتی سماعتوں کا محور و مرکز بنی ہوئی تھیں حتیٰ کہ کسی کو سزائے موت اور کسی کو عمر قید کی سزا سنائی جاچکی تھی۔
عدالتی تاریخ کے غیر معمولی فیصلوں میں سے ایک فیصلہ سناتے وقت جسٹس انیل کیلور اور جسٹس شیام چانڈک کی عدالت نے چند بہت اہم باتیں کہی ہیں ، مثلاً یہ کہ استغاثہ کی پیش کردہ واقعات کی بعض کڑیاں گم ہیں ، جو کڑیاں ہیں وہ بھی آپس میں جڑتی نہیں ہیں ، ملزمین کا اقبالی بیان غیر معتبر ہے اور پیش کردہ شواہد کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ انہی ملزمین نے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے، قانون کی بالادستی قائم کرنے اور شہریوں کو تحفظ کی فراہمی کیلئے لازم ہے کہ حقیقی مجرموں کو سزا سنائی جائے۔ مزید برآں ، اپنے اس تبصرہ کیلئے تو جج حضرات اور اُن کے فیصلے کو تادیر یاد رکھا جائیگا کہ گرفتاریوں کے ذریعہ یہ پیغام دینا کہ کیس حل کرلیا گیا اور مجرموں کو قانون کے دائرہ میں لے آیا گیا ہے (تاکہ لوگ مطمئن ہوجائیں ) گمراہ کن ہے۔ یہ اور ایسے کئی مندرجات کیلئے یہ فیصلہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے اور اسے دیگر مقدمات کے حق میں نظیر بننا چاہئے بالخصوص ایسے مقدمات میں ، جن میں بے جا گرفتاریوں کے ذریعہ بے گناہوں کو ملزم اور ملزم کو مجرم بنانے پر اصرار ہوتا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم ولیم گلیڈ اسٹون نے ۱۸۶۸ء میں جو بات کہی تھی کہ ’’انصاف ملنے میں تاخیر انصاف سے محروم کرنے جیسا ہے‘‘ کتنی صحیح تھی اس کا احساس آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی کیا جاسکتا ہے۔ مذکورہ معاملے میں جن افراد کو ملزم بنایا گیا، اُن کی عمر کے اُنیس بیش قیمت سال قید خانے کی تاریکی کی نذر ہوگئے، اُدھر وہ اپنے بدترین شب و روز گزارتے رہے، اِدھر اُن کے اہل خانہ مسلسل آزمائش میں گھرے رہے۔ کون نہیں جانتا کہ جب کوئی نوجوان اتنے سنگین معاملے میں گرفتار ہوتا ہے تو اہل خانہ کو ہر جانب سے بے رُخی اور تشکیک و تحقیر ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے کسی ملزم کے یہاں نئی نئی ولادت ہوئی ہوگی تو اب وہ نومولود اُنیس سال کا ہوچکا ہوگا، نشوونما کا یہ پورا دَور اُس نے باپ کے سایۂ شفقت کے بغیر اور زمانہ کے شک و شبہ کے ساتھ گزارا ہوگا۔
اسی لئے بار بار یہ اپیل کی جاتی ہے کہ جب تک تحقیقاتی ایجنسیوں کے پاس ٹھوس اور پختہ ثبوت نہ ہوں کسی کو گرفتار نہ کیا جائے مگر، جیسا کہ فاضل جج صاحبان نے کہا ’’کیس حل کرلیا گیا ہے‘‘ کا تاثر دینے کے مقصد سے جامع تفتیش اور ٹھوس شواہد کے بغیر گرفتاریاں کرلی جاتی ہیں اور ادھوری تفتیش اور ناکافی شواہد ہی کی بنیاد پر مقدمہ فیصل کروانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ یہ طریقہ ملزم بنائے گئے لوگوں کے ساتھ ہی ناانصافی نہیں ، عدالت کا بھی وقت ضائع کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں مخصوص فرقہ اور طبقہ کو ہدف بنانے کا تکلیف دہ طریقہ بھی کسی سے چھپاہوا نہیں ہے جس سے گرفتار شدگان ہی کی بدنامی نہیں ہوتی، متعلقہ فرقے اور طبقے کو بھی رُسوائی سہنی پڑتی ہے۔ ایسا بار بار ہوا ہے اور درجنوں مقدمات میں استغاثہ کو منہ کی کھانی پڑی ہے، اس کے باوجود بار بار ایسا ہی کیا گیا ہے۔ زیر نظر فیصلہ کی روشنی میں کیا یہ اُمید کی جائے کہ کم از کم اب یہ طریقہ بند ہوگا۔