ممبئی ٹرین بم دھماکہ ۲۰۰۶ءمعاملے میں ۱۹؍سال قبل ممبئی کی سیشن کورٹ نے جن ۵؍ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی تھی ان میں سے ایک آصف بشیر خان بھی تھے ، اب بے گناہ ثابت ہونے پر رہا ہوں گے
EPAPER
Updated: July 21, 2025, 11:23 PM IST | Sarjil Qureshi | Jalgaon
ممبئی ٹرین بم دھماکہ ۲۰۰۶ءمعاملے میں ۱۹؍سال قبل ممبئی کی سیشن کورٹ نے جن ۵؍ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی تھی ان میں سے ایک آصف بشیر خان بھی تھے ، اب بے گناہ ثابت ہونے پر رہا ہوں گے
ممبئی لوکل ٹرین سلسلہ وار بم دھماکوں کے فیصلے کی خبر جیسے ہی جلگاؤں کے علاقہ مہرون میں آصف خان بشیر خان(ملزم نمبر۱۳ ) کے گھر پہنچی تو یہاں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ آصف کو سیشن کورٹ نے پھانسی کی سزا سنائی تھی اور اب ۱۹؍برس بعد وہ اس الزام سے بری ہوگئے۔ان کے اہل خانہ نے اس مسرت بخش خبر پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور مٹھائی تقسیم کی ۔
جلگاؤں کے آصف بشیر خان پر کیا الزامات تھے؟
یاد رہے کہ جلگاؤں کے رہنے والے آصف بشیر خان کے خلاف کم وبیش ۳؍ مقدمات درج ہوئے تھے۔ان میں پہلا : ممنوعہ تنظیم سیمی کا رکن ہونے(جلگاؤں کیس ۲۰۰۱ء جس میں وہ بری ہوچکے ہیں) ، دوسرا:ممبئی لوکل ٹرین سلسلہ وار بم دھماکے(جس میں سیشن کورٹ کے فیصلے میں موت کی سزا ملی تھی مگر اب ہائیکورٹ نے بری کردیا ) اورتیسرا : مالیگاؤں بم دھماکہ ۲۰۰۶ء معاملہ(اس میں بھی وہ بری ہوچکے ہیں) ہے۔ آصف خان نے سول انجینئرنگ کے بعد ممبئی کے لوکھنڈ والا کمپلیکس میں واقع ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازمت کی ۔ اطلاع ہے کہ اسی کمپنی کے کچھ کام کے سلسلے میں وہ ممبئی سے بیلگام گئے ہوئے تھے جہاں سے انہیں۱۷؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو مہاراشٹر انسداد دہشت گردی(اے ٹی ایس )نے گرفتار کیا تھا۔اس وقت اُن کی عمر کم و بیش۳۳؍ سال تھی ۔
والدہ اور اہل خانہ نے کیا کہا؟
اب ہائی کورٹ کی خصوصی عدالت کے فیصلے میں بیٹے کو بے قصور قرار دئیے جانے پر آصف کی والدہ حسنہ بانو بشیر خان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں کہاکہ ’’میرا بیٹا بے گناہ ہے ، ہم نے بہت تکلیف اٹھائی ہے، جس وقت اسے گرفتار کیا گیا تھا اسکے بچے چھوٹے چھوٹے تھے ۔ آصف کی اہلیہ نے کپڑے سلائی کا کام کرکے گھر خرچ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ہمیں انصاف تو ملا مگر بہت دیر سے۔انصاف تو جلدی ہونا چاہئے تھا۔میرے بیٹے کو پھنسایا گیا تھا۔میرے مرحوم شوہر ، بیٹے کی رہائی کے انتظار میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ میرا بیٹا اپنے والد کا آخری دیدار بھی نہیں کرسکا تھا۔‘‘
آصف بشیر خان کی چھوٹی بیٹی نصیبہ آصف خان جو ان دنوں بی یو ایم ایس کی تعلیم حاصل کررہی ہیں نے کہا کہ’’ انصاف ملنے کی خوشی ہے مگر انصاف دیر سے ملا ہے۔ابو کی کمی ہر محاذ پر محسوس ہوتی رہی ہے ۔خدا کا شکر ہے کہ اب ابو گھر لوٹیں گے ۔‘‘یاد رہے کہ آصف بشیر خان کے اہل خانہ میں والدہ ،بیوی اور دو لڑکیاں اور ایک لڑکا ہیں جن میں سے ایک لڑکی اور لڑکے کی شادی ہوچکی ہے ۔
آصف خان کے اہل خانہ کی اعانت و مدد کرنے والے انیس شاہ نے بتایا کہ’’ آصف خان پر الزام تھا انہوں نے بم نصب کیا ہے ۔اس پر کورٹ میں جمعیۃ علماء کے وکلاء نے بم دھماکوں کے وقت آصف خان کی موجودگی اندھیری سے ویرار تک کہیں پر نہیں ہونے کو ثابت کیا ہے ۔خصوصی کورٹ نے تمام دلائل اور ثبوت کو تسلیم کرکے یہ فیصلہ دیا ہے ۔‘‘ آصف بشیر خان کے ساتھی اور پرویز خان جن پر الزام تھا کہ وہ بھی ممنوعہ تنظیم سیمی کے رکن ہیں نے کہا کہ ’’ ہمیں قانونی انصاف تو مل گیا مگر ہمیں سماجی انصاف چاہئے اب بھی سماج میں ہمیں ایک الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔‘‘ یاد رہے کہ اس معاملے میں ۱۹؍سال قبل ممبئی کی سیشن کورٹ نے جو فیصلہ سنایا تھا اس میں جن ۵؍ افراد کو پھانسی کی سزا سنائی تھی ان میں سے ایک آصف بشیر خان تھے ۔سیشن کورٹ کے فیصلے میں ۱۳؍ ملزمین میں سے ۵؍ افراد کو پھانسی اور بقیہ ۷؍ افراد کو عمر قید کی سزا سنا