Inquilab Logo

نوجوان ووٹرس اور سیاسی فہم

Updated: April 21, 2024, 1:48 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

وہ چاہے ۲۰۱۴ء کا پارلیمانی الیکشن رہا ہو یا ۲۰۱۹ء کا، پولنگ سے قبل اس بات پر خاص زور دیا جاتا ہے کہ اس مرتبہ اتنے لاکھ نئے رائے دہندگان پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کرینگے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ملک میں نوجوانوں کی آبادی کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 وہ چاہے ۲۰۱۴ء کا پارلیمانی الیکشن رہا ہو یا ۲۰۱۹ء کا، پولنگ سے قبل اس بات پر خاص زور دیا جاتا ہے کہ اس مرتبہ اتنے لاکھ نئے رائے دہندگان پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کرینگے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ملک میں  نوجوانوں  کی آبادی کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں  کو، نوجوانوں  تک پہنچنے اور اُنہیں  رجھانے کے مؤثر ذرائع دستیاب ہیں  بالخصوص سوشل میڈیا۔ پہلی مرتبہ ووٹ دینے والے نوجوانوں کا جوش و خروش بھی زیادہ اور دیدنی ہوتا ہے مگر جب انہی نوجوانوں  کے پاس دوسری اور تیسری مرتبہ ووٹ دینے کا موقع ہوتا ہے تو ان کا جوش و خروش کسی نہ کسی حد تک ماند پڑ جاتا ہے۔ اگر جاری انتخابات کی بات کی جائے تو پہلے مرحلے میں  جتنی پولنگ ہونے چاہئے تھی کئی ریاستوں  میں  نہیں  ہوئی۔ کیا ان ریاستوں  میں  نوجوان کم ہیں ؟ ظاہر ہے کہ کم نہیں  ہیں  اس کے باوجود پولنگ کم ہوئی جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان ریاستوں  کے متعلقہ حلقوں  میں دیگر رائے دہندگان کی طرح نوجوانوں  نے بھی جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں  کیا۔ آج کے نوجوانوں  کے بارے میں  عام رائے یہ ہے کہ وہ بیس پچیس برس پہلے کے نوجوانوں  سے زیادہ باخبر ہیں ، جمہوریت کیا ہوتی ہے اور جمہوری حق کیا ہوتا ہے یہ بھی اُنہیں  سمجھانے کی ضرورت نہیں ۔ کس پارٹی کا کیا منشور ہے اور کس کو ووٹ دینا چاہئے جیسی باتیں  بھی اُن پر ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس کے باوجود نوجوانوں  میں  جوش و خروش اگر کم ہے تو اس پر غور کیا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں  ہماری رائے یہ ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان سیاسی طور پر باخبر تو ہیں  بیدار نہیں  ہیں ۔ ان میں  جمہوری حق کے تئیں  حساسیت بھی یا تو کم ہے یا بالکل نہیں  ہے۔ ابتداء میں  جوش اس لئے زیادہ ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ ووٹ دینا بذات خود ایک نیا تجربہ ہوتا ہے اس لئے نوجوان اس میں  پیش پیش رہتے ہیں  مگر دوسرے تیسرے اور بعد کے موقع پر اُتنا جوش نہیں  رہ جاتا۔ یہ صورت حال اس لئے ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام نے طلبہ کو پڑھنے لکھنے اور امتحان پاس کرنے کے قابل بنانا ہی ضروری سمجھا، اُن میں  جمہوریت، سیکولرازم، ملک کا تاریخی پس منظر، تاریخی و سماجی پیش منظر، عوام کے مختلف طبقات کے مسائل، الگ الگ سیاسی جماعتوں  کی ترجیحات، اُن کا طرز فکر، نقطۂ نظر وغیرہ سے بالکل بھی علاقہ نہیں  رکھا۔ اس سے بھی بنیادی بات یہ کہ ایک جمہوری ملک کے شہری کی حیثیت سے اُن میں  فرائض اور حقوق سے باخبری، ان کے تئیں  حساسیت پید ا کرنے کی کوشش نہیں  ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ کالجوں  اور یونیورسٹیوں  سے فارغ ہونے والے طلبہ کے ہاتھوں  میں  اعلیٰ ڈگریاں  تو ہوتی ہیں  مگر اس بات کی ضمانت نہیں  دی جاسکتی کہ تب تک اُن میں  اچھے شہری کی خصوصیات بھی پیدا ہوجاتی ہیں ۔
 ہمارے خیال میں  یہ نظام تعلیم کا عجز ہے جس کے سبب ہمارے نوجوان سیاسی طور پر باخبر ہیں  بیدار نہیں  ہیں ۔ اس نظام ِ تعلیم کے تحت نہ تو سیاسی موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے نہ ہی سیمینار اور مذاکرات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ گھروں  میں  والدین بھی اپنے بچوں  کو جمہوری حقوق و فرائض سے آگاہ کرنے اور اُنہیں  اچھا شہری بنانے کی کوشش نہیں  کرتے۔ اسی لئے اگر نوجوانوں  میں  پہلی مرتبہ ووٹ دینے کا جوش ہوتا ہے اور اس کے بعد ماند پڑنے لگتا ہے تو ہمیں  حیرت نہیں  ہوتی۔ یہ درسگاہوںکی بھی ذمہ داری ہے والدین کی بھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK