۸؍ اپریل (۲۰۲۵ء) کا سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکزی حکومت اور اُس کے نامزد کردہ ریاستی گورنر کے خلاف گیا۔ اس کے بعد وقف ترمیمی قانون پر ہرچند کہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے مگر عدلیہ کا رُخ ظاہر ہوگیا۔ عدالت نے مذکورہ قانون کی بعض ترامیم پر عمل آوری اگلی سماعت تک کیلئے روک دی۔
۸؍ اپریل (۲۰۲۵ء) کا سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکزی حکومت اور اُس کے نامزد کردہ ریاستی گورنر کے خلاف گیا۔ اس کے بعد وقف ترمیمی قانون پر ہرچند کہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے مگر عدلیہ کا رُخ ظاہر ہوگیا۔ عدالت نے مذکورہ قانون کی بعض ترامیم پر عمل آوری اگلی سماعت تک کیلئے روک دی۔ مرکز کو یہ بات، غالباً، ناگوار گزری۔ وزیر اعظم نے کچھ نہیں کہا مگر پارلیمانی اُمور کے وزیر کرن رجیجو نے جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ (عدلیہ) ہمارے (مقننہ) کے راستے میں نہ آئیں اور ہم آپ کی راہ میں حائل نہیں ہونگے۔ اُنہوں نے اس طرح آئین کی نئی تشریح کردی جبکہ آئین اِن اعلیٰ ترین اداروں کے اختیارات بہت پہلے طے کرچکا ہے۔ آئین یہ بھی طے کرچکا ہے کہ عدلیہ، پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کا محاسبہ کرسکتا ہے۔ اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ کئی قوانین یا ترامیم کو آئین کے معیار پر پرکھا جا چکا ہے۔ انتخابی بونڈ پر دیا گیا فیصلہ تازہ ہے۔ کون اس سے واقف نہیں ؟
اس کے باوجود تمل ناڈو اسمبلی کے منظور کردہ بلوں کی بابت سپریم کورٹ کے فیصلے پر نائب صدر جمہوریہ بھی برہم ہوئے اور عدلیہ کو اُس کی ذمہ داری سمجھانے لگے۔ اس کے فوراً بعد بی جے پی کے رکن پارلیمان نشی کانت دوبے آپے سے باہر ہوگئے اور عدلیہ کے سربراہ، چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی)، کے خلاف محاذ کھول دیا۔ وہ، سی جے آئی کو ملک میں خانہ جنگی کا ذمہ دار قرار دے بیٹھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اُن کے بیان سے علاحدگی اختیار کرلی مگر اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں تھا، نہ ہی پڑا کیونکہ پارٹی نے یہ نہیں کہا کہ اُن کا بیان غلط ہے اور انہیں بیان واپس لینا چاہئے۔ یہ بھی نہیں کہا کہ ایسے بیانات سے آئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں ۔ پارٹی نے جب نشی کانت دوبے کو روکنے کی طرح نہیں روکا تو اس سے دوسروں کا حوصلہ بلند ہوا۔ وہ اُن کا دفاع کرنے لگے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے یہ بتانا شروع کردیا کہ کانگریس کے دور میں عدلیہ کا وقار کس طرح پامال ہوا۔ دفاع کی ایسی کوششوں کی وجہ سے نشی کانت دوبے کو طاقت ملی ۔ اُنہوں نے سابق چیف الیکشن کمشنر(ایس وائی قریشی) کو مذہب کی بنیاد پر ہدف بنایا اور اُنہیں چیف الیکشن کمشنر کی بجائے چیف مسلم کمشنر کہہ کر توہین ِ منصب کا ارتکاب کیا۔ مگر پارٹی نے اُنہیں یاد نہیں دلایا کہ اُسے، اُن کے ایک بیان سے اظہارِ برأت کرنا پڑا ہے۔ نشی کانت دوبے نے آسام کے سابق رکن پارلیمان (راجیہ سبھا) بحر الاسلام کو موضوع بنایا کہ کس طرح کانگریس نے اُنہیں اپنی سہولت کیلئے کبھی راجیہ سبھا کی رُکنیت عطا کی اور کبھی ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا۔
جہاں عدلیہ پر سوال اُٹھانے اور اُسے متہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہیں کانگریس کی نام نہاد مسلم نوازی کو بھی درمیان میں لایا جارہا ہے۔ ایس وائی قریشی کانگریس کے دور میں چیف الیکشن کمشنر تھے۔ بحر الاسلام کانگریس کی جانب سے راجیہ سبھا بھیجے گئے تھے۔ ان بیانات کے ساتھ وزیر اعظم مودی کا ’’مسلمان پنکچر نہ بناتے‘‘والا بیان سامنے رہنا چاہئے تاکہ تفہیم آسان ہو۔
یہ ممکن نہیں کہ نشی کانت دوبے یا رکن راجیہ سبھا دنیش شرما (جن کا ذکر اوپر نہیں آسکا) باز آجائیں یا انہیں روکا جائے۔ رمیش بھدوری کو کب روکا گیا تھا؟ اس انداز کی لب کشائی ایک خاص سیاسی مقصد کے تحت ہوتی ہے مگر ایسا کرتے وقت یہ فراموش کردیا جاتا ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ۔ یہ بڑا قومی خسارہ ہے۔