اس بار کے اسمبلی انتخاب میں جس طرح مہا گٹھ بندھن نے سیماچل کے عوامی مسائل کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی یقین دہائی کرائی ہے اس سے وہاں کی سیاسی فضا ضرور بدلی ہے اور بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہوئی ہیں ۔ البتہ ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کر بعض حلقوں میں مہا گٹھ بندھن کیلئےپریشانی ضرور ہے۔
بہار الیکشن۔ تصویر:آئی این این
بہار میں جس دن سے اسمبلی انتخاب کا عمل شروع ہوا اسی دن سے ریاست کے گلی کوچوں میں یہ چہ می گوئیاں شروع ہوگئیں کہ اس بار بھی ریاست میں نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تشہیری عمل ہوگا اور اس سے ریاست کی فضا نا خوشگوار ہو سکتی ہے۔لیکن اس بار بہار کے عوام نے ایک طرف نہ صرف ووٹ فیصد میں بے تحاشہ اضافہ کرکے آزاد ہندوستان میں ایک تاریخی ریکارڈقائم کیا تو دوسری طرف تمام تر افواہوں اور اشتعال انگیزی کو بے اثر کرتے ہوئے سماجی تانے بانے کو مستحکم بنائے رکھا۔یہ اور بات ہے کہ اب قیاس آرائیوں کا دور شروع ہو چکا ہے کہ دونوں اتحادیوں نے اپنے اپنے دعوے کے ذریعہ اپنے حامیوں کو اطمینان دلا رہے ہیں کہ حکومت پر وہ قابض ہوں گے۔قومی جمہوری اتحاد کا دعویٰ ہے کہ وہ اقتدار میں قائم رہیں گے تو مہا گٹھ بندھن کو یقین ہے کہ اقتدار کی تبدیلی ہوگی اور وہ اقتدار سنبھالیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ اسمبلی انتخاب کے مقابل اس بار دونوں اتحادیوں نے اپنی طاقتیں جھونکیں ۔ اگر وزیر اعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کے ساتھ درجنوں مرکزی وزراء اور چار ریاستوں کے وزیر اعلیٰ نے قومی جمہوری اتحاد کے امیدواروں کی حمایت میں عوامی جلسے اور روڈ شو کئے تو دوسری طرف مہا گٹھ بندھن کی طرف سے راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی ، اکھلیش یادوکے ساتھ تیجسوی یادو نے بھی انفرادی طورپر ۱۵۵؍عوامی جلسوں سے خطاب کر کے یہ ثابت کردیا کہ وہ اس بہار اسمبلی انتخاب کو کس سنجیدگی سے لڑ رہے ہیں اور ان کے اتحادیوں نے بھی اپنی پوری طاقت جھونک کر یہ ثابت کردیا کہ بر سراقتدار نتیش کمار اور مرکزی حکومت کی تمام تر سہولیات اور یک طرفہ قومی ذرائع ابلاغ کے تشہیری عمل کے باوجود زمینی سطح پر مہا گٹھ بندھن کتنا مستحکم ہے اور اپنے انتخابی ایجنڈوں کو اپنے ووٹروں تک پہنچانے میں کس قدر کامیاب رہے ہیں۔
بہر کیف! اب اسمبلی انتخاب کا نتیجہ ہی یہ ثابت کرے گا کہ بہار کے عوام نے اپنا فیصلہ کس کے حق میں دیاہے اور ان کے فیصلے کی بنیاد کیا رہی ہے ۔کیوں کہ تمام سیاسی مبصرین اس بار بہار کے عوام کی نبض شناسی میں ناکام رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ووٹنگ ختم ہونے کے بعد بھی کسی برقی میڈیا کے چغادریوں کو بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ بہار میں ۶۵؍ فیصد تک بھی پولنگ ہوئی ہے ۔جب انتخابی کمیشن کا ڈیٹا سامنے آیا تو چہار طرف سے یہ آواز آنے لگی کہ بہار میں ریکارڈ ووٹنگ ہوئی ہے۔ اسی طرح کوئی بھی سیاسی جماعت حتمی طورپر یہ نہیں کہہ سکتی کہ انہیں کتنی سیٹیں مل رہی ہیں ۔ بس سیاسی دعوے ہو رہے ہیں کہ حکومت کس کی بنے گی ۔لیکن اس تلخ سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس بار بہار میں سیاسی اونٹ اپنی کروٹ بدلے گا اس طرح کے آثار نمایاں ہیںاور اس کی وجہ یہ ہے کہ مہا گٹھ بندھن اپنی اس سیاسی حکمت عملی میں کامیاب رہاہے کہ اس کے جو کور ووٹر ہیں اس میں نہ صرف جوش وخروش بھرا ہے بلکہ ووٹوں کے انتشار کو روکنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔اس لئے ریاست میں مہا گٹھ بندھن کا حوصلہ بلند نظر آرہاہے۔جہاں تک قومی جمہوری اتحاد کا سوال ہے تو اس نے بھی اپنی طاقت جھونک رکھی تھی مگر اس تلخ حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ نتیش کمار کو اعلانیہ طورپر وزیر اعلیٰ کا چہرہ نہیں بنایا جانا اور پھر پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد نائب وزیر اعلیٰ وجے سنہا اور لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر ومرکزی وزیر چراغ پاسوان نے جس طرح نتیش کمار کی قیادت کے خلاف آواز بلند کی اور بھاجپا کے بڑے لیڈرو ںنے سب کو اَن سُنی کی ہے اس سے انتہائی پسماندہ طبقے کے جوش وخروش میں کمی دیکھی گئی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح امیت شاہ اور نریندر مودی دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس بار این ڈی اے کی حکومت بنے گی اور بھاجپا کے وزیر اعلیٰ ہونے کا اشارہ بھی دے رہے ہیں تو بہار کی سیاسی تصویر کیسی ابھرتی ہے اس کے متعلق فی الوقت کچھ بھی کہنا عجلت بازی ہوگی۔البتہ اب سب کی نگاہیں سیمانچل پر ٹکی ہوئی ہیں کیوں کہ سیمانچل کی ۲۹؍ سیٹیں بہار میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں ۔سیمانچل یعنی پورنیہ، کشن گنج، ارریہ، کٹیہار ، سپول اور ساتھ ساتھ مدھے پورہ وسہرسہ بھی مسلم اقلیت کی اکثریت والے علاقے ہیں ۔ بالخصوص کشن گنج میں ۶۷؍ ، کٹیہار میں ۴۲؍ ارریہ میں ۴۱؍ اور پورنیہ میں ۳۷؍ فیصد ووٹر مسلمان ہیں اور بقیہ اضلاع میں ۲۵؍ سے ۱۵؍ فیصد مسلم ووٹر ہیں ۔ چوں کہ اس بار سیمانچل میں بھی ایک نئی سیاسی فضا قائم ہوئی ہے اور ریاست کے لوگوں کو یہ امید ہے کہ اس بار وہاں مہا گٹھ بندھن کو بڑی کامیابی ملے گی اور اسدالدین اویسی نے جس طرح گزشتہ اسمبلی انتخاب میں ووٹوں کو منتشر کیا تھا وہ اس بار نہیں ہوگا۔لیکن جب تک نتیجہ سامنے نہیں آتا ہے اسی طرح کی چہ می گوئیاں ہوتی رہیں گی کیوں کہ اس ملک میں سب کو یہ آزادی ہے کہ وہ اپنے سیاسی وجود کیلئے کہیں سے بھی امیدوار کھڑے کرے ۔ البتہ اس وقت ملک میں جس طرح اقلیت مسلم مخالف فضا چل رہی ہے اس سے سیمانچل کے لوگ بھی انجان نہیں ہیں ۔اس لئے مہا گٹھ بندھن کے ساتھ ساتھ این ڈی اے کو بھی امید ہے کہ وہ سیمانچل میں اپنی زمین مضبوط رکھیں گے۔ ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ جس طرح وہاں آزادی کے بعد زیادہ تر سیاسی نمائندے اقلیت مسلم طبقے کے رہے ہیں اس لحاظ سے ان علاقوں میں تعلیمی پسماندگی دور نہیں ہوئی ہے اور شعبۂ حیات کے دیگر مسائل بھی ریاست کے دوسرے حصوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہی پریشان کن ہیں ۔ بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں اور طبی سہولیات کے مراکز کے فقدان نے وہاں کے لوگوں کو بے سمت سیاست کا شکار بنا رکھا ہے۔لیکن اس بار کے اسمبلی انتخاب میں جس طرح مہا گٹھ بندھن نے وہاں عوامی مسائل کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی یقین دہائی کرائی ہے اس سے وہاں کی سیاسی فضا ضرور بدلی ہے اور بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہوئی ہیں ۔ البتہ ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کر بعض حلقوں میں مہا گٹھ بندھن کیلئےپریشانی ضرور ہے لیکن جس طرح ملک کی سیاسی فضا کی روشنی میں وہاں ماحول سازی ہوئی ہے اس کے نتائج مثبت ہو سکتے ہیں اور وہ مہا گٹھ بندھن کیلئے معاون ہو سکتا ہے۔