Inquilab Logo Happiest Places to Work

کل کا بنگلہ دیش اور آج کا بنگلہ دیش

Updated: April 29, 2025, 1:37 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی شیخ حسینہ کے دور میں بنگلہ دیش میں کوئی معاشی بدحالی نہیں ہوئی بلکہ معاشی ترقی کے حوالے سے اس کا نام لیا جانے لگا تھا مگر عوام بے چین تھے۔ وہ کچھ عرصہ تو خاموش رہے لیکن رفتہ رفتہ یہ خاموشی بغاوت میں بدل گئی اور بغاوت کا نتیجہ کیا ہوا یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اگر بہت آسانی سے کہا جائے تو آج کا بنگلہ دیش کل جیسا بنگلہ دیش نہیں  رہا۔ یہ وہ بنگلہ دیش نہیں ہے جسے کبھی ’’بنگا بندھو‘‘ نے بنایا تھا، بنگا بندھو سے  ہمارا مطلب شیخ مجیب الرحمان سے ہے جنہوں  نے برصغیر کے اس حصے کو پاکستان سے الگ کرکے ایک نئی ریاست بنگلہ دیش کی بنیاد ڈالی تھی۔ آج تو معاملہ یہ ہے کہ موجودہ بنگلہ دیش میں یہ بحث عام ہے کہ بنگلہ دیش کا نام ہی بدل دیا جائے۔ بنگلہ دیش کے کچھ حلقوں  میں  کہا جارہا ہے کہ اسے اسلامی بنگلہ دیش یا  اسلامی جمہوریہ بنگلہ دیش کہا جائے۔یہ فیصلہ تو ابھی نہیں  ہوا اور اس فیصلے کا ہونا اتنا آسان بھی نہیں  ہے لیکن وہ بنگلہ دیش جو کل تک ہندوستان کے  ایک صوبے جیسا تھا آج ایک الگ اکائی بن چکا ہے۔ اتفا ق سے بنگلہ دیش کی کہانی بہت عجیب و غریب بھی ہے۔ یہی بنگلہ دیش ہے جس میں  پہلی بار ہندوستانی مسلم لیگ کا قیام ہوا تھا۔ اس سے پہلے بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کا حصہ تھا اور یہاں  مختلف پارٹیاں  تھیں  اور اسی طرح پنجاب میں  بھی بہت سی پارٹیاں  تھیں  جو مسلم بھی تھیں  لیکن ان میں  کوئی اتفاق رائے نہیں  تھا۔
    یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے لیڈر محمد علی جناح نے ایک ایسا ملک اپنے لئے اور مسلمانوں  کے لئے کیوں  بنایا جس میں  مذہب کے علاوہ کوئی چیز مشترک نہیں  تھی۔دنیا کے نقشے پر نظر ڈالئے تو کوئی ایسا ملک نہیں  ہے جس کے دو ٹکڑے ہوں  اور بیچ میں  ایک تیسرا ملک موجود ہو۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان برصغیر کے دو حصے تھے۔ ان کے بیچ میں  ہندوستان موجود تھا اور ہے۔  محمد علی جناح تیز طرار وکیل اور دانشور تھے لیکن ان سے ایک غلطی  ہوئی تھی۔ مسلم لیگ محض جاگیر داروں  اور رجواڑوں  کی پارٹی رہی۔ یہ بھی دیکھئے کہ مسلم لیگ بننے کے بعد اس کے پہلے سیکریٹری راجہ مجمود آباد تھے، اس کے علاوہ بھی اودھ کے نواب اور جاگیر دار اس میں  شامل تھے اور جہاں  تک پنجاب کا سوال ہے اور وہ بھی آج کے پنجاب کا ، مسلم لیگ کے بنتے وقت وہاں  بھی کئی پارٹیاں  تھیں  اور وہ سب کی سب جاگیرداروں  اور رجواڑوں  کی تھیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہب ایک اکائی تھی لیکن ان میں  کوئی نظریاتی اتفاق نہیں  تھا اس لئے مسلم لیگ بننے کے بعد جب پہلی مرتبہ آج کے مغربی پنجاب میں  ووٹنگ ہوئی تو مسلم لیگ کو صرف ۱۷؍فیصد ووٹ ملے تھے۔محمد علی جناح اس سے اتنے بدگمان ہوئے کہ انہوں  نے ہندوستان چھوڑ کر یورپ میں  پناہ لی لیکن اس کے بعد شاعر مشرق علامہ اقبال کی پیش رفت کے بعد وہ پھر سے مسلم لیگ میں  آگئے۔ اس وقت تک پاکستان کا تصور جڑ پکڑ چکا تھا اس لئے اس بار جب ووٹنگ ہوئی تو مسلم لیگ کو ۷۰؍ فیصد سے بھی زیادہ ووٹ ملے۔
  یہ بھی دیکھئے کہ مہاتما گاندھی نے بڑی دانشوری کی تھی کہ ایک تو جنوبی افریقہ سے واپسی کے بعد انہو ں نے نہ صرف کانگریس کو مضبوط کیا بلکہ اپنا لباس بھی بدل ڈالا۔ مہاتما گاندھی کو یہ احساس تھا کہ کانگریس بنیادی طو رپر ایک دیہی پارٹی ہے اور دیہی پارٹی کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک کسان پارٹی ہے۔ اس وقت کسان کے پاس ایک چادر یا دھوتی کے علاوہ کوئی لباس نہیں  ہوتا تھا اور مہاتما گاندھی نے یہی لباس زیب تن کیا اور اس طرح وہ ہندوستان کے غریب آدمیوں  میں  بالکل گھل مل گئے۔ کانگریس کا ہندوستان میں  کامیابی کا یہ بہت اہم  راز  تھا۔ 
 اب آئیے آج کے بنگلہ دیش کی طرف۔ ۱۹۷۱ء  میں  جب پاکستان میں  الیکشن ہوئے تو عوامی پارٹی کو مغربی اور مشرقی پاکستان میں  ۶۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے لیکن یہ زمانہ جنرل یحییٰ خان کا زمانہ تھا۔ انہوں نے ہی شیخ مجیب الرحمان کو قید کروایا تھا لیکن اس کا سارا الزام یحییٰ خان پر ڈالنا بھی غلط ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس سلسلے میں  کچھ کام نہیں  کیا تھا۔ بنگ بندھو یعنی شیخ مجیب الرحمان کو اب یہ معلوم ہوگیا کہ جس پاکستان میں  یہ نہیں  مانا جاتا کہ اکثریت سے ووٹ پانے والی پارٹی کو ہی اقتدار ملنا چاہئے اس میں  اب مشرقی پاکستان کی پارٹیوں  کا کوئی عمل دخل نہیں  رہ گیا ہے۔ وہ پاکستانی جیل سے نکل کر لندن پہنچے اور وہیں  سے انہوں  نے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا۔ یحییٰ  خان نے اور بہت بڑی حد تک ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس نعرے کا سیاسی طور پر کوئی جواب نہیں  دیا بلکہ مشرقی پاکستانی پر حملہ کردیا۔  اس حملے کا کیا نتیجہ نکلا، یہ تاریخ کا حصہ ہے۔کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مغربی پاکستان کی حملہ آور فوجو ں  نے مشرقی پاکستان کو جہنم کا اکھاڑہ بنادیا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: مولانا آزاد اور سردار پٹیل کو رکشے میں دیکھا ہے؟

  ہندوستان یہ جانتا تھا کہ بنگلہ دیش میں  فوج کی ایک بڑی اہمیت ہے اور فوج کئی گروہو ں میں  بنٹی ہوئی ہے، ایک گروہ اگر شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ تھا تو دوسرا گروہ کسی اور فوجی افسر کے ہمراہ تھا۔ نتیجہ یہی ہوا کہ جنرل ضیاء کی بیوہ، جن کا نام خالدہ ضیاء ہے، آج بھی موجود ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مجیب الرحمان کی صاحبزادی شیخ حسینہ کے دور میں  بنگلہ دیش میں  کوئی معاشی بدحالی نہیں  ہوئی لیکن عوام اپنی آواز کو دَبتا دیکھ کر کچھ عرصہ تو خاموش رہے لیکن رفتہ رفتہ یہ خاموشی بغاوت میں  بدل گئی اور بغاوت کا نتیجہ وہ ہوا جس کا کسی نے تصور بھی نہیں  کیا تھا۔ موجودہ بنگلہ دیش میں  اپنی کارروائیاں  کرنے کے لئے پاکستان کی آئی ایس آئی کو بھی موقع مل گیا لیکن بنگلہ دیشی ایک بار پھر ہوشیار ثابت ہوئے۔پاکستان نے انہیں  بہت لبھانا چاہا لیکن جب پاکستان کا ایک خارجہ وفد بنگلہ دیش پہنچا تو بنگلہ دیش نے پاکستانی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ ۱۹۷۱ء میں  بنگلہ دیشیوں  کے ساتھ جو ظلم ہوا تھا پہلے اس کی معافی مانگی جائے اور یہ کہا جائے کہ پاکستان نے ایک سنگین غلطی کی تھی۔ اس کے علاوہ جب سابق مشرقی پاکستان میں  سیلاب آیا تھا تو عالمی ادارو ں نے حکومت پاکستان کو ہزاروں  ڈالر پیش کئے تھے۔ آج کی بنگلہ دیش حکومت نے یہ اعلان کیا کہ یہ سارا سرمایہ جو تقریباًساڑھے چار ارب تھا ، اسے بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے اور اس کے بعد ہی آج کا بنگلہ دیش آج کے پاکستان سے سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ حسینہ کے بعد اقتدار سنبھالنے والے ڈاکٹر یونس نہ صرف تعلیم یافتہ انسان ہیں  بلکہ دانشور ہے۔ اُنہیں  معاشیات کا ماہر، آنٹرپینر اور سول سوسائٹی کا لیڈر بھی مانا جاتا ہے۔ ہمیں  امید ہے کہ ڈاکٹر یونس آج کے بنگلہ دیش کی طاقت بنیں  گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK