Inquilab Logo

’’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر‘‘

Updated: May 04, 2024, 12:56 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

زیر نظر مضمون میں ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی عکاسی کی گئی ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان کیا سوچتے ہیں جب اُن کا نام لے کر مدمقابل کو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ سیاسی و انتخابی رسہ کشی میں اُن کا نام لینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

مَیں ہندوستانی مسلمان ہوں اور محسوس کررہا ہوں کہ انتخابی گہما گہمی شباب پر ہونے کے باوجود کوئی میری طرف تاکنے کو تیار نہیں ہے۔ میرا تذکرہ بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ سبھی کو میرے ووٹوں کی ضرورت ہے مگر درِ پردہ، خاموشی سے۔ رہی میری ضرورت؟ تو اِس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب میرا تذکرہ بھی نہیں کیا جاتا، کبھی کبھار شاید مجبوراً یا مروتاً یا تکلفاً (تذکرہ) کیا بھی جاتا ہے تو بہ انداز دِگر، اقلیتوں کہہ کر مجھے اتنی جلدی ٹرخانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے یہ ڈر ہو کہ کوئی سن لے گا تو کیا ہوگا اور کوئی دیکھ لے گا تو کیا ہوگا۔ بعض علاقائی جماعتیں کبھی کبھار تذکرہ کرلیتی ہیں مگر وہ بھی میرا نام دیگر طبقات کےناموں میں چھپانے کی مصلحت کو لازم رکھتی ہیں۔ بتائیے مَیں آبادی کے لحاظ سے اٹھارہ تا بائیس کروڑ ہوں مگر ہندوتوا کی جارح سیاست نے سیاسی جماعتوں کو اس قدر خوفزدہ کردیا ہے اور مارے خوف کے وہ اتنی محتاط ہوگئی ہیں کہ مجھے اچھوت بنانے میں وہ بھی اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ مَیں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کی انتخابی تیاری مکمل ہے اور مخالفین سے نمٹنے کی اسٹراٹیجی بے داغ ہے تو نام لینے سے ڈرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اگر میرا نام لینے کے سبب آپ کو ہدف تنقید بنائے جانے کا خوف ہے تو اس کا تریاق بھی آپ کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہئے، وہ کیوں نہیں ہے؟ میرے پاس سوالات اور بھی ہیں، کئی بہت چبھتے ہوئے اور تلخ سوالات ہیں مگر مَیں چپ ہوں کہ کسی بلند مقصد اور اعلیٰ ہدف کو پانے کیلئے بہت کچھ فراموش کرنا پڑتا ہے، خاموش رہنا پڑتا ہے، گراں گوش بننا پڑتا ہے، سو مَیں عالم فراموشی میں، جہانِ خاموشی میں اور کیفیت ِ گراں گوشی میں ہوں مگر مجھے نظر انداز کرنے والے جان لیں کہ مجھے آپ کی یہ مصلحت کوشی یاد رہے گی جسے حالات بدلنے پر مَیں بزدلی کا نام دے دوں تو تعجب نہ کیجئے گا!
 صاحبو، مجھے اِن سیاسی جماعتوں سے، جن میں کانگریس ہے، سماج وادی پارٹی ہے، بہوجن سماج پارٹی ہے، راشٹریہ جنتا دل ہے، وغیرہ وغیرہ، ان سے تو شکایت ہے مگر زیادہ، بلکہ، بہت زیادہ شکایت وزیر اعظم سے ہے جو اپنے منصب کے وقار کو ملحوظ رکھے بغیر بار بار میرا نام لے کر مخالف سیاسی جماعتوں کو للکار رہے ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ آپ کی سیاسی مجبوری جو بھی ہو، آپ کو مخالف سیاسی جماعتوں سے کتنا ہی بیر ہو، اُنہیں نیچا دکھانے کی آپ کی چاہے جتنی خواہش ہو یا یہ کتنا ہی بڑا سیاسی تقاضا ہو، آپ کو پورا حق اور اختیار ہے کہ آپ جو چاہیں، کریں مگر مجھے کیوں بیچ میں لاتے ہیں ؟ مَیں تو خاموش ہوں، کچھ نہیں کہہ رہا ہوں مگر یہ سوچتا ضرور ہوں کہ کیا میرا نام لینا اتنا ضروری ہے کہ آپ کبھی گھس پیٹھیا کہیں، کبھی زیادہ بچے پیدا کرنے والا کہیں، کبھی اکثریتی فرقے کو خوف دلائیں کہ کانگریس اُن کا مال و متاع چھین کر میرے حوالے کردے گی؟ اول تو ایسا کیا نہیں جاسکتا، دوئم کانگریس نے اپنے پچپن سالہ دورِ اقتدار میں کبھی ایسا نہیں کیا، سوئم کبھی اُس نے میری جانب نظر التفات کی بھی تو آپ کی پارٹی نے اُس پر اتنی تنقیدیں کیں کہ اُسے اُصولی بات چھوڑ کر اپنے دفاع پر مجبور ہونا پڑا۔ مَیں یہ سب ہوتا ہوا دیکھتا ہوں اور بہت کچھ محسوس کرتا ہوں۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ۲۰۰۶ء میں ملک کے کئی طبقات کا نام لے کر کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر اُن کا پہلا حق ہے، اُنہوں نے صرف میرے حق کی وکالت نہیں کی تھی۔ مَیں تو کبھی یہ چاہوں گا بھی نہیں کہ کوئی پارٹی صرف میری بات کرے اور دیگر طبقات کو، جو میری ہی طرح معاشی طور پر پسماندہ ہیں، فراموش کردے، مگر آپ نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے پورے بیان کو میرے سر پر منڈھ دیا۔ میرا قصور کیا ہے؟ نہ تو مَیں نے ڈاکٹر صاحب سے گزارش کی تھی کہ وہ قومی وسائل پر جن طبقات کا حق ہے اُن کے ساتھ میرا نام لیں نہ ہی مَیں تمام وسائل پر پہلا حق اپنا مانتا ہوں۔ مَیں تو اس خیال کا حامل ہوں کہ تمام وسائل پر آبادی کے تمام طبقات کا منصفانہ حق ہے۔ جو ملے سب کو ملے۔ یہی میرا مذہب مجھے سکھاتا ہے۔ عدل۔ مَیں عدل کا قائل ہوں، اس کے باوجود مجھے کیوں مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے؟ 
 جناب ِ عالی، یہ پہلی بار نہیں ہورہا ہے مگر اِس بار بہت کھل کر، واضح طور پر بلکہ میرا نام لے کر کہا جارہا ہے جس کا مجھے حددرجہ ملال ہے مگر بعض اوقات مَیں اس ستم ظریفی کو اپنی اہمیت بھی سمجھنے لگتا ہوں کہ دیکھئے مَیں کتنا اہم ہوں، میرے بغیر اپنے جملو ں اور تقریروں میں آپ وہ کاٹ اور نشتریت نہیں پیدا کرپاتے جو آپ کو درکار ہوتی ہے۔ غالب نے کہا تھا ’’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر‘‘۔ سچ ہے نا، آپ بھی میرا نام لئے بغیر اپنی بات نہیں کہہ پاتے۔ مجھے گھس پیٹھیا کہہ دیا مگر کبھی سوچا کہ میرا نام کتنا اہم ہے؟ میرے بغیر بیان ادھورا، میرے بغیر تقریر بے جان، میرے بغیر طنز بے اثر، میرے بغیر تنقید بے رس۔ مَیں کتنا اہم ہوں۔ 
 جی، مَیں ہندوستانی مسلمانوں ہوں اور مجھے یہ کہتے ہوئے بڑا خوشگوار احساس ہوتا ہے کہ اِدھر چند برسوں میں ہوشمندی سے کام لے کر مَیں نے بہت سے ایسے تنازعات کو پیدا ہی نہیں ہونے دیا جو سیاسی طور پر میرے خلاف ماحول سازی میں کلیدی کردار ادا کرسکتے تھے۔ اِدھر چند برسوں میں میرا یہی طریق رہا۔ مجھے چھیڑنے کی کافی کوشش کی گئی کہ مَیں ردعمل ظاہر کروں مگر مَیں جانتا ہوں کہ ’’خاموشی ہزار بلاؤں کو ٹالتی ہے‘‘ اسلئے مَیں ہزار بلاؤں کو ٹالنے میں کامیاب ہوا اور ایسی صورت حال نہیں پیدا ہونے دی کہ برادران وطن بھی مجھ سے کبیدہ خاطر ہوجائیں اور اُنہیں میرے دفاع میں تکلف ہو۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ بھلے ہی مَیں خاموش ہوں مگر برادران وطن میں بڑی تعداد اُن انصاف پسندوں کی ہے جو مجھے درمیان میں لائے جانے اور بلا وجہ متہم کرنے کی کوششوں کی پُرزور مخالفت کررہے ہیں۔کئی صحافیوں نے دوران ِ گفتگو میری تعریف کی کہ مَیں اپنے سیاسی معاندین کو کوئی موقع نہیں دے رہا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھ میں یہ سیاسی شعورپیدا ہوگیا ہے، مجھے خوشی ہے کہ مَیں حالات کو سمجھنے لگا ہوں، مجھے خوشی ہے کہ برادران وطن میرے حامی ہیں، میری ترجمانی کرتے ہیں اور جو بات مَیں جس انداز میں کہہ سکتا ہوں وہ اُس سے بہتر انداز میں کہہ جاتے ہیں۔ یہ میری طاقت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK