یہ اقدام ۲۰۲۷ء کے اسمبلی انتخابات سے پہلے ممکنہ حکومت مخالف لہر کو روکنے کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی زمینی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
EPAPER
Updated: September 04, 2025, 12:21 PM IST | Ashish Mishra | Mumbai
یہ اقدام ۲۰۲۷ء کے اسمبلی انتخابات سے پہلے ممکنہ حکومت مخالف لہر کو روکنے کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی زمینی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
اتر پردیش میں حکمراں بی جے پی کے اپنے ہی اراکین اسمبلی کی کارکردگی کا سروے کرانے کے فیصلے نے سیاسی حلقوں میں کافی ہلچل مچا دی ہے۔ یوپی بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق یہ ۲۰۲۷ء کے اسمبلی انتخابات سے پہلے ممکنہ حکومت مخالف لہر کو روکنے کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی زمینی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔ خاص طور پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور اس کی اتحادی کانگریس ۔
منصوبے کے مطابق، پارٹی ریاست بھر میں تقریباً۱ء۶۵؍ لاکھ بوتھوں پر تعینات ۲۰؍ لاکھ سے زیادہ پارٹی کارکنوں سے براہ راست ایم ایل ایز کی تفصیلات جمع کرے گی۔ یہ اس سروے کے علاوہ ہوگا جو بی جے پی اکثر آزاد ایجنسیوں کی مدد سے کسی بھی انتخابی ریاست میں موجودہ زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے کرتی ہے۔ نچلی سطح پر عوامی رائے سے لے کر تنظیم کی توقعات تک ، اس سروے کو کئی زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔پارٹی کی اس مشق کے پس پشت سبب ۲۰۲۲ء کا تجربہ ہے جس میں بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں بڑے پیمانے پر نئے امیدوار کھڑے کرکے بازی پلٹ دی تھی۔ ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات سے پہلے سوامی پرساد موریہ، دارا سنگھ چوہان اور ڈاکٹر دھرم سنگھ سینی سمیت کئی ایم ایل ایز جو پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور اس وقت کی یوگی حکومت میں وزیر تھے، بی جے پی چھوڑ کر ایس پی میں شامل ہو گئے جس پر قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ بی جے پی کم سے کم ایم ایل اے کا ٹکٹ کاٹے گی۔ لیکن، دیکھا گیا کہ اس ہماہمی سے حکمراں جماعت کی حکمت عملی پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات میں ، بی جے پی نے کل ۱۰۴؍ ایم ایل اے کو دوبارہ الیکشن لڑنے کا موقع دیئے بغیر امیدواروں کو تبدیل کیا۔ اس فیصلے نے مقامی سطح پر اٹھنے والی حکومت مخالف لہر کو کافی حد تک ختم کر دیا اور۸۰؍نئے امیدوار جیت گئے ۔ اب اگر ہم اس اعداد و شمار میں ان سیٹوں کو شامل کریں جن پر بی جے پی ۲۰۱۷ء کے انتخابات میں ہاری تھی تو ایسی سیٹوں کی تعداد ۸۵؍ بنتی تھی، ہاری ہوئی سیٹوں کو جیتنے کیلئے۶۹؍ سیٹوں پر نئے چہرے عوام کے سامنے لائے گئے جن میں سے صرف ۱۹؍ امیدوار ہی عوام کا اعتماد جیت کر اسمبلی میں پہنچ سکے ۔
۲۰۱۷ء میں ۳۱۲؍اسمبلی سیٹیں اور۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات میں ۲۵۵؍سیٹیں جیت کر بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے والی بی جے پی کو۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوپی میں صرف ۳۳؍ لوک سبھا سیٹیں جیتنے والی بی جےپی کی کارکردگی کئی اراکین اسمبلی اور وزیروں کی سیٹوں پرانتہائی خراب رہی ۔ اگر ۱۸؍ ویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کو اسمبلی حلقوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حکمراں بی جے پی صرف ۱۶۲؍ حلقوں میں برتری حاصل کر سکی اور۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں ایس پی زیادہ سے زیادہ ۱۸۳؍ سیٹوں پر آگے تھی۔
اسی وقت ، کانگریس جس نے ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات ایس پی کے ساتھ اتحاد میں لڑا ،۴۰؍ اسمبلی سیٹوں پر برتری حاصل کی۔ اسی طرح جہاں این ڈی اے کو لوک سبھا انتخابات میں ۱۷۴؍ اسمبلی حلقوں پر برتری حاصل ہوئی، وہیں اپوزیشن’انڈیا اتحاد‘۲۲۴؍ سیٹوں پر آگے تھا۔ اپوزیشن اتحاد جو۵۰؍ سیٹوں پر آگے تھا، ریاست میں حکومت بنانے کیلئے درکار۲۰۲؍اسمبلی سیٹوں کے جادوئی اعداد و شمار سے بہت آگے تھا۔ اسی نے بی جےپی کی پریشانی بڑھا دی ہے۔
۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات کے دوران پارٹی کے روایتی ووٹروں کا جوش بہت سی سیٹوں پر کم تھا اور دیہی علاقوں میں اینٹی انکم بنسی (حکومت مخالف رجحان) کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ ان نتائج نے پارٹی کو خبردار کیا کہ اگر بروقت اصلاح نہ کی گئی تو آئندہ اسمبلی انتخابات میں نقصان ہو سکتا ہے۔ایم ایل اے کا سروے اس اصلاحاتی عمل کا ایک حصہ ہے۔ ایم ایل اے کی کارکردگی کے سروے میں بی جے پی ان اسمبلی حلقوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرے گی جہاں اسے ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں شکست ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ پارٹی کو دو اور اتحادیوں ۔ آر ایل ڈی اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کو شامل کرنے کیلئے کئی اسمبلی سیٹوں پر اپنا حصہ چھوڑنا پڑے گا۔ یہ پارٹیاں ۲۰۲۲ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد ایس پی سے تعلق توڑ کر بھگوا پارٹی میں شامل ہو گئی تھیں ۔
بی جے پی کے اس اقدام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت انتخابات میں جیت کیلئے کسی قسم کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔ جن ایم ایل اے کے خلاف عوام میں عدم اطمینان ہے یا جن پر کام نہ کرنے، متکبرانہ رویے یا بدعنوانی کے الزامات ہیں ان کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ۲۰۲۷ء کے اسمبلی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم صرف سیاسی اثر و رسوخ یا ذات پات کی مساوات کی بنیاد پر نہیں ہوگی بلکہ عوام اور تنظیم کی رائے پر ہوگی۔
یہ بھی پڑھئے : جہیز کیلئے تشدداورمعاشرہ کی بے حسی
معلومات کے مطابق سروے میں بی جے پی کے زمینی کارکنوں سے پوچھا جائے گا کہ ایم ایل اے کتنی بار علاقے میں آتے ہیں ، مسائل سنتے ہیں یا صرف اقتدار کے اثر میں ڈوبے رہتے ہیں ۔ ترقیاتی کاموں کی حالت، سرکاری اسکیموں کے فائدے اور عام لوگوں کی ایم ایل اے تک رسائی کو بھی جانچا جائے گا۔ بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر سنٹرل یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار سشیل پانڈے کہتے ہیں ’’بی جے پی جانتی ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے صرف مودی۔یوگی کی مقبولیت ہی کافی نہیں ہے، بلکہ مقامی چہروں کی شبیہ بھی اتنی ہی ضروری ہے۔‘‘
یہ سروے ایم ایل ایز کو بالواسطہ انتباہ ہے کہ پارٹی کام کرو یا کام چھوڑو کے اصول پر کام کر رہی ہے۔ جو ایم ایل اے عوام سے منقطع پائے گئے، ان کے ٹکٹ کاٹے جانے کا امکان ہے۔ سشیل پانڈے کہتے ہیں ’’اس سے پارٹی کارکنوں کو یہ اعتماد بھی ملتا ہے کہ تنظیم صرف لیڈروں پر منحصر نہیں ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ سروے نہ صرف بی جے پی ایم ایل ایز کی مقبولیت کے بارے میں ہوگا بلکہ مرکزی اور ریاستی فلاحی اسکیموں کے اثرات کا بھی جائزہ لے گا۔ اس سے پتہ چلے گا کہ سرکاری اسکیموں کا فائدہ ووٹ میں تبدیل ہو رہا ہے یا کہیں نہ کہیں کوئی رکاوٹ ہے۔دراصل، بی جے پی کا یہ سروے صرف ایم ایل اے کا امتحان نہیں ہے بلکہ تنظیم کو مضبوط کرنے کی ایک بڑی حکمت عملی ہے۔ یہ پارٹی کیلئے خود شناسی کا موقع ہے اور ایم ایل ایز کیلئے ایک الرٹ سگنل بھی۔
(بشکریہ انڈیا ٹوڈے)