• Tue, 02 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

چونک اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر

Updated: September 01, 2025, 1:32 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

سیلاب کی کہانی سے وجود میں آنے والی تحریریں اگر پانی میں تیرتی ہوئی اور دھیرے دھیرے گلتی ہوئی محسوس ہوں تو اسے ایک سچی اور بڑی تخلیق کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بارش کا موسم اپنی فطرت کے ساتھ اس بار بھی آیا ہے لیکن جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ بہت ہی وحشت ناک ہے۔ زمین کے ساتھ زندگی کا زیر آب آ جانا اس دنیا کیلئے کوئی نیا تجربہ نہیں  ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں  کے بارے میں  گفتگو کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اسے مختلف زاویوں  سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک زاویہ وہ بھی ہے کہ قدرتی آفات کے سامنے کون ٹک سکا ہے۔ سیلاب کی جو تاریخ لکھی گئی یا آئندہ لکھی جائے گی اس میں  ذکر تو بہرحال انسانی آبادیوں  کہ مٹنے اور بہہ جانے کا ہی ہوگا، چاہے اسے کسی بھی عقیدے کی روشنی میں  دیکھا جائے۔ موسم کا مزاج اپنی فطرت کے ساتھ اس بات کا متقاضی ہے کہ انسانی معاشرہ اپنی سائنسی ایجادات کی روشنی میں  تحفظ کا سامان مہیا کر لے۔ دنیا کی بیشتر تہذیبوں  نے سیلاب کا تجربہ کیا ہے۔ یہ تجربہ انسانی آبادی اور اس سے متعلق مختلف اشیاء کے پانی میں  بہہ جانے کی روایت ہے۔ دنیا میں  جن تہذیبوں  کا تیزی سے ارتقا ہوا ان کا تعلق ساحلی اور نشیبی علاقے سے تھا۔ پانی کی زیادتی اور پانی کی فراوانی دونوں  میں  کتنا فرق ہے۔
 پانی ندی اور تالاب سے نکل کر جب زمین یا خشکی پر آتا ہے تو بارش بھی اس میں  اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک بارش تو وہ ہے جو درختوں ، پرندوں  اور انسانوں  کو اپنی ہلکی پھوار سی نم کرتی اور کبھی ایک دم سے تار بارش کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس بارش میں  بھیگنے والی زندگیاں  کتنی بشاش اور آسودہ دکھائی دیتی ہیں  لیکن کیا یہ سچ نہیں  کہ یہ ہلکی اور تیز بارش اس مشکل صورتحال کا احساس بھی دلاتی ہے جو سیلاب سے بڑی حد تک مخصوص ہے۔ وہ سیلاب ہی کیا جس کا پانی کاندھے اور سر تک نہ آئے۔ کبھی یہی پانی سر کے اوپر کچھ اس طرح آتا ہے کہ جیسے لمبی مسافت کی گرد جو سر پر آگئی ہے اسے دھویا جائے۔ جلال لکھنوی کا شعر ہے:
مجھ کو میری روش مٹاتی ہے=پاؤں  کی خاک سر پہ آتی ہے
 گرد و غبار سے پناہ مانگنے والی زندگی جب پانی کی زد میں  آتی ہے تو اس پر کیا گزرتی ہوگی۔سیلاب کی کہانی سے وجود میں  آنے والی تحریریں  اگر پانی میں  تیرتی ہوئی اور دھیرے دھیرے گلتی ہوئی محسوس ہوں  تو اسے ایک سچی اور بڑی تخلیق کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے مگر بنیادی بات یہ ہے کہ سیلاب کا فنکشن سیلاب سے برباد ہونے والی زندگیوں  کو نہ تو آباد کر سکتا ہے اور نہ لوٹا سکتا ہے۔ اسی لیے جی نہیں  چاہتا کہ اس سلسلے میں  کسی ناول یا شاعری کا حوالہ دوں ۔ جو زندگی اپنی موجودہ تباہی کے ساتھ سامنے دکھائی دے رہی ہے، وہ سب سے بڑی سچائی ہے۔اور سچائی کو ادب کے قالب میں  جب اور جس طرح ڈھلنا ہوگا وہ ڈھل جائے گی۔

یہ بھی پڑھئے :سوچا ہے کہ ’’ذاتی سفارت‘‘ نے ہمیں کیا دِیا؟

 گوتم بدھ نے کہا تھا کہ اس دنیا میں  زیادہ تر لوگ ایسے ہیں  جو اپنے وجود کے ٹکڑے سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ اشارہ تھا ایک ایسی ذہنیت کی طرف جو دوسروں  سے گریزاں  تھی۔ پانی سے گھرے ہوئے انسانوں  کو دیکھنا کتنا ناخوشگوار تجربہ ہے۔ اور وہ بھی ایسے انسانوں  کو جو تیزی کے ساتھ لہروں  کی زد میں  آتے جا رہے ہیں ۔
 صوبائی اور مرکزی حکومت اپنے اپنے طور پر سیلاب سے لوگوں  کو بچانے کی کوشش کرتی ہے، اور پھر یوں  ہوتا ہے کہ سیلاب اپنی روش کے ساتھ عام طور پر رات کے سناٹے میں  بستی میں  داخل ہو جاتا ہے۔ کسی کو شاید یہ خیال آیا تھا کہ اگر سمندروں  کو آپس میں  ملا دیا جائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ کون سا پانی کس ملک اور شہر سے گزرتا ہے، کہاں  اس کی طغیانی میں  اضافہ ہوتا ہے، اور کہاں  سے وہ کترا کر نکل جاتا ہے، یہ صرف سیاست کے موضوعات نہیں  ہیں  بلکہ انہیں  انسانی اخلاقیات کے طور پر بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب پانی کا رنگ سیلاب میں  اتنا گدلا ہو جائے تو اس سے خشکی میں  موجود انسانی آبادی کو اپنے وجود کی طرف دیکھنا چاہئے۔ ہندی کے اہم ترین شاعر کیدارنا تھ سنگھ کی ایک نظم’’پانی میں  گھرے ہوئے لوگ ‘‘ہے۔ اس کے چند مصرعے ملاحظہ کیجئے:
 پانی میں  گھرے ہوئے لوگ/ دعا نہیں  کرتے/ وہ پورے یقین سے دیکھتے ہیں  کہ پانی کو/ اور ایک دن/ بنا کسی اطلاع کے/ خچر،بیل یا بھینس کی پیٹھ پر/ گھر اسباب لاد کر/چل دیتے ہیں  کہیں  اور/ وہ کتنا حیرت ناک ہے/ کہ باڑھ چائے جتنی بھیانک ہو/ انہیں  پانی میں / تھوڑی سی جگہ ضرور مل جاتی ہے/ تھوڑی سی دھوپ/ تھوڑا سا آسمان!
 آخر کار ایک نظم کا حوالہ آ ہی گیا۔ مگر یہ نظم اس نظم سے کتنی مختلف ہے جو صرف کسی دہشت ناک منظر کو اس لیے سمیٹتی ہے کہ اسے محض سمیٹنا ہے۔ جو انسانی آبادی سیلاب کے تجربے سے واقف نہیں  ہے وہ پانی میں  گھرے ہوئے انسان کو اس نظر سے نہیں  دیکھ سکتی۔ پانی اور سیلاب کے پانی کو انسانی وجود کی داخلی دنیا کے سیاق میں  دیکھنے کا بھی یہ وقت نہیں  ہے۔ سیلاب کا پانی اس وقت تو صرف سیلاب کا پانی ہے جو دہشت ناک بھی ہے اور بربادی مغرور بھی۔ کیا یہ سچ نہیں  کہ جب سیلاب سے انسانی آبادی ڈوب رہی ہو تو ایسے میں  بارش کا کوئی قطرہ اپنی ذمہ داری محسوس نہیں  کرتا۔
 شہزاد احمد نے کہا تھا:
میں  کہ خوش ہوتا تھا دریا کی روانی دیکھ کر
چونک اٹھا ہوں  گلی کوچوں  میں  پانی دیکھ کر
 سیلاب کو قدرتی آفت کے طور پر دیکھنا ایک بات ہے اور پانی کو سیاسی اغراض کیلئے استعمال کرنا دوسری بات ہے۔اس میں  کوئی شک نہیں  کہ ندی اپنی صلاحیت کے مطابق پانی کو اپنے دامن میں  رکھ سکتی ہے۔ ندی کا دامن اس کی لمبائی اور چوڑائی ہے جسے دامن کا گھیر بھی کہا جا سکتا ہے۔لیکن جب کسی اور ندی کا پانی اس کے دامن کو تار تار کر دے تو اسے پانی کا پانی سے ملاپ تو نہیں  کہا جا سکتا۔ ملاپ ایک فطری عمل ہے اور وہ بھی پانی کا۔سیلاب کا پانی اپنے ساتھ جس مٹی کو لے جاتا ہے وہ سب سے زرخیز ہوا کرتی ہے۔نقصان اس زمین کا ہوتا ہے جو اچھی فصل بھی اگاتی ہے اور زندگی کی لذتوں  میں  اضافہ بھی کرتی ہے۔سیلاب کیا کچھ لے جاتا ہے اور کتنا کچھ وہ چھوڑ جاتا ہے،اس خیال سے دل ڈوبنے لگتا ہے۔مگر کیا کیا جائے کہ سیلاب بھی معمول کا عمل بن گیا ہے۔خشکی سے تری کی طرف قدم بڑھایا جائے تو پتہ چلے کہ قدم کا پھسلنا اور پھسلتے جانا کیسا ہے۔زمین میں  پاؤں  کا گرفتار ہو جانا پھسلنے کی آخری منزل ہے۔کبھی زمین اتنی مہربان ہو جاتی ہے کہ وہ انسانی وجود کے آدھے حصے کو ڈھانک لیتی ہے۔ دنیا میں  کبھی مجرموں  کو اس طرح بھی سزا دی جاتی تھی۔محفوظ مقام سے ایک نہایت غیر محفوظ مقام کی طرف دیکھنا کتنا آسان ہے۔ہماری تہذیبی زندگی کی بے حسی کا نہ جانے کن الفاظ میں  ذکر کیا جائے گا ۔

flood Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK