دُنیا ہماری سفارتی ناکامیوں کو نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس نے اپنا طرز عمل بدل لیا ہے۔ پہلگام کے بعد کوئی ہمارے ساتھ نہیں آیا۔ سب نے دہشت گردی کی مذمت کی، پاکستان کی مذمت نہیں کی۔
EPAPER
Updated: August 31, 2025, 2:38 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
دُنیا ہماری سفارتی ناکامیوں کو نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس نے اپنا طرز عمل بدل لیا ہے۔ پہلگام کے بعد کوئی ہمارے ساتھ نہیں آیا۔ سب نے دہشت گردی کی مذمت کی، پاکستان کی مذمت نہیں کی۔
کسی مسئلہ کا حل تبھی نکل سکتا ہے جب مسئلہ کی موجودگی کا اعتراف کیا جائے۔ اعتراف نہ کیا گیا تو مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا چنانچہ اس کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والی دشواریاں ہمیشہ جوں کی توں رہیں گی۔ ان سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ مسئلہ کا اعتراف کیا جائے اور اس کے حل کی مخلصانہ کوشش کی جائے۔ آج اس کالم میں جس مسئلہ کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے اُس کا تعلق ’’ذاتی سفارت‘‘ سے ہے۔ یہ اپنے طرز کی الگ اور نئی سفارت ہے جو گزشتہ گیارہ سال یعنی ۲۰۱۴ء سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایسی سفارت اُن سرگرمیوں میں نظر آتی ہے جن میں مصافحہ و معانقہ، مراسم اور محبت کا اظہار، مہمانوں کے اعزاز میں شاندار تقریبات کا انعقاد اور یہ یقین شامل ہے کہ اِن سے جھلکنے والی ’’دوستی‘‘ مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوگی۔
مگر، سوال یہ ہے کہ ان باتوں کو آج اس کالم میں کیوں زیر بحث لایا جارہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ہمار ا ملک عالمی نقشے پر اپنی جگہ اور مقام تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے ارباب اقتدار نے خیال کیا تھا کہ الگ الگ ممالک اگر اس کے حلیف نہیں تو دوست ہیں مگر معلوم ہوا کہ جنہیں ہم دوست سمجھ رہے تھے وہ دوست نہیں تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں اُن ملکوں سے رجوع کرنا پڑا جو کچھ عرصہ پہلے تک اگر دشمن نہیں تو مخالف تھے۔
یہی مسئلہ ہے۔ اس کو حل کرنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں مان لینا ہوگا کہ ہاں یہ مسئلہ ہے۔موجودہ حکومت کیلئے یہ آسان نہیں ہے کیونکہ اس نے اپنی تمام کارکردگی کو فردِ واحد کی ’’دانائی‘‘ پر مرکوز کیا ہے۔ مسئلہ کو ماننے کیلئے یہ ماننا ضروری ہوگا کہ جس ’’دانائی‘‘ پر سو فیصد انحصار کیا گیا تھا وہ بار آور نہیں ہوئی جس سے غیر معمولی توقعات وابستہ کی گئی تھیں ۔ موجودہ بحرانی حالات میں یہ کالم نگار اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے کہ مسئلہ کے حل کیلئے اپنی رائے پیش کرے جو بھلے ہی غیر مطلوب ہو، کیونکہ، یہ حالات متقاضی ہیں کہ ملک کے تمام شہری مل جل کر حالات کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں :
مسئلہ کی جڑ میں یہ حقیقت ہے جو اَب ظاہر ہوچکی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم ’’ذاتی سفارت‘‘ میں ماہر نہیں ہیں ۔ مَیں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ذاتی سفارت کوئی بہت اچھی چیز ہے یا اچھی نہیں ہے کیونکہ یہ الگ بحث ہے۔ مَیں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس کی مثالیں پیش کروں گا کہ ہمارے وزیر اعظم اس میں غیر مفید ثابت ہوئے ہیں ۔ رچرڈ نکسن اور ہنری کسنجر نے اس نوعیت کی سفارت کا استعمال چین کو امریکہ کے ساتھ لانے اور ماؤ کو سوویت یونین کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کیلئے کیا تھا۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا طریقہ تھا کہ جب بھی بیرونی ملکوں کے مہمان دورۂ پاکستان کیلئے جاتے تو وہ ایئر پورٹ پہنچ کر خود اُن کا استقبال کرتے تھے ۔ اُن کے رفقائے کار اقبال اخوند اور رفیع رضا کی یادداشتوں میں یہ بات ملتی ہے کہ بعض اوقات اس کا بڑا خوشگوار نتیجہ برآمد ہوتا تھا۔
گلوان سانحہ سے پہلے جس سے دوستی کا احساس ختم ہوگیا، وزیر اعظم نے ذاتی سفارت کو خود فروغ دیا تھا۔ ستمبر ۱۴ء میں اُنہوں نے ’’انڈیا‘‘ اور ’’چائنا‘‘ کے ابتدائی حروف سے ’’انچ‘‘ مخفف بنایا اور کہا کہ ہندوستان اور چین کے تعلقات اب انچ سے نہیں بلکہ میل سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اس موضوع پر ایک رپورٹ جو میری نظر سے گزری، وہ اس پیراگراف پر ختم کی گئی تھی:’’مودی کا یہ تبصرہ اس وقت منظر عام پر آیا جب لیہہ میں مقامی حکام دعویٰ کررہے تھے کہ چینی شہری سرکاری گاڑیوں میں آئے اور ڈیمچاک (لداخ) میں ہندوستانی سرحد میں داخل ہوکر ایک آبپاشی پروجیکٹ پر کام کرنے والے مقامی لوگوں کو روکا۔ سرحدی تنازع پر، جو دو ملکوں کے باہمی تعلقات میں حائل ہوتا رہا ہے، مودی اور ژی گفتگو کرینگے۔‘‘ مودی اور ژی کی ملاقات ۱۸؍ مرتبہ ہوئی مگر ۲۰۲۰ء کے گلوان سانحہ سے پہلے۔ اتنی ملاقاتوں کے باوجود ہمارے وزیر اعظم چینی صدر کو، جن کے ساتھ وہ جھولا بھی جھول چکے ہیں ، بعض اُصولی باتوں پر بھی رضامند نہیں کرسکے۔ ژی صرف جھولا جھولنے یا گلے ملنے سے کچھ مان لیں یہ ممکن نہیں ہے۔ وہ سخت مزاج حکمراں ہیں ۔
ہم نہیں جانتے کہ یہ ہماری ناکامی تھی یا نہیں مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس ’’ذاتی سفارت‘‘ کے بعد حالات بدلے اور پھر یہ ہوا کہ گلوان سانحہ کے بعد وزیر اعظم مودی، ژی سے نہیں ملے۔ اب تک انہوں نے کوئی میٹنگ نہیں کی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ فون اُٹھاتے اور ژی سے کہتے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں ۔ یہ موقع بات کرنے کا تھا ، خفا ہوکر بیٹھ جانے کا نہیں تھا مگر جیسا کہ کہا گیا، ایسے معاملات میں مودی وہی کرتے ہیں جو اُنہوں نے کیا۔
ہمارے سفارتکار نہیں جانتے کہ ٹرمپ کا رویہ اتنا بگڑا ہوا کیوں ہے، دوستانہ کیوں نہیں ہے جبکہ اس کی ایک مثال ماضی سے ملتی ہے۔ اپنے پہلے دور اقتدار میں ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ تہران سے تیل خریدنا بند کردیں ۔ ہمارا کہنا تھا کہ ہندوستان کی تیل ریفائنریاں ایرانی تیل کیلئے موزوں ہیں ۔ اُس وقت ایران پر اقوام متحدہ کی پابندی نہیں تھی اس کے باوجود ہم نے ٹرمپ کی بات سن لی۔ ٹرمپ ہندوستان سے کیوں ناراض ہے اس سوال کا جواب اُن کے اس شکوہ میں پنہاں ہے کہ ہم نے یہ کیوں نہیں مان لیا کہ اُنہوں نے ہی جنگ رُکوائی ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ محلے کا وہ شخص جو سب کو ڈرانے دھمکانے پر یقین رکھتا ہے، وہ ایک ایک کو ڈراتا دھمکاتا نہیں ہے۔ وہ کسی ایک کے ساتھ ایسا کرتا ہے تاکہ دوسرے خود بخود ڈرنے لگ جائیں ۔ ٹرمپ نے یہی کیا۔
یہ بھی پڑھئے :علم ہے کچھ اور شے، تعلیم ہے کچھ اور شے
ہوسٹن اور پھر احمد آباد میں ٹرمپ کیلئے جو ریلیاں منعقد کی گئی تھیں اُن کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملا۔ ٹرمپ نے اِن ریلیوں کی مروت تک نہیں رکھی کیونکہ وہ ایسے شخص ہیں جسے اول بھی اپنے مفادات عزیز ہیں اور آخر بھی۔ یہی اُن کا طرز عمل اور طرز فکر ہے چنانچہ یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم اُن کے طرز عمل کو پہچان نہیں سکے جبکہ ژی اور اُن کے جیسے دیگر طاقتور حکمرانوں کو سامنے رکھنا ضروری تھا جن سے ٹرمپ نے بہت زیادہ ٹکراؤ کی پالیسی اختیا ر نہیں کی۔
اگر ہم اعتراف کرتے کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے تو ہم اس کے ازالے کی کوشش کرتے مگر ہمیں اعتراف نہ تب تھا نہ اب ہے۔ مگر، اب تک کے حالات کو پیش نظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ بھی ہم وہی کرینگے جو اَب تک کرتے آئے ہیں کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ ہمارا حکمراں اپنے منصب کا سو فیصد اہل ہے، ایک فیصد بھی کم نہیں ۔