Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ’’آئرن ڈوم‘‘ نے دھوکہ دیا؟

Updated: June 27, 2025, 1:33 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

جنگ رُک گئی مگر اسرائیلی حکمراں اور اُن کے بہی خواہ اب بھی اسی سوچ میں گم ہوں گے کہ اسرائیل کا ایئر ڈیفنس سسٹم (فضائی دفاعی نظام) ناکام کیسے ہوگیا؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 جنگ رُک گئی مگر اسرائیلی حکمراں  اور اُن کے بہی خواہ اب بھی اسی سوچ میں  گم ہوں  گے کہ اسرائیل کا ایئر ڈیفنس سسٹم (فضائی دفاعی نظام) ناکام کیسے ہوگیا؟ اس کے آئرن ڈوم اور دیگر حفاظتی تدابیر کا کیا ہوا؟ کیا پہلے حماس اور پھر ایران کو اسرائیل سے بھی زیادہ مؤثر آلات دستیاب ہوگئے جن کے ذریعہ وہ اسرائیلی شہروں  تک پہنچنے اور اُنہیں  تباہ کرنے کے قابل ہوگئے؟ 
 تکنالوجی کی باریکیوں  سے ناواقف ہم ایسے لوگوں  کیلئے ان سوالوں  کا جواب مشکل ہے مگر تکنالوجی کے بارے میں  چونکہ سب جانتے ہیں  کہ یہ کسی کی جاگیر نہیں  ہے اور کوئی بھی ملک اپنی مشترکہ اور متحدہ ذہنی قوتوں  اور صلاحیتوں  کو بروئے کار لاکر تکنالوجی حاصل کرنے یا ایجاد کرنے میں  کامیاب ہوسکتا ہے، اس لئے مذکورہ سوال کا جواب مشکل نہیں  رہ جاتا۔ ۱۹۹۱ء کی خلیجی جنگ کے دوران عراق کی جانب سے چلنے والے اسکڈ میزائلوں  کے ذریعہ ہونے والی تباہی دیکھ کر اسرائیل کو فکر لاحق ہوئی تھی کہ وہ ایسا نظام تشکیل دے جو ہر طرح کے میزائلوں  کا بآسانی مقابلہ کرسکے۔ اس سلسلے میں  امریکہ نے اس کی مدد کی جس کے نتیجے میں  ایسا دفاعی نظام تیار ہوا جس کے بارے میں  ماہرین کی رائے یہ ہے کہ بیرونی حملوں  کو روکنے میں  اس نظام کو ۸۰؍ تا ۹۰؍ فیصد کامیابی مل سکتی ہے۔ 
 ایران کے خلاف اسرائیل کی حالیہ بارہ روزہ جنگ کے دوران تل ابیب کے آئرن ڈوم کا ذکر باربار آیا۔ یہ نظام دفاعی تو یقیناً ہے مگر شارٹ رینج سسٹم ہے جو راکٹوں  کو روک سکتا ہے۔ امریکی مدد سے رافیل ایڈونسڈ ڈیفنس سسٹمس نامی ادارہ نے یہ نظام تیار کیا تھا۔ اسے ۲۰۱۱ء میں  نصب کیا گیا۔ یہ نظام پتہ لگاتا ہے کہ کوئی راکٹ شہروں  کی طرف آرہا ہے یا کسی بنجر یا غیر آباد علاقے میں  گر سکتا ہے؟ اگر اس کا رُخ شہری آبادی کی طرف ہوتا ہے تو فوری طور پر یہ نظام حرکت میں  آتا ہے اور اس کے ذریعہ ہونے والے حملے کو ناکام کردیتا ہے۔ 
 مگر، ایک آئرن ڈوم سسٹم ہی نہیں  ہے جو اسرائیل کے فضائی دفاع کیلئے قائم کیا گیا ہے بلکہ ’’یو ایس تھاڈ‘‘ بھی ہے جو کم مسافت، درمیانی درجے کی مسافت اور طویل مسافت کے بلاسٹک میزائلوں  کے خطرہ کو بھانپتا ہے اور ان کے حملوں  کو ناکام بناتا ہے۔ اسی طرح ایئر ٹو ایئر ڈیفنس سسٹم، ڈیوڈس سلنگ اور ایرو۔۲؍ نیز  ایرو ۔۳ ؍ سسٹم بھی ہے جو غیر روایتی جنگی اسلحہ کو اسرائیل کی جانب آنے سے روکنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ یہ بہت تکنیکی اور پیچیدہ معاملات ہیں  اس لئے ہم ان کی تفصیل میں  نہیں  جاسکتے مگر اس حوالے سے یہ کہنا چاہتے ہیں  کہ اگر اتنا سب ہونے کے باوجود اسرائیل ایران کے سامنے زیر ہوگیا اور اسے بھاری نقصان اُٹھانا پڑا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران غافل نہیں  تھا، اُس نے اپنی حکمت عملی تیار رکھی تھی، وہ کسی بھی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تیار تھا اور اس کے پاس صلاحیتوں  کی کمی نہیں  ہے۔ اسرائیل نے ابتدائی حملوں  ہی میں  اس کے اعلیٰ سائنسدانوں  کو نشانہ بنایا جس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ خود اسرائیل ایرانی صلاحیتوں  کا اعتراف کرتا ہے خواہ اُنہیں  خاطر میں  نہ لاتا ہو۔مگر سائنسدانوں  کو نشانہ بناتے وقت وہ بھول گیا کہ صلاحیتیں  خدا داد ہوتی ہیں  جو محنت اور لگن سے نشوونما پاتی ہیں  سائنسدانوں  کی شہادت بلاشبہ ایران کا بڑا نقصان ہے مگر ایسا نہیں  کہ اُن کے ساتھ ایران کی صلاحیت دفن ہوجائیگی۔ آئندہ یہ مزید پروان چڑھے گی اور تل ابیب کو مزید آزمائشوں  میں  ڈالے گی۔

iran israel Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK