Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایران: اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ عدم تعاون کو قانون کا درجہ

Updated: June 27, 2025, 6:31 PM IST | Tehran

ایران میں اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ عدم تعاون قانون بن گیا، اسرائیلی اور امریکی حملوں کے بعد، تہران کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے والی قانون سازی ’’لازمی التعمیل‘‘ ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

  ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی منظوری اور مجلس نگہبان کی توثیق کے بعد اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون معطل کرنے والا نیا قانون نافذ ہو گیا ہے۔  عراقچی نے سرکاری ٹی وی کو بتایاکہ ’’آج پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل جسے مجلس نگہبان نے بھی منظور کر لیا ہے، ہمارے لیے لازمی ہے اور اس پر عمل درآمد میں کوئی شک نہیں۔ اب سے ہمارا بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعلق اور تعاون ایک نئی شکل اختیار کرے گا۔‘‘  اس قانون کو گزشتہ ہفتوں میں اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے براہ راست جواب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اسرائیل - ایران کی۱۲؍ روزہ جنگ میں روزانہ سیکڑوں ملین پھونکے گئے

عراقچی کے مطابق تصادم کے دوران پہنچنے والا نقصان ’’کافی زیادہ‘‘ہے اور ایران کی جوہری توانائی تنظیم کے ماہرین اب بھی تباہی کے پیمانے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاوضے کا معاملہ اب حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ دریں اثنا، سی این این کو امریکی حکام اور مطلع ذرائع نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ تہران کے ساتھ جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے خفیہ سفارتی کوششوں میں مصروف ہے۔ انتظامیہ مبینہ طور پر پابندیاں نرم کرنے، محدود فنڈز تک رسائی کی اجازت دینے، اور یورینیم افزودگی (انریچمنٹ) سے مبرا ۲۰؍ سے ۳۰؍ارب ڈالر کے سول جوہری پروگرام کی حمایت جیسے اختیارات پر غور کر رہی ہے۔  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ کہنے کے باوجود کہ وہ اگلے ہفتے مذاکرات شروع ہونے کی توقع رکھتے ہیں، عراقچی نے ایسے دعوؤں کو مسترد کر دیا۔ عراقچی نے تہران کے مذاکراتی میز پر آنے کے بارے میں ’’قیاس آرائیوں‘‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ’’ انہیں سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے، میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ نئے مذاکرات شروع کرنے کے لیے کوئی معاہدہ، انتظام یا بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ ابھی تک مذاکرات شروع کرنے کا کوئی منصوبہ طے نہیں ہوا۔‘‘اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بعد اپنی پہلی ٹی وی تقریر میں، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل پر ایران کی ’’فتح‘‘ کو سراہا، امریکی دباؤ کے آگے کبھی نہ جھکنے کا عہد کیا، اور اصرار کیا کہ واشنگٹن کو’’ ذلت آمیز طمانچہ‘‘مارا گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو اس کے فوجی اڈے نشانہ بنائے جائیں گے: خامنہ ای

خامنہ ای نے کہا:  *"امریکی صدر نے واقعات کو غیر معمولی طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اور بعد میں پتہ چلا کہ انہیں اس مبالغہ آرائی کی ضرورت تھی۔‘‘ — انہوں نے امریکی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام کئی دہائیوں پیچھے چلا گیا ہے۔دریں اثناء وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے وضاحت کی کہ اگرچہ امریکہ ایران کے ساتھ زیادہ تر ثالثوں کے ذریعے قریبی رابطے میں ہے — ۔ — لیکن ابھی تک کوئی بات چیت طے نہیں ہوئی ہے، ہم ہمیشہ سفارت کاری اور امن پر توجہ دیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایران افزودگی کے بغیر پرامن سول جوہری پروگرام پر رضامند ہو۔‘‘ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا موجودہ منصوبہ یہ ہے کہ ایران  افزودہ یورینیم درآمد کرے نہ کہ خود تیار کرے — ،متحدہ عرب امارات کے ماڈل کی طرح۔ حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات اس سے پہلے پانچویں دور تک پہنچ چکے تھے لیکن اسرائیلی حملوں کی وجہ سے رک گئے ۔اور عمان میں ہونے والا چھٹے دور کا مذاکراہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK