• Fri, 26 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ’’منریگا‘‘ کے متبادل میں ہر ہاتھ کو کام کا حق برقرار ہے؟

Updated: December 26, 2025, 3:04 PM IST | shamim Tariq | mumbai

پہلی غلط فہمی یہ ہے کہ صرف نام تبدیل کیا جا رہا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم کو نیا نام دیئے جانے کیساتھ نیا روپ بھی دیاجارہا ہے۔

INN
آئی این این
غربت اور بے روزگاری زمین پر بسنے والوں  کا ہمیشہ سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش حکومتیں  بھی کرتی رہی ہیں  اور افراد بھی۔ فرق یہ ہے کہ افراد دھوکہ دھڑی، بہروپ اور مختلف دیگر طریقوں  سے اپنی غربت دور کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں  جبکہ حکومت کی کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ عوام کی غربت و بے روزگاری ختم ہو اور ان کو راحت ملے۔ ۲۰۰۵ء میں  ’’منریگا‘‘ شروع کرنے کا یہی مقصد تھا کہ عوام کی غربت و بے روزگاری ختم ہو اور انہیں  روزگار یا روپیہ کمانے کا حق ملے۔ بعد میں  اس منصوبے یا اسکیم میں  مہاتما گاندھی کا نام جوڑا گیا۔ اب اس اسکیم یا منصوبے کے نام کے ساتھ بہت کچھ بدلا جارہا ہے تو عام لوگوں  میں  اندیشہ و تردد پیدا ہوگیا ہے کہ کیا اس اسکیم کی افادیت برقرار رہے گی؟
پہلی غلط فہمی تو یہی ہے کہ صرف نام تبدیل کیاجارہا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم کو نیا نام دیئے جانے کے ساتھ نیا روپ بھی دیاجارہا ہے۔ ابھی تک ہوتا یہ تھا کہ اس اسکیم کے تحت جو مزدوری دی جاتی تھی وہ پوری کی پوری مرکزی حکومت دیتی تھی اور مزدوری کے علاوہ جو مٹیریل یا خام مال استعمال ہوتا تھا اس کا ۷۵؍ فیصد خرچ بھی مرکز ہی اٹھاتا تھا۔ اس کے نئے نام و روپ میں  بڑی ذمہ داری ریاستی حکومتوں  پر تھوپی گئی ہے۔ وہ بھی اتنی زیادہ کے مرکز کے تحت علاقوں ، شمال مشرق اور ہمالیائی ریاستوں  کو چھوڑ دیں  تو باقی ریاستوں  کو ۴۰؍ فیصد خرچ اٹھانا پڑے گا۔ اعداد و شمار میں  بات کریں  تو مکمل اسکیم پر ۱ء۵۱؍ لاکھ کروڑ خرچ ہونے کا امکان ہے جس میں  صرف ۹۶؍ ہزار کروڑ مرکز دے گا اور باقی خرچ ریاستوں  کو برداشت کرنا پڑے گا۔
ابتدائی اسکیم میں  ۱۰۰؍ دن کام دینے کی ضمانت تھی لیکن اسکیم کا نیا روپ ۱۲۵؍ دن کے کام کی ضمانت دیتا ہے۔ بظاہر یہ اچھا معلوم ہوتا ہے لیکن جب یہ حقیقت سامنے ہو کہ ۲۵ء-۲۰۲۴ء میں  صرف ۴۰ء۷؍ لاکھ خاندان ہی ایسے تھے جنہیں  ۱۰۰؍ دن کا روزگار مہیا کیا گیا تھا۔ اس اسکیم کے تحت روزگار ملنے کا اوسط ۵۰ء۲۴؍ دن سے زیادہ نہیں  رہا اس لئے ۱۲۵؍ دن کام ملنے کی ضمانت کی خوش فہمی میں  پڑنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسی کوشش کی جائے کہ واقعی کام ملے۔ نئی اسکیم میں  ۱۲۵؍ دن کام دینے کی خوش فہمی میں  تو عوام کو مبتلا کیا گیا ہے مگر ایسی کوئی ضمانت نہیں  دی گئی ہے کہ واقعی ان کو کام دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی تکلیف دہ ہے کہ نئی اسکیم میں  ذمہ داری تو ریاستوں  پر زیادہ ڈالی گئی ہے مگر اختیارات یا زیادہ اختیارات مرکز نے اپنے ہاتھ میں  رکھے ہیں ۔ ریاستوں  مثلاً آندھرا پردیش، ہریانہ، پنجاب، تمل ناڈو، راجستھان، کیرالا، بنگال، بہار پہلے ہی بجٹ میں  خسارے کا سامنا کر رہے ہیں ۔ ان کے لئے زائد بجٹ کا انتظام کرنا مشکل ہوگا۔ آندھرا پردیش میں  تو اگرچہ این ڈی اے (قومی جمہوری اتحاد) کے حلیف کی حکومت ہے مگر اس کے وزیراعلیٰ نے تو ابھی سے مالی تقسیم یا مالیات کی فراہمی کے سلسلے میں  اپنی تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔
ان تمام پہلوؤں  یا حقائق پر نظر ہو تو اس بات پر افسوس نہیں  ہوگا کہ ’’مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانت اسکیم‘‘ کا نام بدل کر جی رام جی کے نام سے نئی اسکیم شروع کی گئی ہے بلکہ اس بات پر خوشی ہوگی کہ اس اسکیم کی روح کا گلا گھونٹا جا چکا ہے تو نام بچانے یا برقرار رکھنے کا کیا فائدہ ہوگا؟ معیشت میں  عالمی سطح کے ماہروں ، وکیلوں ، پالیسی سازوں  اور سول سوسائٹی کی نمائندہ شخصیتوں  نے اپنے کھلے خط میں  لکھا ہے کہ:
l اسٹیٹ یا ملکی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں  کو روزگار کی ذمہ داری دے کیونکہ روزگار معاشی وقار سے تعلق رکھنے والا بنیادی حق ہے۔
l ’’منریگا‘‘ کے ذریعہ عوام کو جو فوائد حاصل ہوئے یا فائدے پہنچائے گئے ان سے انکار ممکن نہیں  ہے۔
l خط میں  بتایا گیا ہے کہ جب سے ’’منریگا‘‘ کی اسکیم شروع کی گئی ہر سال تقریباً ۵؍ کروڑ خاندانوں  کو روزگار فراہم کیا جاتا رہا۔ ۵؍ کروڑ خاندانوں  میں  بھی زیادہ تر خواتین اور ۴۰؍ فیصد سے زیادہ درج فہرست قبیلوں  اور درج فہرست ذات والوں  کو فائدہ پہنچایا جاتا رہا۔
l اس اسکیم کو مناسب مالی تعاون کے بغیر ریاستوں  کے حوالے کئے جانا اس کے وجود کے لئے خطرہ ہے۔
l مشترکہ خط میں  لکھا گیا ہے کہ ریاستوں  کو مواد کی لاگت کا پہلے صرف ۲۵؍ فیصد حصہ برداشت کرنا پڑتا تھا لیکن موجودہ صورت میں  ان کو ۴۰؍ سے ۱۰۰؍ فیصد تک بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ غریب ریاستیں  اسکیم کی منظوری کم کر دیں  گی اور اس طرح کم لوگوں  کو روزگار فراہم ہوگا۔
l اسکیم سے متعلق قانون کی وہ دفعات حد درجہ خطرناک ہیں  جو حکومت کو کسی وقت اسکیم کو ختم کر دینے کی اجازت دیتی ہیں ۔
l موجودہ صورت میں  ’’منریگا‘‘ کے کثیرالجہتی فوائد کو ختم کیا گیا ہے۔
l ’’منریگا‘‘ چونکہ عالمی سطح پر بھی سراہا جاتا رہا ہے اس لئے اس کو ختم کیا جانا ایک تاریخی غلطی ہے۔
یوگیندر یادو نے اپنے ایک مضمون میں  لکھا تھا کہ نیا مسودۂ قانون روزگار کی ضمانت کو ہی ختم کرتا ہے لیکن ۲۲؍ دسمبر ۲۰۲۵ء کے اخبار سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر جمہوریہ نے نئے مسودہ ٔ قانون پر دستخط کرکے اس کو قانون کی حیثیت دیدی ہے مگر کانگریس اپنے ملک گیر احتجاج کے فیصلے پر قائم ہے۔ ملک گیر احتجاج کا کوئی اثر ہوگا یا نہیں ؟ یا کتنا اثر ہوگا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر یہ کہنا غلط نہیں  ہے کہ موجودہ صورت میں  ہر ہاتھ کو کام دینے کی ضمانت ختم ہوگئی ہے۔ اب ریاستی حکومت یا مرکز اس اسکیم کو عوام کی ضرورت کے لئے نہیں  اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کرے گی۔
مَیں  تو سمجھتا ہوں  کہ ’’منریگا‘‘ کی تبدیلی دنیا کے سب سے بڑے سماجی تحفظ کے پروگرام کا خاتمہ ہے اور وہ بھی اس ملک میں  جہاں  سروودیہ تحریک چلائی جاتی رہی ہے۔
 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK