• Sat, 01 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تعلیم، اُردو تعلیم، ادب اور اُردو ادب

Updated: October 31, 2025, 2:02 PM IST | shamim Tariq | mumbai

عبرتناک بات یہ ہے کہ پونے کے ۳۷؍ اسکولوں میں ایک بھی طالبعلم نے داخلہ نہیں لیا ہے۔ اسی طرح رتناگیری میں ۲۴، ناگپور میں ۲۳، بلڈانہ میں ۲۱، ممبئی کے مضافات میں ۲۲، ممبئی میں ۵، پال گھر میں ۱۹، تھانے میں ۱۵؍ اور رائے گڑھ میں ۱۲؍ اسکول ایسے ہیں جہاں ایک بھی طالب علم نہیں ہے۔

INN
آئی این این
تین چار ماہ پہلے مہاراشٹر میں  ہندی کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش ہوئی تھی مگر وزیراعلیٰ دیویندر فرنویس نے یہ بیان دے کر کہ سہ لسانی فارمولہ نئی ایجوکیشن پالیسی کا حصہ ہے اور مہاراشٹر اس سے خود کو الگ نہیں  رکھ سکتا، پورے تنازع کو ختم کر دیا تھا۔ اس کے بعد خبر آئی کہ جون ۲۰۲۵ء سے ریاست مہاراشٹر کے سیکڑوں  آشرم اسکول تدریسی عملے یعنی اساتذہ کے بغیر کام کر رہے ہیں  جس سے قبائل (ادیباسیوں ) سے تعلق رکھنے والے طلباء کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ بعض قبائلی علاقوں  میں  تو والدین اپنے بچوں  کو اپنے ساتھ واپس لے گئے ہیں  اور اسکولوں  میں  تالا ڈال دیا گیا ہے کیونکہ وہاں  یا ان اسکولوں  میں  اساتذہ اور معاونین نہیں  ہیں ۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۲۹؍ ہائر سیکنڈری، ۴۵۵؍ سیکنڈری، ۸۰۹۰؍ مراٹھی پرائمری اور انگلش اسکولوں  میں  متعدد آسامیاں  یعنی اساتذہ اور معاونین کی تقرریاں  نہیں  کی گئی ہیں ۔ ۴؍ اکتوبر ۲۰۲۵ء کی ایک خبر سے، جو روزنامہ نو بھارت میں  شائع ہوئی ہے، واضح ہوتا ہے کہ ۳۹۴؍ اسکولوں  میں  ایک بھی طالب علم نہیں  ہے۔ دوسری تفصیل کے ذریعہ ریاست مہاراشٹر میں  تعلیمی صورتحال پر سوال اٹھاتے ہوئے UDISE یعنی یونیفائڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کے دس ہزار اسکولوں  میں  ۱۰؍ سے کم طلبہ اور ۵۲۵۷۳؍ اسکولوں  میں  ۱۱؍ سے ۱۰۰؍ طلبہ ہیں ۔ ریاست میں  ۲؍ کروڑ، ۱۱؍ لاکھ، ۸۶؍ ہزار ۹۴۳ (۲۱۱۸۶۹۴۳) طلبہ کا داخلہ کے لئے اندراج کیا گیا ہے جو اگرچہ پچھلے سال کے مقابلے تقریباً ۷؍ ہزار زیادہ ہے مگر ۵؍ لاکھ طلباء کے ناموں  کا اندراج چونکہ ادھورا ہے اس لئے داخلے کی تعداد کو اطمینان بخش نہیں  کہا جاسکتا۔ 
عبرتناک بات یہ ہے کہ پونے کے ۳۷؍ اسکولوں  میں  ایک بھی طالب علم نے داخلہ نہیں  لیا ہے۔ اسی طرح رتناگیری میں  ۲۴، ناگپور میں  ۲۳، بلڈانہ میں  ۲۱، ممبئی کے مضافات میں  ۲۲، ممبئی میں  ۵، پال گھر میں  ۱۹، تھانے میں  ۱۵ اور رائے گڑھ میں  ۱۲؍ اسکول ایسے ہیں  جہاں  ایک بھی طالب علم نہیں  ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دیہی علاقوں  میں  طلباء کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔جو طلبہ نام بھی لکھواتے ہیں  اور اسکول میں  حاضر بھی ہوتے ہیں  اُن میں  ششم جماعت کے طلبہ سے کہا جائے کہ چہارم جماعت کا ریاضی کا مسئلہ حل کریں  یا زباندانی کی کتاب سے سبق پڑھ کر سنائیں  تو  بہتیرے طلبہ کی استعداد صاف جواب دے جاتی ہے۔ اس سے پڑھائی لکھائی کا معیار بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ جو طلبہ پڑھ رہے ہیں  وہ کیا پڑھ رہے ہیں ، اُنہیں  کس طرح پڑھایا جارہا ہے اور اُنہیں  پڑھانے والے کتنے محنتی اور فرض شناس ہیں ۔
اُردو اسکولوں  میں  بھی اساتذہ کی تقرری نہیں  کی جا رہی ہے مگر ایک اچھی خبر یہ آئی ہے کہ ایس ٹی اور او بی سی کی جگہ جنرل کیٹیگری کے امیدواروں  کی تقرری کو منظوری دی گئی ہے جس سے اُردو اساتذہ کی تقرریوں  کا راستہ صاف ہوا ہے۔  یہ بھی اچھی خبر ہے کہ برطانیہ کی ۹؍ یونیورسٹیاں  ہندوستان میں  اپنے کیمپس کھول رہی ہیں ۔ ان تفصیلات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک میں  بنیادی یا ابتدائی تعلیم کا ڈھانچہ بری طرح چرمرا رہا ہے۔ استثنائی صورتوں  کے علاوہ اُردو تعلیم کا معاملہ تو نیچے سے اوپر تک بگڑا ہوا ہے۔
اچھے اساتذہ کے وجود سے ہمیں  انکار نہیں  مگر یونیورسٹی کی سطح پر بھی ایسے اساتذہ اُردو پڑھا رہے ہیں  جو پرائمری کے طلباء کو پڑھانے کے لائق بھی نہیں  ہیں ۔ اُردو نہ جاننے والوں  کو اُردو کی طرف راغب کرنے کی فکر تو کسی کو نہیں  ہے۔ اس کے باوجود ’’سُر نہ تال مگر دعویٰ ہے کہ تان سین کے وطن کے ہیں ‘‘ کے مصداق بہتوں  کی خواہش ہے کہ ان کو اُردو ادب یا اُردو کے کسی سرکاری ادارہ  کے انعام یا عہدہ  سے نوازا جائے۔ مہاراشٹر کے سابق وزیر نواب ملک صاحب نے اُردو اکیڈمی کے ایک جلسے میں  اچھی بات کہی کہ سیکڑوں  لوگ ان کے پاس آئے کہ انہیں  اُردو اکیڈمی کا رکن یا وائس چیئرمین بنایا جائے مگر وہ قسطنطنیہ بھی نہیں  لکھ سکے۔
جو بات انہوں  نے نہیں  کہی مگر بیشتر افراد جانتے ہیں  وہ یہ ہے کہ اُردو اکیڈمیوں  کا سیاسی انعام پا کر فوٹو چھپوانے اور استقبال کروانے والوں  میں  کئی ایسے ہوتے ہیں  جنہیں  نہیں  معلوم کہ الف سے اللہ ہے یا ایشور، یا ایٹم یا ایرشا (حسد)۔ ایسے لوگوں  کو  انعام اس لئے نہیں  ملتا کہ وہ ادب کی خدمت میں  مصروف ہیں  بلکہ انہوں  نے معاوضے کے طور پر انعام اس لئے ہڑپ لیا کہ وہ کسی سیاستداں  کی خدمت کر رہے تھے۔ شکر ہے کہ خاکسار راقم الحروف کا شمار ایسے لوگوں  میں  نہیں  ہے۔
اُردو میں  اگرچہ اُمّی شاعروں  کی روایت ہے مگر یہ بھی حق ہے کہ زبان، اس کے معنوی امکانات اور لفظوں  کے لغوی، عرفی، تخلیقی معانی نہ سمجھنے اور ترکیب، اصلاح، فقرہ.... کے فرق کو خاطر میں  نہ لانے والے اُردو ادب کے ذخیرے میں  اضافہ نہیں  کرسکتے۔ اس سال ادب کا نوبیل انعام جنہیں  ملا ہے وہ ہنگری کے رہنے والے ہیں  مگر ہنگری کے وزیراعظم کے زبردست نکتہ چیں  ہیں ۔ سویڈش اکاڈمی نے بیان دیا ہے کہ لاس زلو (جنہیں  انعام دیا گیا ہے) کی تخلیقات خوف اور دہشت کے ماحول میں  بھی آرٹ یا فن کی طاقت کا احساس دلاتی ہیں ۔ کوئی اُردو اکیڈمی اکا دکا لوگوں  کے علاوہ شاید ہی کسی کے بارے میں  ایسا  بیان دے سکتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ انعام پانے والوں  میں  کون کس کی جوتیاں  اٹھاتا ہے۔
اُردو تعلیم کا یہ حال ہے کہ اسکولوں  میں  کہیں  طلباء نہیں  ہیں  اور کہیں  اساتذہ نہیں  ہیں ۔ ادب کا یہ حال ہے کہ ادب ’ع‘ سے لکھنے والے کو بھی انعام مل جائے تو حیرت نہیں  ہونی چاہئے۔  بابائے اُردو مر گئے، دادائے اُردو قسم کے لوگ اپنی ستائش کا ایک موقع بھی ہاتھ سے گنوانا نہیں  چاہتے۔ اُردو کے کتنے شعبے اور کتنے ادارے تباہ ہو رہے ہیں  مگر ان کے کارپردازوں  کی نظر انعام پر ہے۔
education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK