گزشتہ ماہ جب الہ آباد (پریاگ راج )جانا ہوا تو’’پریاگ پتھ‘‘ کے مدیر ہتیش سنگھ نے موہن راکیش نمبر کے ساتھ ساتھ چند اور خصوصی نمبر عنایت کیے۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس نمبر کے وسیلے سے موہن راکیش کو ان کے شایان شان انہیں یاد کرنے کی کوشش کی گئی۔اس نمبر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ موہن را کیش کی کتابوں پر مضامین شائع کیے گئے ہیں۔۲۰۲۵ء موہن راکیش کی صدی تقریبات کا سال ہے۔
موہن راکیش آٹھ جنوری ۱۹۲۵ء کو پیدا ہوئے اور تین دسمبر ۱۹۷۲ءکو انتقال ہوا۔صرف ۴۷؍ سال کی زندگی انہیں ملی۔ان کا تعلق ایک سندھی خانوادے سے تھا۔ان کے والد کرم چندسندھ سے پنجاب آگئے۔ موہن راکیش ہندی اور انگریزی میں ایم اے کیا۔ممبئی اور کشمیر میں بھی ان کا قیام رہا۔ہندی کے ادیبوں میں موہن راکیش ایک ایسا نام ہے جن سے اسکرپٹ کے فرق کے باوجود قربت کا احساس ہوتا ہے۔ایک زبان میں لکھنے والا ادیب دھیرے دھیرے اپنے ملک کے اذہان کا حصہ بن جائے تو اسے،اس کی تحریر کی طاقت کا نام لینا چاہئے۔۱۹۷۲ء کے بعد کی دنیا تمام لکھنے پڑھنے والوں کیلئے تبدیل ہوئی ہے۔تبدیلیوں کا بوجھ اگر کسی کی تحریر اٹھا لیتی ہے تو اس کا مطلب اور کچھ نہیں کہ اچھی تحریر کا مطلب اجنبیت کے احساس کو کم کرنا اور ختم کرنا ہے۔موہن را کیش کا نام آتے ہی نگاہ نہ صرف ان کی تحریروں اور کتابوں کی طرف جاتی ہے بلکہ نگاہ جھک بھی جاتی ہے۔انہوں نے مختلف اصناف میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔افسانوی اور غیر افسانوی تحریروں کے درمیان ایک رشتہ سا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
موہن را کیش نے اپنے افسانوں کے ذریعے ہندی میں نئے افسانے کے اسلوب کو رائج کرنے کی کوشش کی۔اس افسانے میں نئے انسان کا دکھ بھی تھا اور شہری زندگی کا دکھ بھرا اظہار بھی۔ان کی کہانی’’انسان کے کھنڈر‘‘کا تعلق امرتسر کے ایک علاقے سے ہے۔کہانی مخصوص علاقے سے نکل آ تی ہے۔اور ایسا نہیں لگتا کہ گلی کا کوئی شخص یا دکاندار وہیں ٹھہرا ہوا ہے جہاں کہانی کار کی نگاہ نے دیکھا تھا۔سماجی سروکار موہن را کیش کہ یہاں فرد کا دکھ بن جاتا ہے اور اس فرد پر افراد کا گمان ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کے کسی گروپ پر رسالہ’’پریاگ پتھ‘‘کا موہن را کیش نمبر نگاہ سے گزرا ۔موہن راکیش کی تصویر پہلے کبھی دیکھی تھی مگر اس تصویر میں ایک ایسی کشش ہے جو مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔تصویر کا بلیک اینڈ وائٹ ہونا ہی کافی نہیں ۔موہن راکیش کی تصویر کے آس پاس دھند کی فضا ہے یا فضا دھند میں ڈوبی ہوئی ہے۔اس فضا کا رشتہ ان کی تحریروں سے بھی ہے۔تصویر جو بہت شور مچاتی ہے اس سے ہمارا رشتہ بہت دیر پا نہیں ہوتا۔’’پریاگ پتھ‘‘کہ ٹائٹل پیج پر موہن راکیش کی تصویر نے جو جادو کیا وہ بلیک اینڈ وائٹ کے امتزاج کے ساتھ ساتھ نگاہ بھی ہے، جو کسی کو دیکھ رہی تھی۔کبھی کسی تصویر میں نگاہ دیکھنے کے باوجود یہ بھی کہہ رہی ہوتی ہے کہ وہ کسی کو دیکھنا نہیں چاہتی۔ ۱۹۷۲ء میں موہن راکیش رخصت ہوئے لیکن یہ تصویر ہے اور تصویر کی نگاہ جو مسلسل سفر میں ہے۔انہی عمر بھی زیادہ نہیں ملی مگر ان کی کوئی تحریر ایسی نہیں جو پڑھے جانے کا تقاضا نہ کرتی ہو۔
گزشتہ ماہ جب الہ آباد (پریاگ راج )جانا ہوا تو’’پریاگ پتھ‘‘ کے مدیر ہتیش سنگھ نے موہن راکیش نمبر کے ساتھ ساتھ چند اور خصوصی نمبر عنایت کیے۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس نمبر کے وسیلے سے موہن راکیش کو ان کے شایان شان انہیں یاد کرنے کی کوشش کی گئی۔اس نمبر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ موہن را کیش کی کتابوں پر مضامین شائع کیے گئے ہیں ۔۲۰۲۵ء موہن راکیش کی صدی تقریبات کا سال ہے۔ہم سال کے آخری پڑاؤ کی طرف آ چکے ہیں لیکن موہن راکیش کی یاد میں کسی تقریب یا جلسے کی خبر نہیں ہے۔اردو میں ان کی کہانیوں کا مجموعہ’’اس کی روٹی اور دوسری کہانیاں ‘‘شائع ہوا۔ محمد عباس نے ہندی سے ترجمہ کیا ہے۔جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں موہن راکیش کا ذہن اصناف کے تعلق سے بہت شفاف بھی تھا اور پیچیدہ بھی۔انہوں نے ایک ایسے وقت میں شہر کے بارے میں سوچنا شروع کیا جب ہمارے یہاں شہر کے تعلق سے بہت کم تحریریں وجود میں آئی تھیں ۔ان کی مرتبہ کتاب’’رات کی باہوں میں ‘‘ ہندوستان کے کئی اہم شہروں پر ادیبوں کے مضامین ہیں ۔ سماجی اور تہذیبی زندگی کے پیچیدہ رشتوں اور رویوں کے درمیان انسان کی سائیکی کس طرح بنتی اور بگڑتی ہے ان سب کا اظہار موہن را کیش کے یہاں موجود ہے۔موہن راکیش کی ڈائری کے نام سے جو ڈائری ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی وہ بھی اپنے دور کی ایک دستاویز ہے۔ڈائری کا پہلا صفحہ دیکھیے۔’’کوئی بات تھی ابھی ابھی دماغ میں ۔جگنو کی طرح چمک کر بجھ گئی۔کتنی بار ایسا ہوتا ہے۔ایک دھندلی سی تصویر دماغ میں ابھرنے لگتی ہے،پر ابھرتے ابھرتے اندر کے اندھیرے میں کھو جاتی ہے۔جیسے کہ دماغ میں اس کی شرارت چل رہی ہو۔میں کتنی کتنی بار اس جگنو کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں ۔کسی انجانے لمحے میں اسے دبوچ لینے کی تاک میں رہتا ہوں ۔کئی بار گھنٹوں یہ کھیل چلتا ہے،پر جگنو پکڑ میں نہیں آتا۔ہلکے سے کبھی وہاں ،کبھی وہاں ،ٹمٹماتا ہے۔پر اس ٹمٹماہٹ کا ٹھیک احساس ہو پائے،اس سے پہلے ہی پھر اندھیرے میں ڈبکی لگا جاتا ہے۔ اٹھتے، بیٹھتے بات کرتے ،ایک ہلکی سی چمک اور بس۔کئی بار صبح سے شام تک وہ کھیل اپنے میں ،اپنے سے،کھیلا جاتا ہے۔الجھن اس لیے ہوتی ہے کہ وہ بات بہت پہچانی اور گہری جان پڑتی ہے۔لگتا ہے جیسے گھر کا کوئی بہت شناسا کونہ بار بار سامنے کھل کر اچانک بند ہو جاتا ہو۔پھر سوچ کر ہنسی آتی ہے کہ حقیقت میں ’’اپنا‘‘کیا وہ جگنو اسے پکڑنے کی کوشش،یا اس کوشش سے کھیجا ہوا من۔(موہن راکیش کی ڈائری. بمبئی۱۹۴۸ء) موہن راکیش کی ڈائری کا یہ پہلا ہی صفحہ پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے۔
موہن راکیش کی ڈائری کا پہلا ایڈیشن پی ڈی ایف کی صورت میں مل گیا تھا۔لیکن کہیں کہیں کچھ حروف پڑھے نہیں جا سکے۔کل اس کا نیا ایڈیشن دستیاب ہوا۔ڈائری ۱۹۴۸سے ۱۹۶۸ء کے درمیانی عرصہ پر محیط ہے ۔اسے جدید ہندی ادب کا دستاویز کہا جاتا ہے۔پیش لفظ ہندی کے اہم ادیب کملیشور نے لکھا ہے۔ڈائری مختلف تاریخوں کے ساتھ مختلف ذہنی کیفیات کو سمیٹے ہوئے ہے۔عام زندگی کس طرح دھیرے دھیرے خاص بنتی ہے اس کا تماشہ بھی ڈائری میں دیکھا جا سکتا ہے۔کوئی خاص زندگی کس طرح عام زندگی سے الگ ہو کر بے کیف بن جاتی ہے یہ المیہ بھی یہاں موجود ہے۔مجموعی طور پر موہن را کیش کی تخلیقی شخصیت ہماری تہذیبی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے۔یہ اعزاز بھی موہن راکیش کو حاصل ہے کہ انہوں نے ناٹکوں کے ذریعے اپنے عہد کو متاثر کیا۔اور کئی ایسے ناٹک لکھے جو اس صنف کو نہ صرف اعتبار بخشتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کا ایک معیار قائم کرتے ہیں ۔ناٹکوں کے جملے ناٹکوں سے نکل کر کچھ اس طرح دیکھنے والوں کے حافظے کا حصہ بنے کہ جیسے کوئی شاعری سننے کے بعد حافظے کا حصہ بنتی ہے۔