کم لوگ جانتے ہیں کہ ظہران ممدانی جنہیں کم کم ہی لوگ جانتے تھے، کس طرح طاقتور سے طاقتور لوگوں کو پٹخنی دینے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے انتخابی مہم کا نیا طریقہ جاری کیا ہے۔
امریکی آئین کی پہلی ترمیم کچھ اس طرح تھی: ’’کانگریس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گی جس میں کسی مذہبی ادارہ کے احترام کی بات ہوگی یا کسی ادارہ کو مذہبی سرگرمیوں سے روکنے کی کوشش ہوگی۔ اگر اس سلسلے میں کچھ شکایات ہوں تو حکومت اُن سے درگزر کرے گی۔‘‘ ہر چند کہ آئین کی ترمیم کے اس اقتباس کی زبان بہت پرانی ہے جسے سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ۱۷۸۹ء کا لکھا ہوا ہے۔ لیکن اس ترمیم میں ایک بات بہت صاف ہے کہ آزادیٔ اظہارِ رائے پر کسی بھی صورت میں قدغن نہیں لگائی جائیگی البتہ اگر آزادیٔ اظہار کے سبب تشدد ہو یا فحاشی پھیلے تو اس کو روکنے کا اختیار کانگریس کو ہوگا۔
۲۰۱۰ء میں امریکی سپریم کورٹ نے اُن رکاوٹوں کو ختم کردیا جو انتخابات پر پیسہ لگانے (فنڈنگ) سے متعلق تھےاور اس فیصلے کی تشریح اس طرح کی کہ یہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں اظہار ِ رائے کے سلسلے میں دیئے گئے حق سے متعلق ہے۔ اس کے ذریعہ دولت مند لوگوں اور کارپوریشنوں کو یہ آزادی حاصل ہوگئی کہ وہ سیاسی ایکشن کمیٹی بنا کر انتخابات پر سرمایہ لگائیں ۔ سیاسی ایکشن کمیٹیاں اپنے طور پر انتخابی مہم پر وہی رقومات صرف کریں گی جو دولت مند لوگوں اور کارپوریشنوں سے حاصل ہوں گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی انتخابات پر کارپوریشنوں اور دولت مندوں کااثر و رسوخ بڑھ گیا جن کے مفادات کی حفاظت کو سیاسی جماعتیں بالخصوص امریکہ کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اولین شرط تصور کرنے لگیں ۔ یہ خرابی در آنے کی وجہ سے امریکہ میں یہ ہوتا ہے کہ جو طبقۂ امراء یا کوئی مالی یا صنعتی ادارہ انتخابات کی فنڈنگ کرتا ہے تو منتخب ہونے والے اُن کے مفادات کے نگراں بن جاتے ہیں اور اپنی منصبی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔ اب امریکہ میں یہ عام ہوگیا ہے لیکن سیاست کا ایک اور طریقہ ہے جس کا ضابطہ تو بالکل صاف اور واضح ہے مگر اس پر عمل درآمد خاصا مشکل کام ہے۔
جب کوئی ایسا کام پیش نظر ہو جس میں ناکامی کا خطرہ زیادہ ہو تو اس کا بیڑا اُٹھانے کی ہمت کم ہوجاتی ہے مگر جو بھی شخص اس کا بیڑا اُٹھا لے اور کم ہمتی کا شکار نہ ہو اُس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں ۔ اس دوسرے کام کا بیڑا نیویارک کے میئر انتخابات میں اُٹھایا گیا۔ اس میں دو اُمیدواروں نے دو الگ الگ طریقے آزمائے۔پہلا طریقہ امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نیز اُن کے اُمیدواروں نے اختیار کیا۔ وہ یہ تھا کہ مدمقابل نے جو سرمایہ اکٹھا کیا ہے اُس سے زیادہ اکٹھا کریں اور اس طرح انتخابات پر اثر انداز ہوکر اُنہیں جیتا جائے۔ یہ رقومات عموماً پیغام رسانی اور تشہیری مہم پر خرچ کی جاتی ہیں تاکہ رائے دہندگان پر اُمیدواروں کے بارے میں اچھا تاثر قائم کیا جائے اور مدمقابل کے خلاف تشہیری محاذ آرائی ہو۔
امریکہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے جو اُمیدوار یا سیاسی جماعت تشہیری مہم پر جتنا زیادہ خرچ کرتی ہے اُس کی کامیابی کے امکانات میں اُتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ ۲۰۱۸ء کی ایک رپورٹ، جس کی سرخی تھی: ’’پیسہ انتخابات کو کیسے متاثر کرتا ہے؟‘‘ سے یہ انکشاف ہوا کہ ۹۰؍ فیصد سے زیادہ وقت، جس امیدوار نے اپنے حریف سے زیادہ رقم اکٹھا اور خرچ کی، وہ کانگریس (امریکی لوک سبھا) میں اپنی جگہ بنانے کی دوڑ جیت گیا۔ نیویارک میں ایک بڑے امیدوار اینڈریو کومو نے یہ طریقہ اختیار کیا اور اپنے مخالف کے پاس موجود رقم سے پانچ گنا زیادہ رقم اکٹھا کی مگر وہ ہار گیا۔ کیوں ؟
دوسرا طریقہ، جو اِس تحریر کیا محرک بنا، ووٹروں کو اشتہارات کے ذریعے نہیں بلکہ ذاتی ملاقاتوں اور گفتگو کے ذریعے قائل کرنا ہے۔ یہ کارآمد ہونے کے باوجود قابل توسیع نہیں لگتا۔ عام انتخابات میں جہاں ووٹروں کی تعداد لاکھوں میں ہو، یہ کوشش کرنا ناقابل عمل بلکہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کیلئے رضاکاروں کی بہت جماعت درکار ہوگی۔ اتنا ہی نہیں ایک دقت یہ بھی ہے کہ جب یہ رضاکار عوام سے ملاقات کیلئے نکلیں گے تو اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جو اجنبی ہونگے ۔ اُن سے مکالمہ کیسے قائم کیا جائیگا یہ اہم سوال ہے۔ بہت سے لوگ یا تو دروازہ پر جواب نہیں دینگے یا اس رضاکار کو کچھ کہے سنے بغیر دروازہ بند کرلیں گے۔ اگر وہ راہ گیر ہیں تو رضاکار کے روکنے سے رُک جائیں یہ بھی ہر جگہ ممکن نہیں ہوگا۔ اگر وہ رُک جائیں تب بھی مشکل یہ پیش آئیگی کہ وہ کسی اُمیدوار کے حق میں ہموار ہوجائیں اس کی ضمانت نہیں ملے گی۔ اس عمل میں بھی کامیابی کا امکان کا دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت میں ان رضاکاروں کو یہ عمل جاری رکھنے پر کیسے آمادہ کیا جاسکے گا؟ جب وہ آمادہ نہ ہوں گے تو ہوسکتا ہے کہ وہ گھر یا کیفے میں بیٹھے رہیں اور دکھاوا کریں کہ انہوں نے اتنے ہزارگھروں پر دستک دی یا سڑک پر اتنے ہزار اجنبیوں کو روکا؟ انہی وجوہات کی بناء پر اس نقطہ نظر کو ترجیح نہیں دی جاتی ہے چنانچہ امیدوار صرف زیادہ رقم اکٹھا کرنے کا بیڑا اُٹھاتے ہیں ۔ یہ طریقہ تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب:
(۱) اُمیدواروں کا پیغام ممکنہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو مجبور کر رہا ہو یعنی اُمیدواروں کی بات سننے کیلئے لوگ بے چین ہوں
(۲) رضاکار پُرجوش ہوں اور ناکامی (لوگوں نے دروازہ بند کرلیا اور روکنے کے باوجود نہیں رُکے) پر بھی عوامی رابطے کا اپنا کام جاری رکھا۔ یہاں رضاکاروں کی حوصلہ افزائی پیسے سے نہیں ہوگی بلکہ ایک کاز، ایک مشن کے سبب ہوگی کہ فلاں اُمیدوار کو ہر قیمت پر کامیاب بنانا ہے۔ یہ تبلیغ کے مترادف ہے۔
(۳) عوامی رابطہ کا طریقہ تبھی کامیاب ہوگا جب رضاکار عوام سے ایک بار مل کر رابطہ ختم نہ کردیں بلکہ تسلسل کے ساتھ اُن تک پہنچتے رہیں تاوقتیکہ پولنگ کا دن نہ آجائے۔
اب ان تین شرطوں کے ساتھ دیکھئے تو اندازہ ہوگا کہ یہ کام بہت کٹھن ہے مگر اسے نیویارک کے میئر ظہران ممدانی نے اختیار کیا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ ناتجربہ کار ہیں اور قیادتی اُمور سے ناواقف ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ اپنے رضاکاروں کو کسی ایسے کام کی ترغیب دینا جس میں کامیابی کا امکان کم ہو، بہت مشکل ہے۔ اس کے باوجود ظہران نے کامیاب ہوکر دکھایا۔ ظہران کے ۷۰۰؍ سینئر رضاکاروں کی زیر قیادت ایک لاکھ سے زائد رضاکارمیدان عمل میں تھے۔