• Fri, 17 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’اِس دیوار میں ایک دریچہ کافی ہے!‘‘

Updated: September 20, 2025, 1:28 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

نئی نسل اور پرانی نسل کا جھگڑا پرانا ہے مگر اب اس کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اس رشتے میں کشیدگی بھی زیادہ آگئی ہے۔ نئے لوگ خود کو درست مانتے ہیں۔ پرانی نسل کو اپنے صحیح ہونے کا سو فیصد یقین ہے۔ کچھ زعم بھی ہے۔ کیا یہ صورت حال بدل سکتی ہے؟ کیا کوئی درمیانی راہ ممکن ہے؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

انگریزی  میں  ایک اصطلاح ہوتی تھی جنریشن گیپ۔ ا س کا معنی ہے نسلی تفاوت یا مختلف پشتوں  (بزرگوں  اور نئی نسل) کے درمیان طرز فکر اور طرز عمل کا اختلاف۔ یہاں  ’’ہوتی تھی‘‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ اب اس اصطلاح کا استعمال کافی کم ہوگیا ہے۔ اکیسویں  صدی کے اولین پچیس سال مکمل ہونے کو ہیں  اور ایسا لگ رہا ہے کہ اب جنریشن گیپ نہیں  ہے۔ اس کی جگہ جنریشن گلف نے لے لی ہے یعنی جو فاصلہ تھا، خلیج بن چکا ہے۔ گیپ سے گلف تک کا یہ غیر محسوس تغیراتی عمل اتنا تیز تھا کہ اس پر یقین کرنا ہنوز مشکل ہے مگر غور کیجئے تو گیپ گلف کے قالب میں  ڈھلا ہوا صاف دکھائی دے گا۔
  تغیر ہر دور کا نصیب ہے مگر موجودہ صدی کے ابتدائی پچیس سال کے دوران تغیرات ِ زمانہ کی برق رفتاری کے سبب بہت کچھ تہ و بالا ہوچکا ہے۔ کیا کیا  تہ و بالا ہوا اِس کا جائزہ لیا جانا چاہئے جیسے طوفان گزر جانے کے بعدانسان دیکھتا ہے کہ وہ کیا ہے جو بچ گیا ہے اور وہ کیا ہے جسے آندھی اُڑا کر اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ اس میں  کئی باتیں  بہت دلچسپ ہیں  مثلاً جیساکہ عرض کیا گیا کہ اب گیپ نہیں  ہے، گلف ہے۔ ا س کے ساتھ ہی اچانک بہت سی دُنیائیں  وجود میں  آچکی ہیں ۔گھر میں  جتنے افراد ہیں  اُتنی دُنیائیں  ہیں ۔الگ الگ دُنیائیں  پہلے بھی ہوا کرتی تھیں  مگر اُن میں  بہت کچھ مشترک ہوتا تھا۔ اب جو دُنیائیں  ہیں  اُن میں  اشتراک کم اختلاف زیادہ ہے کیونکہ ہر فرد اُس دُنیا میں  پایا جاتا ہے جو ٹیکنالوجی کے ذریعہ اُسے ایک تصوراتی ماحول فراہم کرتی ہے اور اُس کے دامن سے لپٹ جاتی  ہے۔ پرانے لوگ بھی اُسی نئی ٹیکنالوجی کے اسیر ہیں  اور اُن کی اپنی بھی دُنیا ہے مگر وہ مختلف ہے۔ وہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ اُس پرانے ماحول کی سیر کررہے ہیں  جو اُن کا بہ نفس نفیس جیا ہوا ہے اور جس کی یادیں  اُنہیں  اب بھی تڑپاتی ہیں  جبکہ نئی نسل کی دُنیائیں  بے شمار ہیں ۔ ان میں  کوئی الیکسا سے خوش گپیاں  کرتا ہے تو کوئی لوڈو کنگ یا کینڈی کرش سے لطف اندوز ہوتا ہے، کسی کو کورین بینڈ سے دلچسپی ہے تو کسی کے تصور میں  وہ سیلیبریٹی یا انفلوئنسر ہے جو اُس کے ذہن و دل پر حاوی رہتا ہے۔ چونکہ دونوں  ہی نسلیں  نئی ٹیکنالوجی سے مستفید ہورہی ہیں  اس لئے بظاہر اُن کے درمیان گیپ بہت کم ہوگیا ہے مگر بباطن کافی بڑھ گیا ہے، جو گیپ نہیں  ہے، گلف ہے۔
  کیا صورت ِ حال کبھی ایسی تھی یا رہی ہوگی جیسی آج ہے؟شاید نہیں  کیونکہ ماضی کے کسی بھی دور میں  انسانی زندگی کا سرمایہ اُس کا تنوع تھا۔ وہ گھر، خاندان، محلہ، بستی، کھیت کھلیان، ہاٹ بازار، مسجد مندر، پھول، پتی، چڑیاں ، چاند، تارے، کہکشاں  وغیرہ وغیرہ کا مجموعہ ہوتی تھی۔ اُس زندگی میں  صحن تھا، الگنی تھی، طاق اور محراب تھے اور چراغ دان یا پان دان یا دسترخوان یا عطر دان یا قلم دان اپنی موجودگی کا کچھ اس طرح احساس دلاتے تھے جیسے اپنی قدروقیمت کو تسلیم کروانا چاہتے ہوں ۔ اس تنوع یا رنگا رنگی کے رخصت ہوجانے ہی کا نتیجہ ہے کہ اب مصنوعی رنگینیوں  میں  زندگی تلاش کی جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی پیڑ دکھاتی ہے مگر آم نہیں  کھلاتی۔ آم خریدنے کیلئے مخصوص ایپ پر جاکر آرڈر بک کرنا اور مطلوبہ رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ آم نہیں  ملے گا ایسا نہیں  ہے مگر گرمیوں  کی دوپہر، آنگن اور پیڑ کے بغیر۔ کیوں ؟ کیونکہ زندگی بدل گئی ہے اور شاید ہمیشہ کیلئے بدل گئی ہے۔
  اس تناظر میں  گیپ اور گلف کو دیکھئے کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے پرانی نسل کے لوگ اُس جیسے پیڑ کو دیکھنےمیں  محو ہیں  جو اُن کے بچپن میں  آنگن میں  تھا جبکہ نئی نسل گیم ٹری کی اُس دُنیا میں  کھوئی ہوئی ملتی ہے جو مصنوعی ذہانت میں  اہمیت کا حامل ہے۔ کیا آپ اِس نسل کے افراد کو گیم ٹری کے بارے میں  جاننے سے روک کر اپنے دور کے آم کے پیڑ جیسا پیڑ دکھائیں  گے؟ اِس پر اگر وہ بے دلی اور بے اعتنائی کا اظہار کریں  تو کیا آپ کا بُرا ماننا یا خفا ہونا درست ہوگا؟
  نئی نسل کو آم کے اُس پیڑ سے، جو آنگن میں  تھا، دلچسپی نہیں  ہے  اور پرانی نسل کا اے آئی کےگیم ٹری سے تعلق نہیں  ہے۔ یہ گیپ نہیں  گلف ہے مگر یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ اس کو عبو ر نہیں  جاسکتا۔ اس کے دونوں  کنارے اہم ہیں  خواہ وہ ہزاروں  میل کی مسافت پر ہوں ۔ آنگن کا پیڑ بھی اہم ہے اور مصنوعی ذہانت کا گیم ٹری بھی اہم ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس گلف یا خلیج کو جن کشتیوں  کے ذریعہ عبور کیا جاسکتا ہے وہ بنائی نہیں  گئی ہیں  اور ان کا خریدنا اس لئے مشکل ہے کہ یہ نہ تو کارخانوں  میں  ڈھلتی ہیں  نہ ہی بازاروں  میں  ملتی ہیں ۔ بازاروں  میں  اگر کچھ ہے تو کلاسیز ہیں  جہاں  کاؤنسلرس جنریشن گیپ کے مسائل سے نمٹنے کیلئے بزرگوں  کو بیش قیمت مشورے دیتے ہیں ۔ 

یہ بھی پڑھئے : سوشیلا کارکی کی حکومت کا استقبال مگر کچھ خدشات

 ان کشتیوں  میں  سے ایک ہے تبادلۂ خیال کی کشتی جس کے ذریعہ پرانی نسل کے افراد نئی نسل کی ذہنی سطح پر ڈول سکتے ہیں  یا نئی نسل کے افراد پرانی نسل کے تجربہ کی گہرائی کو آنک سکتے ہیں  یا پھر افہام و تفہیم کی کشتی ہے جس میں  آمنے سامنے لگی ہوئی نشستوں  پر پرانی اور نئی نسل کے لوگ آرام سے بیٹھ کر بہتے پانیوں  کا نظارہ بھی کرسکتے ہیں  اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش بھی۔ معاشرہ میں  یہ اور ایسی کشتیاں  اس لئے نہیں  ہیں  کہ پرانی نسل خود کے صحیح اور نئی نسل خود کے درست ہونے کا پہلے ہی اعلان کر دیتی ہے۔ 
 مشکل یہ بھی ہے کہ نئی نسل خود کو زیادہ ذہین اور عہد ِ نو کے تقاضوں  سے ہم آہنگ مانتی ہے۔ اس کی نظر میں  پرانی نسل کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جو نئے دور میں  اُن کے کام آئے۔ اس کے برخلاف پرانی نسل، نئی نسل کو غیر ذمہ دار، خود سر، ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار اور ایسا ہی بہت کچھ سمجھتی ہے۔ دونوں  نسلیں  دو کناروں  پر ہیں  اور بقول شاعر اِس پار بھی تنہائی ہے اور اُس پار بھی تنہائی ہے۔ بات یہیں  ختم نہیں  ہوتی بلکہ ایک مشکل اور ہے۔ پرانی نسل کے بہت سے لوگ چاہتے ہیں  کہ نئی نسل کے افراد اُن کے دَور میں  یعنی اُنیس سو پچاس میں  جاکر زندگی گزاریں  جو ممکن نہیں  ہے۔ اسی طرح نئی نسل کے لوگ چاہتے ہیں  کہ پرانی نسل دو ہزار پچیس کی دُنیا میں  سانس لے۔ یہ بھی پوری طرح ممکن نہیں  ہے۔اس کے باوجود یہ مضمون نگار محسوس کرتا ہے کہ اس خلیج کو عبور کیا جاسکتا ہے اُن کشتیوں  کی مدد سے جو بنیں  تو معاشرہ ہی میں  بنیں  گی۔ جس دن اِن کشتیوں  پر سفر ہوگا، ایک دوسرے سے کوئی شکوہ نہیں  رہے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK