• Fri, 19 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشیلا کارکی کی حکومت کا استقبال مگر کچھ خدشات

Updated: September 19, 2025, 1:52 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

نیپال میں گزشتہ دنوں جو ہوتا رہا وہ جین زی کے سڑکوں پر اترنے سے ہوا مگر واقعہ یہ ہے کہ نیپال کی حالیہ پرتشدد تحریک میں وہاں کے عوام کے ہر طبقے کا غصہ شامل تھا اور اس غصے کی اصل وجہ تھی بدعنوانی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بعد نیپال میں  گزشتہ کئی روز تک جو پرتشدد واقعات ہوتے رہے وہ اچھے نہیں  تھے مگر اب جبکہ سوشیلا کارکی نے عبوری حکومت کی وزیراعظم کے بطور حلف لے لیا ہے تو امید ہو چلی ہے کہ نیپال کو سیاسی استحکام حاصل ہوگا مگر یہ امید بھی اندیشوں  سے خالی نہیں  ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نیپال کی سیاسی قیادت ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۶ء کی سیاسی تحریکوں  کے مقاصد کی تکمیل میں  ناکام رہی ہے۔ کہنے کو تو نیپال میں  گزشتہ دنوں  جو ہوتا رہا وہ ’جین زی‘ یعنی ۱۹۹۷ء اور ۲۰۱۲ء کے درمیان پیدا ہوئے نوجوانوں  کے سڑکوں  پر اترنے سے ہوا مگر واقعہ یہ ہے کہ نیپال کی حالیہ پرتشدد تحریک میں  وہاں  کے عوام کے ہر طبقے کا غصہ شامل تھا اور اس غصے کی اصل وجہ تھی بدعنوانی۔ بھوٹان سے آئے پناہ گزینوں  کے بارے میں  گھپلے، گری برادران ٹی اسٹیٹ گھپلے، کوآپریٹیو فنڈ کے استعمال میں  خرد برد کے گھپلے، وزٹ ویزا کے نام پر وصولی کے گھپلے میں  کوئی نہ کوئی سیاسی لیڈر ملوث تھا۔ ارباب اقتدار کے لڑکوں  کے عیش و آرام بھری زندگی کو بھی عام لوگ اچھی نظر سے نہیں  دیکھتے تھے۔ عام نیپالی نوجوانوں  میں  بے روزگاری بڑھ رہی تھی جس کے سبب انہیں  دوسرے ملکوں  کا رخ کرنا پڑ رہا تھا۔ وہ بھی ایک سال میں  آٹھ لاکھ کی تعداد میں ۔ سوشل میڈیا نے انہیں  کوریا، انڈونیشیا، جاپان اور جنوب مشرقی ایشیاء کے دوسرے ملکوں  کی تہذیب سے متاثر کر دیا تھا اس کے علاوہ بادشاہت اور ہندو راشٹر کی واپسی کے خواہاں  حضرات بھی انہیں  ورغلا رہے تھے لہٰذا وہ سڑکوں  پر اتر کر آگ زنی کرنے لگے۔
 نیپال کے نوجوانوں  نے بھیڑ تو جمع کر لی، کے پی شرما اولی کی حکومت کو مستعفی ہونے پر بھی مجبور کر دیا مگر کوئی متبادل قیادت نہیں  پیش کرسکے لہٰذا جب عبوری حکومت بنانے کی بات آئی تو تین نام سامنے آئے۔ یہ نام تھے سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی، کاٹھمنڈو میں  بجلی کٹوتی کے مسئلہ کو حل کرنے والے کلمان گھیسنگ اور بعد میں  کاٹھمنڈو کے میئر بالیندر شاہ کے۔ گفتگو اور مشورے کے بعد سوشیلا کارکی کے نام پر اتفاق ہوا اور انہوں  نے عبوری حکومت کی وزیراعظم کی حیثیت سے حلف بھی لے لی۔ محترمہ بنارس ہندو یونیورسٹی کی طالبہ رہ چکی ہیں  اور ۱۹۷۵ء میں  انہوں  نے اس کی فیکلٹی آف آرٹس سے پولیٹکل سائنس میں  ایم اے کی ڈگری لی تھی یعنی سوشیلا کارکی کی جو نیپال کی چیف جسٹس رہ چکی ہیں ، ذہن سازی میں  ہندوستان کا بڑا ہاتھ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ چین جو نیپال کا بھی پڑوسی اور نیپالی سیاست میں  بہت بااثر ملک ہے سوشیلا کی حکومت کو کس طرح قبول کرے گا؟ ’اولی‘ کے پہلے دور حکومت کی ابتدا میں  انہوں  نے تو یہ ظاہر کیا تھا کہ ہندوستان سے تمام تعلقات ختم کرکے چین کے ہوجائیں  گے لیکن جب چین نے مشورہ دیا کہ وہ نیپال کی کمیونسٹ پارٹی سے اپنے رشتے ٹھیک کریں  تو وہ اس مشورے کو غیر ملکی مداخلت قرار دینے لگے۔ یہی نہیں  انہوں  نے بھارت سے اپنی قربت بھی ظاہر کی مگر ان کے ملک میں  ایسے حالات پیدا ہوئے کہ انہیں  مستعفی ہونا ہی پڑا۔ تین سال پہلے انہوں  نے یہ کیا تھا کہ ایک پارٹی کے حکمراں  محاذ سے الگ ہوجانے کے بعد بھی وہ اپنی حکومت چلائے جا رہے تھے کیونکہ صدر ان کی ہی پارٹی کی تھیں  مگر اس بار عوام کے بے قابو ہوتے ہی انہیں  نہ صرف استعفیٰ دینا پڑا بلکہ عبوری وزیراعظم سوشیلا کارکی نے ان پر ایف آئی آر درج کرنے کا بھی حکم دیدیا ہے جو ظاہر ہے اولی کی مصیبت میں  اضافے کا باعث ہوگی۔
 سوشیلا کارکی کے نام پر جین زی، فوج اور نیپال کے صدر کا متفق ہونا ان کی ایماندار شبیہ کے باعث ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے بھی انہیں  مبارکباد دی ہے اور نیپال کے نوجوان جنہوں  نے پرتشدد تحریک چلائی تھی اب سڑکوں ، عمارتوں  اور چوراہوں  کی صاف صفائی اور رنگ روغن میں  لگ گئے ہیں ۔ ظاہر ہے اس کے لئے ان سے کہا گیا ہوگا یا انہیں  ڈر رہا ہوگا کہ اگر انہوں  نے ایسا نہیں  کیا تو ’اولی‘ کی طرح انہیں  بھی اپنے کئے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ قانون کا احترام سب میں  ہونا چاہئے مگر یہاں  پھر ایک سوال ہے کہ چین اور اس کی ہم نوا پارٹیاں  کیا ان اقدامات کو پسند کریں  گی؟ یہ صحیح ہے کہ نیپال ہندوستان کا دوست ملک ہے۔ ایک زمانے تک ہندو راشٹر بھی رہا ہے اور اس کی موجودہ عبوری حکومت کی سربراہ ہندوستان کی پڑھی ہوئی ہیں  مگر یہ بھی سچ ہے کہ نیپال کبھی بھی چین کے اثرات سے پاک نہیں  رہا ہے۔ راجہ کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد تو یہاں  چین نواز حکومت کرتے رہے ہیں ۔ آج بھی نیپال کے طول و عرض میں  ان کا جال پھیلا ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں  وہ قصداً چپ ہیں  یا ان کی شعوری کوشش ہے کہ نیپال میں  کوئی عوامی حکومت ٹکنے نہ پائے اور پھر انہیں  اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملے۔ اب یہ خبریں  بھی آرہی ہیں  کہ سوشیلا کارکی کے شوہر نے طیارہ اغوا کیا تھا اور سوشیلا کے پاس بھی کافی دولت ہے۔ ان خبروں  سے اور کچھ ہو یا نہ ہو، سوشیلا کارکی کی ایمانداری پر سوالیہ نشان لگے گا۔ چین نے اگرچہ ان کو مبارکباد دی ہے مگر وہ ان خبروں  کو ہوا دے کر نیپال میں  ایک بار پھر سورش پیدا کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اچھا کیا کہ سوشیلا کارکی نے اعلان کر دیا ہے کہ چھ ماہ بعد وہ اور ان کی ٹیم اقتدار میں  نہیں  رہے گی اس سے ان کے خلاف صف بندی کرنے والوں  کو لگام لگے گی۔ انہوں  نے مہلوکین کو شہید کا درجہ اور ان کے اقرباء کو دس دس لاکھ روپے دینے کا وعدہ کرکے یا تحریک میں  شامل ہونے والے مجرموں  کی شناخت کرنے کا اعلان کرکے بھی اپنی مصیبت کم کرنے کی کوشش کی ہے مگر جیلوں  سے دس ہزار قیدیوں  کا فرار ہونا ان کے لئے مصیبت کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے : مدرسہ بورڈ کا صد سالہ جشن یامسلمانوں کی نبض شناسی

 ۷۳؍ سالہ سوشیلا کارکی اسلئے چیف جسٹس بن چکی ہیں  اور عبوری وزیراعظم بنی ہیں  کہ ان کو ایماندار سمجھا جاتا ہے مگر کیا وہ لوگ انہیں  اقتدار میں  رہنے دینگے جو ایماندار نہیں  ہیں  یا سوشیلا کارکی واقعی ایماندار ہیں  تو ان پر سوال کیوں  اٹھ رہے ہیں ؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔

nepal Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK