کیا نتیش کمار بحیثیت وزیر اعلیٰ حکومتی فیصلوں میں واقعی غیر فعال ہو چکے ہیں اور ان کے سیاسی معتمد اور عہدیدار محض اپنا چہرہ دکھا کر بہار اور جے ڈی یو پارٹی کی حکومت چلا رہے ہیں ؟
’’جے ڈی یو اب ہمارے لیڈر نتیش کمار کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے۔پارٹی اب تین افراد کے پاس گروی ہے جو نتیش کمار کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے تمام سیاسی فیصلے کر رہے ہیں ۔ جے ڈی یو کبھی لو کُش (کرمی۔کشواہا)، انتہائی پسماندہ اور دلتوں کی پارٹی سمجھی جاتی تھی لیکن اب جو لوگ سارے فیصلے کررہے ہیں ان میں ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ پارٹی کے ریاستی صدر ہمارے ضرور ہیں لیکن مگر ان کی حیثیت کسی دربان جیسی رہ گئی ہے۔‘‘۱۰؍ اکتوبر کو جب پورنیا کے سابق رکن پارلیمنٹ سنتوش کمار کشواہا جے ڈی یو چھوڑ کر آر جے ڈی میں شامل ہو رہے تھے تو انہوں نے میڈیا کے سامنے یہ بات کہی تھی۔
سنتوش کمار کشواہا جے ڈی یو سے اس وقت رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے جب پارٹی نے ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں صرف ۲؍ سیٹیں جیتی تھیں ۔ وہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں بھی ایم پی منتخب ہوئے تھے حالانکہ انہیں ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں آزاد امیدوار پپو یادو کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کے ارکان نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ نتیش کمار اور جے ڈی یو کے بارے میں سنتوش کشواہا کے تبصرے کتنے سچے ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ ایسے بیانات پارٹی چھوڑنے کی وجہ سے کر رہے ہیں ۔تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعے سے ۵؍ دن پہلے۵؍اکتوبر کو پٹنہ میں ایک میٹنگ میں بھی اسی طرح کے بیانات سامنے آئے تھے۔ ’جنتا دل (یونائیٹڈ) سمرپیت سینا ‘ نامی تنظیم نے جنتا دل (یونائیٹڈ) پارٹی کو بچانے کیلئے ایک مہم شروع کی اور اس کے بینر تلے جمع ہوئے لوگوں نے یہ نعرہ دیا ’’پسماندہ اور دلت برادریوں نے جنتا دل (یونائیٹڈ) کو غیر قانونی کنٹرول سے آزاد کرنے کا عزم کیا ہے۔‘‘
تقریب کے منتظم سنجے پٹیل نے اس موقع پر کہا تھا’’ہم جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ پارٹی کے ۸۵؍ فیصد لوگ گمراہ ہو رہے ہیں اور۱۵؍ فیصد نے پارٹی پر قبضہ کر لیا ہے۔ جے ڈی یو میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کوئی راز نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ پارٹی کے ۹۰؍ فیصد معاملات سے بے خبر ہیں ۔ ان تک لوگوں کو رسائی ہی نہیں دی جاتی ۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ صورتحال تبدیل ہو۔‘‘ سنجے پٹیل جے ڈی یو کے نائب صدر رہ چکے ہیں ۔ کچھ عرصے سے جے ڈی یو کے چیف ترجمان نیرج کمار بھی ایسے ہی دعوے کر رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ نتیش کمار کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے فیصلے کیے جا رہے ہیں ۔
اگرچہ ان الزامات میں کسی خاص فرد یا افراد کا نام نہیں لیا گیا ہے لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پارٹی کے ایگزیکٹیو صدر سنجے کمار جھا، وزیر وجے کمار چودھری، اور ایم پی للن سنگھ نتیش کمار کے قریبی ہیں اور انہوں نے ہی نتیش کمار کو عوام بالخصوص پارٹی کارکنوں سے دور رکھا ہے۔ اتفاق سے یہ تینوں اعلیٰ ذات وبرادری سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کے پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ذاتوں میں کسی حد تک ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے ان لیڈروں میں دلت برادری سے تعلق رکھنے والے اشوک چودھری کا بھی ذکر کیا گیا تھا ۔ تاہم پرشانت کشور کے الزامات کے بعد کہا جا رہا ہے کہ نتیش کمار نے خود کو ان سے دور کر لیا ہے۔کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ مذکورہ تینوں لیڈر سیاسی فیصلے کر رہے ہیں جبکہ ان کے مشیر دیپک کمار حکومتی امور کے فیصلے کرتے ہیں ۔ اس طرح کے الزامات ایک عرصے سے حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے لگائے جا رہے ہیں ۔ تیجسوی یادو اکثر نتیش کمارکو’ نشچیت‘(بے ہوش) وزیر اعلیٰ کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔ مہا گٹھ بندھن کے دیگر لیڈران بھی ایسے ہی الزامات لگا رہےہیں ۔ جن سوراج کے لیڈر پرشانت کشور نے بھی نتیش کمار کی خراب صحت کا ذکر کیا اور کہا کہ بہار کے سینئر وزیر انہیں اندھیرے میں رکھتے ہوئے بدعنوانی میں ملوث ہیں ۔یہی وجہ ہےکہ ان الزامات اور معاملات کی حقیقت کیا ہے، یہ بہار کی سیاست میں موضوع بحث بناہوا ہے۔ کیا نتیش کمار بحیثیت وزیر اعلیٰ حکومتی فیصلوں میں واقعی غیر فعال ہو چکے ہیں اور ان کے سیاسی معتمد اور عہدیدار محض اپنا چہرہ دکھا کر بہار اور جے ڈی یو پارٹی کی حکومت چلا رہے ہیں ؟ بہار میں نشستوں اور ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل اور پروگراموں میں بھی نتیش کمار کا نظر نہ آنا ایک بڑا سوال بنتا جا رہا ہے۔ جے ڈی یو میں جن کا ٹکٹ فائنل نہیں ہورہا ہے انہیں محسوس ہورہا ہےکہ نتیش کمار فیصلہ نہیں کررہے ہیں اسلئے ان کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے ۔
تاہم جے ڈی یو نے ان الزامات کی تردید کی ہے ۔پارٹی کے ترجمان اروند نشاد کا کہنا ہے ’’ نتیش کمار گزشتہ ۲۰؍ سال سےبہار کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ ضابطہ اخلاق سے پہلے بھی وہ باقاعدگی سے افتتاح، سنگ بنیاد رکھنے کی تقریبات اور دیگر تقاریب میں شریک رہے۔ یہ الزام سراسر غلط ہے۔ نتیش کمار بطور قومی صدر پارٹی کے تمام سینئر افراد سے مشاورت کے بعد ذاتی طور پر حتمی فیصلہ کرتے ہیں ۔ یہ ہماری پارٹی کا کام کرنے کا طریقہ ہے۔‘‘
اروند نشاد حالیہ مہینوں میں بہار کے مختلف اضلاع میں تعمیراتی پروجیکٹوں کے سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کا حوالہ دے رہے تھے۔ دراصل وزیر اعلیٰ نتیش کمار پچھلے ۱۰؍ مہینوں سے مسلسل ان پروجیکٹوں میں مصروف کار ہیں ۔لیکن وہ سیاسی معاملات میں اتنے متحرک نظر نہیں آتے۔ انہوں نے حال ہی میں کئی بار جے ڈی یو کے دفتر کا دورہ کیا اور ملاقاتیں کیں ۔ وہ این ڈی اے کی ریلیوں میں بھی دیکھے گئے اور ٹکٹ کے خواہشمندوں سے ایک دو بار ملے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ٹکٹوں کی تقسیم کا کام اپنے تین اہم رہنماؤں کو سونپا ہے۔ خاص طور پر وجے کمار چودھری پر زیادہ ذمہ داریاں ہیں ۔ جے ڈی یو کے کئی ٹکٹ کے خواہشمندوں نے غیر رسمی طور پر کہا ہے کہ جب انہوں نے ٹکٹوں کے سلسلے میں نتیش کمار سے ملنے کی کوشش کی تو انہیں انکی رہائش گاہ پر کہا گیا کہ وہ وجے کمار چودھری سے رابطہ کریں ۔
’پربھات خبر‘ اخبار کے پولیٹکل ایڈیٹر متھلیش کمار، جنہوں نے نتیش کمار کے سفر پر ایک کتاب بھی لکھی ہے، کہتے ہیں ’’مجھے نہیں لگتا کہ نتیش کمار کسی چیز سے بے خبر ہیں ۔ وہ ہر چیز پر گہری نظر رکھتے ہیں ، چاہے سیاسی ہو یا انتظامی ۔ بہار حکومت اور جے ڈی یو کے ہر فیصلے میں ان کا اثر اب بھی نظر آتا ہے۔ بات چیت کیلئے انہوں نے ضرورایگزیکٹیو چیئرمین سنجے کمار جھا اور دیگر لیڈروں کو ذمہ داریاں سونپی ہیں لیکن حتمی فیصلہ وہی کررہے ہیں ۔ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے پارٹی کا نشان قومی صدر کے دستخط سے ملتا ہے، اس لیے ان کی رضامندی کے بغیر کسی کو ٹکٹ نہیں مل سکتا۔یہ صورتحال ضرور ہے۔‘‘
(بشکریہ انڈیا ٹوڈے)