بہار کے ضلع بکسر کے چوسا بلاک کے ایک گائوں سے یہ خبر آئی کہ رام پور پنچایت کے ڈیوی ڈہرا گائوں کے بیدھ راج جناردن سنگھ نےمسلمانوں کیلئے قبرستان کی زمین عطیہ کی۔ اس طرح کی حقیقت کو بھی عیاں کیا جانا چاہئے اور اس مثالی عمل کو عام کیا جانا چاہئے کہ اس طرح کا عمل ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کوسازگار بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔
بہار کے ضلع بکسر کے چوسا بلاک کے ایک گائوں سے یہ خبر آئی کہ رام پور پنچایت کے ڈیوی ڈہرا گائوں کے بیدھ راج جناردن سنگھ نےمسلمانوں کیلئے قبرستان کی زمین عطیہ کی
اس تلخ حقیقت سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان کی فضا دن بہ دن مکدر ہوتی جا رہی ہے اور اس گہوارۂ امن کو جائے منافرت بنانے کی سازشیں ہوتی رہتی ہیں ۔اس کے وجوہ پر مفصل گفتگو یہاں ممکن نہیں کہ اس کے لئے طوالت درکار ہے اور ایک اخباری مضمون اس کی اجازت نہیں دیتالیکن مایوسیوں کے اس دور میں بھی قندیلِ امید روشن ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ جن افراد کی تنظیموں نے اپنی ایک صدی کی جہد مسلسل سے ملک کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لباس کو تار تار کرنے کی کوشش کی ہے ان کی صف میں اب بھی اس ملک کے امن پسند افراد کی بدولت محض بیس سے پچیس فیصد لوگ ہی صف بند ہو سکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف جس طرح کا طوفان برپا کیا جا رہاہے اس کے خلاف ہمارے برادرِ وطن کی اکثریت کھڑی ہے اور اس ملک کی روح کو مجروح ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارا قومی میڈیا منافرت کی خبروں کو نہ صرف پروسنے میں دلچسپی رکھتا ہے بلکہ اس میں افواہوں کا زہر ملا کر پھیلانا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ منافرت پھیلانے والے افراد کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور ان کی مٹھی بھر تعداد نے ملک کی اکثریت کے سامنے ایک بڑا چیلنج کھڑا کردیاہے کہ وہ کس طرح اپنے ہندوستان کے سناتنی نعرہ ’’بسودیو کٹمبھ کم‘‘ یعنی پوری دنیا ایک خاندان ہے اس کی صدا کو بر قرار رکھ سکے ۔اس لئے اقلیت طبقے بالخصوص مسلمانوں کو بھی یاس وملول کے دائرہ سے باہر نکل کر ان برادرِ وطن کے سا تھ کھڑا ہونا چاہئے جو اس ملک کی تہذیبی اور ثقافتی شناخت کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور آئین کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے سینہ سپر ہیں ۔
دنیا کی تاریخ کے اوراق اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ کسی بھی ملک میں اقلیت طبقے کے ساتھ کبھی نہ کبھی اس طرح کے حالات سامنے آتے رہے ہیں اور اقلیت طبقہ اس سے نبر د آزما ہوتا رہاہے مگر اپنی اتحادی قوت اور صالح افکار ونظریات کی تبلیغ کے ذریعہ نہ صرف حالات پر قابو پانے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ سرخرو بھی ہوئے ہیں۔اس لئے وطن عزیز میں جس طرح کے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں اس کا مقابلہ منفی نظریے کی بدولت یا خوف وہراس کے ماحول میں رہ کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اپنے مذہبی ، اخلاقی اسباق اور کردار وعمل کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے اکابرین کو آج کے حالات سے کہیں زیادہ مشکل حالات کا سامنا رہا اور ان جیالوں نے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے اپنے اعمال وکردار سے اس طرح کی فضا تیار کی کہ ان کے وقت کے بڑے سے بڑے منافرت کے علمبرداروں کو منہ کی کھانی پڑی اور ہم ہندوستان کی تہذیب وتمدن کا ایک حصہ بن کر اس کی شناخت کے ضامن بن گئے ۔کیا اس وقت ہم اپنے اسلاف کے اسباق کی روشنی میں زندگی گزار رہے ہیں ؟ کیا ہم اپنے اکابرین کی حکمت عملی کی تاریخ سے آگاہ ہیں اور اگر ہیں تو کیا اس پر عمل پیرا ہیں ؟ ہمارے معاشرے میں دن بہ دن انتشار کی وجہ کیا ہے ؟ ہم اپنی عملی زندگی میں شعائرِ اسلام کے کتنے پابند ہیں ؟ ان تمام چیزوں پر کبھی ٹھنڈے دل سے سوچنے کا موقع ملا ہے ؟ اور اگر کبھی ہم سب نے سوچا ہے تو کیاعملی نتیجہ سامنے آیا ہے ۔ ا گر واقعی ہمارا معاشرہ قرآنی تقاضوں کا عکاس بن جائے اور ہماری غوروفکر کا مرکز ومحور صرف قرآن اور حدیث ہو تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ہماری فکر سے ہمارے معاشرے میں انتشار پیدا ہو اور ہمارا اتحاد پارہ پارہ ہو ۔مگر تلخ سچائی یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اپنی شناخت کھو چکا ہے اور ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو پہچاننے سے قاصر ہو گئے ہیں ۔ہمارا سماجی تانا بانا اس قدر ٹوٹ چکا ہے اس کا اندازہ سب کو ہے ۔ اس لئے اس ملک میں جو طبقہ یا جس نظریے کے علمبردار منافرت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے جال میں ہم بھی پھنستے جا رہے ہیں۔ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں انتخابی عمل صرف ایک سیاسی تقاضوں کو پورا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس ملک کی تصویر اور تقدیر بدلنے کا نسخۂ کیمیا ہے لیکن اس تلخ سچائی سے کون واقف نہیں کہ ہم جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے میں کس قدر ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت اعلامیہ کہہ رہی ہے کہ ہمیں مسلم اقلیت کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ۔ظاہر ہے کہ ایک جمہوری ملک میں جب کوئی سیاسی جماعت اس طرح کا اعلامیہ جاری کر رہی ہے تو وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ وہ طبقہ خود ہی سیاسی اعتبار سے صفر بن چکا ہے ۔
بہر کیف! اس وقت اس مضمون کی تحریر کی وجہ یہ ہے کہ حال ہی میں ریاست بہار کے ضلع بکسر کے چوسا بلاک کے ایک گائوں سے یہ خبر آئی کہ رام پور پنچایت کے ڈیوی ڈہرا گائوں کے باشندہ بیدھ راج جناردن سنگھ نے مسلم اقلیت طبقے کوقبرستان کے لئے ایک ایکڑ زمین مفت دی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس گائوں میں پچاس سے زائد گھر مسلم اقلیت کے ہیں لیکن اس گائوں سے کوسوں دور قبرستان ہے ۔ لہٰذا جب کبھی کسی کی موت ہوتی ہے تو میت کودفنانے کیلئے وہاں لے جانا مجبوری ہے اور اس میں ان لوگوں کو نہ صرف پریشانیاں ہوتی ہیں بلکہ کئی بارفرقہ وارانہ تنازعے بھی ہوئے ہیں ۔ اس لئے اکثریت طبقے کے جناردن سنگھ نے مسلمانوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے اپنی ایک ایکڑ زمین بطور قبرستان مفت دان کیا ہے۔ ویسے اس دان کی وجہ بھی بہت غمناک ہے کہ جناردن سنگھ کے بیٹے شیوم کمار کی ایک سڑک حادثے میں دردناک موت ہوگئی تھی اور چوں کہ اس کی موت دہرادون کے قریب ہوئی تھی اور انہیں جس طرح کی پریشانیوں کا سامنا رہا اس سے انہوں نے اپنے گائوں کے مسلم بھائیوں کی پریشانیوں کو سمجھا اور ان کے لئے قبرستان کی زمین عطیہ کی ۔اس وقت جب ملک میں مسلمان ا و ر قبرستان کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور اس منافرت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے کا جنون ہے ، ایسے وقت میں جناردن سنگھ کا قبرستان کے لئے زمین عطیہ کرنا نہ صرف انسانیت کے اعلیٰ مثالی کردار کا نمونہ ہے بلکہ منافرت کے طوفان کی زد پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا چراغ روشن کرنے کے مانند ہے ۔ اس لئے اس طرح کی حقیقت کو بھی عیاں کیا جانا چاہئے اور اس مثالی عمل کو عام کیا جانا چاہئے کہ اس طرح کا عمل ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کوسازگار بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ n