ممدانی کیلئے مہم چلانے والے رضاکاروں نے جنوبی ایشیائی محلوں میں ۱۸ ہزار سے زائد دروازے کھٹکھٹائے اور ان ووٹروں تک پہنچنے کیلئے ہندی، اردو، بنگالی، نیپالی اور دیگر علاقائی زبانوں کا استعمال کیا۔
EPAPER
Updated: December 11, 2025, 3:01 PM IST | New York
ممدانی کیلئے مہم چلانے والے رضاکاروں نے جنوبی ایشیائی محلوں میں ۱۸ ہزار سے زائد دروازے کھٹکھٹائے اور ان ووٹروں تک پہنچنے کیلئے ہندی، اردو، بنگالی، نیپالی اور دیگر علاقائی زبانوں کا استعمال کیا۔
گزشتہ ماہ ۴ نومبر کو نیویارک شہر کے پہلے جنوبی ایشیائی اور مسلم میئر کے طور پر ظہران ممدانی کی فتح میں ہند نژاد امریکی اور جنوبی ایشیائی ووٹروں کی غیر معمولی طور پر زیادہ شرکت نے اہم کردار ادا کیا۔ ’دیسی رائزنگ اپ اینڈ موونگ‘ (DRUM Beats) کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوتوا گروپس کی جانب سے ممدانی کو ”ہندو مخالف“ قرار دینے کی زبردست مہم کے باوجود، کئی کونسل اضلاع میں ہند نژاد امریکیوں کی حمایت میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جس نے ممدانی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔
نیویارک کے حالیہ میئر انتخابات میں کونسل ڈسٹرکٹ ۳۹ میں، ہندوستانی امریکی ووٹروں کی شرکت ۶۴ فیصد تک پہنچ گئی۔ واضح رہے کہ اس ڈسٹرکٹ کے علاقے بروکلن میں کافی تعداد میں جنوبی ایشیائی گھرانے آباد ہیں۔ ڈسٹرکٹ ۶ جس میں مین ہٹن کا علاقہ شامل ہے، میں یہ تعداد ۵۵ فیصد جبکہ کوئنز کے ڈسٹرکٹ ۲۵ میں، جس میں جیکسن ہائٹس اور ایلمہرسٹ جیسی جنوبی ایشیائی افراد کی خاصی ابادی والے علاقے شامل ہیں، ووٹروں کی تعداد ۴۴ فیصد تک پہنچ گئی۔ نیویارک ٹائمز کے اعدادوشمار کے مطابق، ممدانی نے ان تینوں علاقوں میں بڑے فرق سے کامیابی حاصل کی۔ ممدانی میں پارک سلوپ میں ۸۲ فیصد اور جیکسن ہائٹس میں ۶۰ فیصد ووٹ حاصل کئے جہاں ایشیائی نژاد افراد کی بڑی ابادی رہائش پذیر ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ نے خاتون کانگریس الہان عمر کا گندی، میلی، قابل نفرت کہہ کر تمسخر اڑایا
ووٹروں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ
ڈرم بیٹس نے ووٹروں کی نسل کا اندازہ لگانے کیلئے ان کے ناموں اور بورڈ آف الیکشنز کے اعدادوشمار پر مبنی شماریاتی ماڈلنگ کا استعمال کیا۔ تقریباً ایک لاکھ عارضی بیلٹوں کو چھوڑ دیا جائے تو نیویارک میئر انتخابات کے نتائج ایک بڑی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، شہر بھر میں ۲۰۲۱ء کے گزشتہ انتخابات کے مقابلے ووٹنگ میں حصہ لینے والے شہریوں کی تعداد میں ۱۸۰ فیصد اضافہ ہوا۔ اس درمیان، حیرت انگیز طور پر جنوبی ایشیائی افراد کے ووٹر ٹرن آؤٹ میں ۳۵۰ فیصد اضافہ دیکھنے ملا۔ بنگلہ دیشی ووٹروں کے درمیان ۳۸۶ فیصد کا سب سے بڑا اضافہ دیکھا گیا جبکہ ہند نژاد اور پاکستان نژاد ووٹروں کی شرکت میں بھی ۳۳۸ فیصد کا اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر مسلم ووٹروں کی شرکت میں ۲۸۳ فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس اضافے کی وجہ سے جنوبی ایشیائی رائے دہندگان، جو کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد کا ۴ء۳ فیصد ہیں، نے ۲۰۲۵ء میں تمام بیلٹوں میں ۵ء۳ فیصد ووٹ ڈالے جو پچھلے میئر انتخابات میں ان کے حصے سے تقریباً دگنا ہے۔
رضاکاروں کے مطابق، یہ اعداد و شمار مہینوں کی انتھک تنظیم سازی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ممدانی کیلئے مہم چلانے والے رضاکاروں نے جنوبی ایشیائی محلوں میں ۱۸ ہزار سے زائد گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے اور ایسے ووٹروں تک پہنچنے کیلئے ان سے ہندی، اردو، بنگالی، نیپالی اور دیگر علاقائی زبانوں میں گفتگو کی جنہیں مرکزی دھارے کی مہمات اکثر نظر انداز کر دیتی ہیں۔
تاہم، چند ہند نژاد امریکیوں کے علاقوں میں اس کے برعکس حالات دکھائی دیئے۔ کوئینز کے بیلروس، فلورل پارک اور گلین اوکس جیسے متمول محلوں میں زیادہ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہیں کیا۔ واضح رہے کہ ممدانی گلین اوکس میں بہت کم فرق سے ہار گئے تھے۔ ان علاقوں میں ہندوتوا سے منسلک کارکنوں اور نیویارک کے سابق میئر اور ممدانی کے حریف، اینڈریو کومو کے حامیوں کی قیادت میں ایک قلیل مدتی لیکن اچھی طرح سے فنڈ کی گئی مہم چلائی گئی تھی جس کی وجہ سے یہاں ممدانی کیلئے جوش وخروش دکھائی نہیں دیا۔