آخری رسومات ادا کرنے کیلئے ایک بچہ اپنے چھوٹے بھائی کی لاش کو پیٹھ پر اٹھائے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔دنیا نے جنگ کے کیسے کیسے تجربے کیے،مگر یہ دنیا اس تجربے سے نہ تو شرمندہ ہوئی ہے اور نہ تھکی ہے۔جنگ کسی نہ کسی طور پر جاری ہے۔سب سے بڑی جنگ وہ نفسیاتی خوف ہے۔
یہ جملہ اس دس سال کے بچے کی زبان سے نکلا جب وہ اپنے بھائی کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے جا رہا تھا۔ بچے کی ایک تصویر کچھ لوگوں کے ساتھ ہے جو قطار میں کھڑے ہیں اور بچہ قطار میں سب سے آگے ہے۔ایک تصویر وہ ہے جس میں بچہ اکیلا ہے۔مگر دونوں تصویروں میں جنگ کی سفاکیت اور بے رحمی کی تاریخ مجسم ہو گئی ہے۔دنیا میں اور بھی ایسی صورتحال جنگ کے دوران یا جنگ کے بعد پیدا ہوئی ہوگی، مگر جب سے یہ تصویر سامنے آئی ہے جنگ کے بعد کی صورتحال ایک لازوال کہانی میں تبدیل ہو گئی ہے۔تصویر کو پوپ فرانسس کی طرف سے ۳۰؍دسمبر۲۰۱۷ء کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔جنوری ۲۰۱۸ء کو تصویر شائع ہوئی۔تصویر کیتھولک چرچ کے سربراہ کے پوسٹ کارڈ کے ساتھ منسلک تھی، جس کا عنوان تھا۔’’جنگ کا پھل۔‘‘کارڈ پرفر انسیسی زبان میں ایک پیغام تھا اور پوپ کا دستخط بھی تھا۔اس پر یہ عبارت درج تھی۔’’نوجوان لڑکے کی اداسی کا اظہار صرف اس کے ہونٹوں کو کاٹنے کے اشارے میں ہوتا ہے جس سے خون بہہ رہا ہے‘‘ بھاری نہیں یہ میرا بھائی ہے‘‘،یہ جملہ جاپان کی تہذیبی زندگی کی قوت اور اتحاد کی علامت بن گیا۔جب سے تصویر سامنے آئی ہے دنیا کا ہر حساس شخص نہ صرف افسردہ ہے بلکہ انسانی تاریخ کے ایک باب پر شرمندہ بھی ہے۔زمین پر زمینی ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ جب لمبی ہو جاتی ہے تو کچھ بات چیت کی صورت نکل آتی ہے ۔زمینی جنگوں اور زمینی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی انسانی زندگی پامال ہوئی ہے مگر جب ہتھیار کچھ اتنی تیز رفتاری کے ساتھ انسانوں اور شہروں کو تباہ کر رہا ہو تو ایسے میں بات چیت کا کوئی نہ تو مطلب ہے اور نہ صورت۔دنیا جانتی ہے کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جب جوہری ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا تو وہ ایٹمی ہتھیاروں کا پہلا استعمال یا پہلا تجربہ بھی تھا۔
جاپانی قلم کار ماسو جی ا یبوسے۔جس کا ناول اردو میں ’’کالی بارش ‘‘کے نام سے اجمل کمال نے ترجمہ کیا ہے،وہ اس تباہی کا ایک اہم تخلیقی اظہار ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد اس بچے کی تصویر کو دیکھیے تو جنگ کے بعد کی صورتحال جنگ کے درمیان کی صورتحال سے کتنی مماثل یا مختلف دکھائی دیتی ہے۔آخری رسومات ادا کرنے کیلئے ایک بچہ اپنے چھوٹے بھائی کی لاش کو پیٹھ پر اٹھائے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔دنیا نے جنگ کے کیسے کیسے تجربے کیے،مگر یہ دنیا اس تجربے سے نہ تو شرمندہ ہوئی ہے اور نہ تھکی ہے۔جنگ کسی نہ کسی طور پر جاری ہے۔سب سے بڑی جنگ وہ نفسیاتی خوف ہے جو جنگ کے وسیلے سے انسانی آبادی کا مقدر بنتا جاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کو تصویروں کی زبانی بھی دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔ میرے مطالعے میں ایک ایسی کتاب رہی ہے جس میں دوسری جنگ عظیم کی تصویریں ہیں اور ان تصویروں کے ساتھ چند جملے درج کیے گئے ہیں ۔مگر اس بچے کی تصویر کو دوسری جنگ عظیم کی تصویروں سے الگ ہونا تھا۔ایک مدت تک تصویر نگاہوں سے اوجھل رہی مگر دوسری جنگ عظیم کی روداد میں کہیں چھپی ہوئی ضرور تھی۔جاپان پر حملے کا یہ جواز بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اگر حملہ نہ کیا جاتا تو جاپانی حکومت نے ہتھیار نہ ڈالا ہوتا۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام کےبعد ۲۹؍ سال کے ایک امریکی فوٹوگرافر جواڈو نل کو ہیرو شیما اور ناگاساکی بھیجا گیا تا کہ وہ ان دو شہروں کی تباہ شدہ زندگیوں کو دستاویزات کی صورت میں محفوظ کر سکے۔یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں فوٹوگرافر کے لیے تحریر سے زیادہ تصویر اہم تھی۔اس نے اس بچے کے تعلق سے لکھا ہے۔’’میں نے ایک دس سال کے بچے کو نزدیک سے گزرتا ہوا دیکھا۔اس کی پیٹھ پر ایک بچہ تھا۔ اپنے چھوٹے بھائی، بہنوں کو پیٹھ پر لا دے کھیلوں میں مشغول بچوں کو دیکھنا ان دنوں جاپان میں عام سا منظر ہوا کرتا تھا۔ لیکن یہ بچہ الگ تھا.وہ ننگے پیر تھا‘‘ اس کا چہرہ پر سنجیدگی تھی۔ پیٹھ پر لدے بچے کا سر پیچھے کی طرف لٹکا ہوا تھا۔جیسے وہ تھک کر سو گیا ہو۔بچہ وہاں پانچ سے دس منٹ تک کھڑا رہا۔پھر موجود سفید ماسک پہننے آدمی اس کے قریب آئے۔اور اس رسی کو کھولنے لگے جس سے بچے کو باندھا گیا تھا۔تب میں نے دیکھا کہ بچہ مرا ہوا تھا’’یہ روداد فوٹوگرافر کی زبان سے کتنی تاریخی اور کتنی نئی معلوم ہوتی ہے۔بچے کی عمر کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بڑی عمر کے کسی شخص نے بچے کی درخواست پر اس کے چھوٹے بھائی کو پیٹھ پر کسی شے سے باندھ دیا ہوگا۔یہ دو بھائیوں کا ایسا اتحاد ہے جو تاریخ میں چھوٹی عمر کے ساتھ بہت کم تاریخ کا حصہ بنا ہوگا۔’’یہ بھاری نہیں یہ میرا بھائی ہے‘‘بچے کی زبان سے ادا ہونے والا جملہ ایک ایسا لسانی اظہار ہے، جس میں مستقبل کی تہذیبی زندگی کی قوت کا راز پوشیدہ تھا۔بچے کی زبان کتنی سبک،آسان اور تمام طرح کی سیاسی آلائشوں سے پاک ہے۔کسی ملک کی تاریخ میں اس طرح کے جملے جن موقعوں پر کسی شخص کی زبان سے نکلے ہوں گے،وہ موقع جنگ کی تباہی کے بعد کا موقع نہیں ہوگا۔وہ بھی ایک بچے کی زبان سے نکلنے والا جملہ۔یہ میرا بھائی ہے،اسے ہماری زندگی کا عنوان بننا چاہیے۔ ایک ایسا عنوان ہےجو تمام قسم کی جغرافیائی حد بندیوں سے بلند ہے۔بچے کے اس جملے کے ساتھ کچھ اور جملے بھی بنائے گئے یا بنائے جا سکتے ہیں لیکن جو سادگی،سچائی اور خاموش جذبے کی آگ اس ایک جملے میں پوشیدہ ہے وہ آپ اپنی مثال ہے۔جیسا کہ لکھا جا چکا ہے اس بچے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔مگر تصویر کو دیکھیے تو پھر اس سے زیادہ کسی اور تفتیش،تفصیل اور ریکارڈ کے دوسرے ثبوتوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ایک بچے کی نگاہ کسی شے پر مرکوز ہے۔یا وہ خیال اس کی نگاہ کا مرکز بن گیا ہے جو ایک بڑی عمر کے شخص کا مقدر ہوا کرتا ہے۔چہرے پر ٹھہراؤ اور اداسی کی ملی جلی کیفیت نے معصومیت کو ایک ایسا مفہوم عطا کر دیا ہے،جس کا رشتہ حکومت اور سیاست کی بدصورتیوں سے قائم ہو جاتا ہے۔فوٹوگرافر نے یہ بھی لکھا ہے۔چیتا کی لپٹیں اتنی نیچی تھیں ،جیسے سورج ڈھل رہا ہوں ۔