گزشتہ ایک ماہ سے کسی نے عمران خان کو نہیں دیکھا۔ ان کی بہنوں، وکلاء، ڈاکٹروں یاپارٹی لیڈروں کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود جیل میں ان سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی لیڈر سہیل آفریدی کی ملاقات کی درخواست آٹھ بار مسترد کردی گئی۔
مصدقہ اطلاعات کی عدم موجودگی میں عوام میں غیر یقینی کیفیت اور عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ جب معاشرے میں بحران کی صورتحال پیدا ہورہی ہو تو لوگ حقائق سے آگہی کے لئے بے چین ہوجاتے ہیں ۔ اگر حکام اور میڈیا یا سرکاری ذرائع اطلاعات فراہم کرنا بند کردیں تو لوگ معلومات کے متبادل ذرائع مثلاً سوشل میڈیا کی جانب رخ کرتے ہیں ۔اس طرح کے ماحول میں قیاس آرائیاں اور افواہیں سر ابھارتی ہیں ۔سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سربراہ عمران خان کے متعلق پچھلے ایک ہفتے سے قیاس آرائیوں اور افواہوں کا جو بازار گرم ہے اس کا اہم سبب یہ ہے کہ کسی کو عمران کی کوئی خبر نہیں ہے۔
گزشتہ ایک ماہ سے کسی نے عمران خان کو نہیں دیکھا۔ ان کی بہنوں ، وکلاء، ڈاکٹروں یاپارٹی لیڈروں کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود جیل میں ان سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی لیڈر سہیل آفریدی کی ملاقات کی درخواست آٹھ بار مسترد کردی گئی۔ عمران کی بہنوں نے جیل کے باہر احتجاج کیا تو انہیں زدو کوب کیا گیا۔ ایسے میں سوشل میڈیا پریہ افواہ گشت کرنے لگی کہ جیل میں عمران کو ہلاک کردیا گیا۔ برطانیہ میں مقیم عمران کے بیٹوں قاسم اور سلیمان نے بھی عمران کی جان کو لاحق خطرے کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کردیا۔
منگل کی صبح تک جب میں یہ کالم مکمل کررہا ہوں شہباز شریف حکومت نے عمران کی صحت اور زندگی کے متعلق ہونے والی قیاس آرائیوں پر چپی سادھ رکھی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران کی موت کی افواہیں محض افواہیں ہی ہیں تاہم ان سے عمران کے اہل خانہ، تحریک انصاف کے کارکنوں اور لاکھوں شیدائیوں میں اضطراب اور اندیشہ پیدا ہونا فطری ہے۔منگل کے دن عمران کی بہنوں ، پارٹی لیڈروں اور کارکنوں اور شیدائیوں نے اڈیالہ جیل تک مارچ کا اعلان کیا ہے۔ حکومت اور فوج نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں جلسے جلوسوں پر پابندی لگادی ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ سیکورٹی فورسیز عمران کے حامیوں کے خلاف تشدد کرسکتی ہیں ۔ صرف یہ کہہ کر دامن جھاڑ دینے سے کہ عمران بالکل محفوظ ہیں کام نہیں چلے گا۔ حکومت چاہتی تو عمران کے گھر والوں ، وکلا یا معالجوں کی ان سے چند منٹوں کی ملاقات کروائی جاسکتی تھی۔ اب تو ٹیکنالوجی اتنی ترقی کرچکی ہے کہ جیل کی کوٹھری سے عمران کی صرف ساٹھ سیکنڈ کی ایک لائیو ویڈیوکلپ جاری کرکے تمام افواہوں کی تردید کروائی جاسکتی تھی۔
دو سال قبل سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے جانے کے باوجود عمران خان پاکستان کے سیاسی منظرنامہ سے غائب ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں اور یہ بات نہ شہباز شریف حکومت کو گوارا ہے اور نہ ہی پاکستان کے طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو۔ ۲۰۰۸ء میں فوجی آمریت کے خاتمہ کے بعد پاکستان میں لولی لنگڑی ہی سہی، پارلیمانی جمہوریت اپنے قدم جمارہی تھی لیکن عاصم منیر نے سب الٹ پلٹ کردیا۔ ماضی میں ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسے جنرل فوجی بغاوتوں کے ذریعہ منتخب حکومتوں کا تختہ پلٹ کر اقتدار پرقابض ہوئے تھے لیکن عاصم منیرنے نہ بغاوت کی اورنہ ہی مارشل لاء نافذ کیا اور پھر بھی آسانی سے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ عاصم منیر نے پرانے نظام کو بدل کرفوجی حکومت کا ایک نیا نظام نافذ کیا ہے۔ اب آرمی نہ تو براہ راست حکومت کرتی ہے اور نہ ہی پردے کے پیچھے سے مداخلت کرتی ہے بلکہ سویلین حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھاملاکر اور اس کے اشتراک سے گورننس میں شامل ہے۔ اقتدار میں حصے داری کا یہ بالکل انوکھا ماڈل ہے جسے ہائبرڈ نظام کہاجارہا ہے۔اس نظام میں جمہوریت کی مسلسل بیخ کنی ہورہی ہے اور ملٹری جنرل کے اختیارات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
مئی میں ہندوستان کے ساتھ ہوئی چار روزہ جنگ کے بعد عاصم منیر نے خود کو فیلڈ مارشل کا خطاب دے دیا۔پچھلے ماہ ملک کے آئین میں ترمیم کرکے انہیں ملٹری کی تمام سروسز آرمی، ائیر فورس اور نیوی کا سربراہ بناکر ان کا قد اور بڑھادیا گیا۔ عاصم منیر پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل بھی بن بیٹھے ہیں اور پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز(سی ڈی ایف) بھی۔ متنازع ۲۷؍ویں آئینی ترمیم کے تحت منیر نے خود کو گرفتاری یا کسی بھی قانونی کاروائی سے تامرگ استثنیٰ بھی دے دیا ہے۔ مطلب یہ کہ اب سپہ سالار اعظم کیلئے سات خون معاف کردیئے گئے ہیں ۔ان کی سروس کی مدت بھی تین سے بڑھاکر پانچ سال کردی گئی اور مزید پانچ سال کی توسیع کی گنجائش بھی رکھ دی گئی۔سپریم کورٹ کے متوازی ایک وفاقی آئینی عدالت بھی قائم کردی گئی تاکہ عدلیہ کے پر کترے جاسکیں ۔ صرف ملٹری ہی نہیں ملک کی خارجہ پالیسی اور معیشت بھی منیر کے کنٹرول میں آگئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عاصم منیر کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں والی صورتحال ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے اس ہائبرڈ نظام کی سپر پاور امریکہ اور سعودی عرب نے بھی توثیق کردی ہے۔عاصم منیر کی یہ ہوش ربا ترقی اور پاکستان پر ان کی گرفت، سیاست میں عمران خان کی موجودگی میں کسی صورت ممکن نہیں تھی۔ عمران نے منیر کی اقتدار کی ہوس اور سازشی ذہنیت کو بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا اسی لئے انہیں تقرری کے محض آٹھ ماہ کے اندر ۲۰۱۹ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹادیا تھا۔ منیرعمران سے اس ذلت کا گن گن کر بدلہ لے رہے ہیں ۔ عمران کے سیاسی مخالفین کو اس بات کا پورا اندازہ ہے کہ آرمی کی مدد کے بغیر وہ عمران خان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں ۔ عمران کی سیاسی تحریک کی طاقت اور ان کی پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ کو کمزور کرنے کی صلاحیت ان میں نہیں ہے۔ عوامی مقبولیت میں بھی عمران کسی شریف کسی بھٹو یا زرداری سے میلوں آگے ہیں اسی لئے خان کے سیاسی مخالفین نے فوجی جنرلوں کے ساتھ ایک متحدہ محاذ بنالیا ہے۔
دو سال سے عمران خان کے جیل میں بند رہنے کے باوجود شہباز شریف اور فوجی جنرلوں کی پریشانیاں کم نہیں ہوئی ہیں کیونکہ عوام کے دلوں پر ابھی بھی عمران راج کر رہے ہیں اسی لئے اسٹیبلشمنٹ نے جیل میں عمران کے خلاف ایک اعصابی جنگ شروع کردی ہے۔ پاکستانی تجزیہ نگار مہرین زہرہ ملک کے مطابق پاکستانی جنرل اسوقت ایک بڑے دوراہے پر کھڑے ہیں ۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے پاس دو آپشنز ہیں : عدالتی کارروائی یا انتخاب کے ذریعہ عمران کے سیاسی مستقبل کو بحال کردے یا پھر طاقت کا استعمال کرکے ملک کی سیاست سے ان کی ہمیشہ کیلئے بدائی کردے۔ دونوں ہی آپشنز پر خطر ہیں ۔