زوبین گرگ کی موت نے پورے ہندوستان کو ایک ایسے فنکار کے تئیں اچانک بیدار کردیا جس کی گوناگوں خصوصیات سے کم ہی لوگ واقف تھے۔ فلم گینگسٹر کے نغمہ ’’یا علی‘‘ سے شہرت پانے والا یہ فنکار اپنی ریاست میں پہلے سے مشہور تھا۔
EPAPER
Updated: September 27, 2025, 1:51 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
زوبین گرگ کی موت نے پورے ہندوستان کو ایک ایسے فنکار کے تئیں اچانک بیدار کردیا جس کی گوناگوں خصوصیات سے کم ہی لوگ واقف تھے۔ فلم گینگسٹر کے نغمہ ’’یا علی‘‘ سے شہرت پانے والا یہ فنکار اپنی ریاست میں پہلے سے مشہور تھا۔
کبھی محسوس کیجئے کہ موجودہ دور خبروں کے سیلاب کا دور ہے، ایسا سیلاب کہ جس کا پانی اُترتا ہی نہیں ہے، چاروں طرف خبریں ہی خبریں ہیں مگر اِسی دور میں خبروں کا قحط بھی ہے۔ یہ شاید پہلے بھی تھا مگر تب بے خبری کا جواز تھا، اب نہیں ہے۔ مجھے اس صورت حال کا بڑی شدت سے احساس تب ہوا جب آسام کے گلوکار زوبین گرگ کی سنگاپور میں موت ہوئی۔ ذہن میں سوال آیا کون زوبین گرگ؟
کسی نے بتایا کہ یہ وہی گلوکار ہے جس کا ایک نغمہ ’’یا علی‘‘ غیر معمولی طور پر کامیاب ہوا تھا۔ مَیں اس نغمے سے ناواقف نہیں تھا۔ اب سے کئی سال پہلے اس کی چوطرفہ گونج تھی اور اب بھی کنسرٹس میں سامعین فرمائش کرکے اسے سنتے ہیں ۔ مجھے اس کی جواں مرگی پر افسوس ہوا مگر تب بھی زوبین کی اُس مقبولیت کا، جو عوامی جنون میں تبدیل ہوگئی، اندازہ نہیں ہوپایا تھا۔ تب ہی آسام اور شمال مشرقی ہند کی دیگر ریاستوں سے ملنے والی خبروں نے ہوش اُڑا دیئے۔ جس دن سنگاپور سے زوبین کی غرقابی کی اطلاع ملی تھی، اُس دن محض چند گھنٹوں میں آسام میں اُس کی رہائش گاہ کے قریب سیکڑوں کیا ہزاروں افراد جمع ہوگئے تھے۔ وہ دل گرفتہ تھے۔ اُنہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہوا ہے۔ مزید چند گھنٹے گزرے اور جب اُس کے مداحوں کو یقین ہوگیا کہ جو سنا وہی صحیح تھا تو اُن کی دل گرفتگی کئی گنا بڑھ گئی۔ پورے آسام میں جگہ جگہ لوگوں نے اظہارِ غم کا ہر وہ ذریعہ اپنایا جو اُنہیں سجھائی دیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اس دوران آسام سے جو تصویریں موصول ہورہی تھیں اُن میں سے ہر تصویر زوبین کی بے پناہ مقبولیت کا ثبوت تھی۔ معلوم ہوا کہ اُس کے مداحوں کے لبوں پر آسامی زبان کا وہ نغمہ ہے جس کے بارے میں زوبین نے کہہ رکھا تھا کہ جب اُس کا آخری و قت آجائے تو سب کی زبانوں پر وہی نغمہ رہے۔ اس کی ابتدائی سطور کا مفہوم کچھ اس طرح ہے: ’’اِس جادوئی رات میں ، مَیں نے تم سب کو دیکھا ہے، خاموشی سے تم نے، اپنا دل مجھے دے دیا ہے!‘‘
یہ نغمہ ’’مایابِنی‘‘ کے نام سے مشہور ہے یعنی ایسا محبوب جو جادوئی ہے، پُراسرار ہے اور مسحور کن ہے۔ زوبین کے مداح تسلسل کے ساتھ یہ گیت گاتے رہے اور اپنے چہیتے گلوکار کو خراج عقیدت پیش کرتے رہے۔ جیسے جیسے خبریں ، تصویریں ، ویڈیوز اور تعزیتی پیغامات نظر سے گزرتے گئے، بے خبری دور ہوتی گئی اور اب جبکہ یہ مضمون لکھا جارہا ہے، کسی حد تک مجھ پر واضح ہوچکا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں زوبین کی محبت، دیوانگی کی سطح پر کیوں پہنچی ہوئی تھی۔
زوبین عام آوازوں سے مختلف آواز کا حامل، موسیقی میں رچے بسے ذہن کا حامل اور کسی بھی زبان میں گا لینے کا ملکہ رکھنے والا گلوکار ہی نہیں تھا، وہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ مثال کے طور پر اُس میں اگر وقت کو ٹھہرا دینے کی صلاحیت نہیں تھی تو وقت کو آہستہ روی پر مجبور کرنے کی قوت تھی۔ تبھی تو اُس نے چالیس زبانوں میں اڑتیس ہزار گیت ریکارڈ کروائے۔ تبھی تو اُس نے کئی زبانوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ تبھی تو اُسے ڈھول، دوتارا، ڈرم، گٹار، ہارمونیم اور طبلہ سمیت بارہ آلاتِ موسیقی پر قدرت تھی، تبھی تو اُس نے خود کو گلوکاری تک محدود نہ رکھتے ہوئے فلمسازی اور ہدایتکاری بھی کی، تبھی تو اُس نے فلاحی کاموں کیلئے بھی وقت نکالا اور تبھی تو اُس نے آسامی لوک گیتوں کی دھنوں کو جدید دھنوں سے ہم آہنگ کرنے اور آسامیوں کے دل فتح کرنے میں کامیابی حاصل کی۔کتنے لوگ ہیں جو اِتنے کام کرپاتے ہیں ؟ ایک کے بعد ایک البم جاری کرکے اُس نے اپنی بادشاہت کو مستحکم کیا اور اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں آسام کے لوگوں نے اُسے ثقافتی علامت کے طور پر تسلیم کرلیا۔ زوبین، زوبین نہیں تھا، ایک جنون تھا، صرف موسیقی اور گائیکی کے سبب نہیں بلکہ زمین سے جڑے رہنے کے سبب، عوام سے مضبوط تعلق کے سبب، مستحقین کی مدد کیلئے پیش پیش رہنے کے سبب، آسامیوں میں آسامی ہونے کا احساس جگانے اور جذبۂ افتخار پیدا کرنے کے سبب، جہاں کہیں بھی ہو خود کو آسام کے نمائندہ کی حیثیت سے پیش کرنے کے سبب، شمال مشرقی ہند کی اہمیت کو منوانے کی کوشش کے سبب اور خود کو ستارہ (سلیبریٹی) نہ سمجھ کر عوام کا حصہ باور کرانے کے سبب۔
یہ اور ایسی کئی خوبیوں کے باوجود اس نے اپنے فنکار ہونے، کامیاب فنکار ہونے اور آسام میں ہر گیت کیلئے سب سے زیادہ معاوِضہ پانے والا فنکار قرار دیئے جانے پر کبھی تکبر نہیں کیا۔اُسے ایک عام آدمی بھی فون کرسکتا تھا اور وہ اُس کے فون کا جواب دیتا تھا۔
یہ بھی پڑھ’ئے : بہار میں سرکاری مراعات کی جھڑی
اتنا سب جاننے کے باوجود مجھے مزید جاننے کی جستجو رہی، مَیں نے کئی تعزیتی پیغامات اور تعزیتی مضامین کا مطالعہ کیا اور محسوس کیا کہ خبروں کی چوطرفہ یورش کے اس دور میں ایک مَیں ہی نہیں تھا جو زوبین گرگ سے کماحقہ واقف نہیں تھا۔ مشہور جریدہ انڈیا ٹوڈے میں ٹیاسا بھووَئی نے اعتراف کیا کہ اُنہیں زوبین کیا ہے یہ اُس کے انتقال کے بعد ہی معلوم ہوا۔ ملک کے مقبول صحافی رویش کمار نے بھی اپنے شو میں اعتراف کیا کہ وہ زوبین سے تب ہی واقف ہوئے جب اُن کے چینل کے ناظرین نے زوبین پر شو کرنے کی فرمائش کی جسے پورا کرنے کیلئے اُنہیں تحقیق کرنی پڑی۔
رویش ہی نے بتایا کہ بالی ووڈ میں کامیابی کے باوجود ممبئی کو خیرباد کہنے والے زوبین سے جب پوچھا گیا کہ ممبئی کیوں چھوڑ دی تو اُس کا جواب تھا کہ وہاں ایٹی ٹیوڈ بہت ہے۔ زوبین کے جانے کے بعد اب شاید ہی کوئی بتا سکے کہ اُس نے یہ تاثر کیوں قائم کیا تھا۔
انتقال کے وقت زوبین گرگ کی عمر صرف ۵۲؍ سال تھی۔ اگر اُس نے اپنے کریئر کا آغاز بیس سال میں کیا تھا تب بھی صرف بتیس سال میں وہ پورے آسام کا دل جیت چکا تھا۔ لوگ اُسے یاد کررہے ہیں کووڈ کے دور میں اپنی دو منزلہ عمارت کو کووڈ سینٹر بنا دینے کی انسان دوستی کیلئے، فلاحی کاموں کیلئے فٹ بال میچ منعقد کروانے کے جذبۂ خیر کیلئے، کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اپنی بات کہنے کی جرأت کیلئے، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے بلکہ اس کی قیادت کرنے کیلئے، کلا گرو آرٹسٹ اسوسی ایشن قائم کرکے آسام کے سیلاب زدگان کی راحت رسانی کیلئے اور سب سے بڑھ کر شمال مشرقی ریاستوں کی ثقافتی نمائندگی کیلئے۔