• Fri, 24 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکی رکن پارلیمان اور صحافی مہدی حسن کے مابین اذان پر تلخ مباحثہ

Updated: October 23, 2025, 9:01 PM IST | Washington

امریکی رکن پارلیمان برانڈن گِل اور برطانوی نژاد مشہور امریکی صحافی مہدی حسن کے مابین اذان پر تلخ مباحثہ ہوا ،امریکی رکن پارلیمان نے مہدی حسن سے کہا کہ اگر انہیں مسلم ملک میں رہنا ہے تو برطانیہ چلے جائیں ، جس کے جواب میں مہدی حسن نے کہا کہ امریکہ کو مسلمانوں نے بنایاہے، امریکہ میں جتنی مذہبی آزادی عیسائیوں کو حاصل ہے مسلمان بھی اتنی ہی آزادی کے حقدار ہیں۔

Brandon Gill (left) and British-American journalist Mehdi Hassan (right). Photo: INN
برانڈن گِل( بائیں) اور برطانوی نژاد امریکی صحافی مہدی حسن (دائیں) ۔ تصویر: آئی این این

امریکی رکن پارلیمان برانڈن گِل اور برطانوی نژاد امریکی صحافی مہدی حسن کے درمیان تلخ مباحثے  نے امریکہ میں ثقافتی رواداری اور اسلامو فوبیا پر وسیع پیمانے پر بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ بحث اس وقت چھڑی جب حسن نے’’ اذان‘‘ کا دفاع کرتے ہوئے کہا، "اگر آپ کے گرجے میں گھنٹیاں بج سکتی ہیں، تو ہم اپنی نماز کے لیےاذان بھی دے سکتے ہیں۔‘‘ یہ تصادم اس وقت شروع ہوا جبزی ٹواو کے ایڈیٹر ان چیف اور سی ای او اور الجزیرہ کے سابق صحافی مہدی حسن نے زور دے کر کہا کہ امریکہ میں مسلمان بھی کسی سے کم امریکی نہیں ہیں اور وہ عیسائیوں کی طرح مذہبی آزادی کے مستحق ہیں۔ ان کے بیان پر جلد ہی ریپبلکن کانگریس مین برانڈن گِل نے تنقید کی اور حسن پر امریکی عوامی زندگی کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا۔حسن نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے گِل کی اہلیہ کے ہندوستانی نژاد امریکی ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کہا، ’’آپ کی اہلیہ ایک ہندوستانی نژاد امریکی ہیں، ایک قدامت پسند ہندوستانی مہاجر کی بیٹی ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: نیویارک شہر میئر الیکشن: ممدانی، کوومو اور سلیوا میں حتمی مباحثہ، ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا

یہ تبصرہ گِل کے تارکین وطن کے تعلق سے ان کے نظریے سے یکسر مختلف تھا۔جواباً گِل نے برافروختہ ہو کر کہا کہ ان کی اہلیہ ایک عیسائی ہیں جو حسن کی جابرانہ ’’ اذان‘‘ نہیں سننا چاہتیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا، ’’اگر آپ کسی مسلمان ملک میں رہنا چاہتے ہیں، تو برطانیہ واپس چلے جائیں۔‘‘واضح رہے کہ برانڈن گِل ٹیکساس کے۲۶؍ویں کانگریس ڈسٹرکٹ کی نمائندگی کرتے ہیں اور کانگریس کے سب سے کم عمر ریپبلکن رکن ہیں۔حسن اور گِل کے درمیان لفظوں کا یہ تبادلہ جلد ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔جس پر صارفین نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔ ایک صارف نے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر لکھا، گرجا گھروں کی گھنٹیوں اور مسلمانوں کی اذان ،دونوں ہی جب نجی مذہبی ادارے باہر استعمال کریں تو امریکی آئین کے پہلی ترمیم کے تحت مذہبی اظہار کی آزادی کے تحفظ میں آتے ہیں، بشرطیکہ وہ حکومتی سرپرستی میں نہ ہوں۔ ان پر شور کے قوانین نافذ ہو سکتے ہیں لیکن مذہبی اظہار کو نشانہ بنا کر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔‘‘ایک اور نے لکھا، "عجیب قسم کا عیسائی ہے وہ، جو رواداری اور ہمدردی نہیں دکھاتا؟ بہت غیر مسیحائی سلوک ہے۔کسی نے کہا، اذان جو کہ دعا ہے جابرانہ کیسے ہو سکتی ہے، سوائے اس کے کہ آپ متعصب ہوں؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا مغربی کنارے کے انضمام سے متعلق اقدام امن معاہدےکیلئے خطرہ: مارکوروبیو

واضح رہے کہ یہ گِل کا پہلا متنازع بیان نہیں تھا۔گل نے اس سےقبل ہند نژاد ڈیموکریٹ ظہران ممدانی کو، جو نیویارک کے میئر کے امیدوار ہیں، نشانہ بناتے ہوئے ممدانی کے ہاتھ سے کھانا کھانے کی ایک ویڈیو کا مذاق اڑایا تھا۔ گِل نے لکھا تھا، ’’امریکہ میں مہذب لوگ اس طرح نہیں کھاتے۔ اگر آپ مغربی روایات اپنانے سے انکار کرتے ہیں، تو تیسری دنیا میں واپس چلے جائیں۔‘‘کچھ ناقدین نے گل کی ہند نژاد بیوی ڈ ینیئل ڈی سوزا گِل کی جانب اشارہ کیا،قدامت پسند ڈینیش ڈی سوزا کی بیٹی ہیں، اس تنازع میں خود کو گھرتا دیکھ، ڈینیئل ڈی سوزا گِل نے خود کو ہندوستانی روایات سے الگ تھلگ ظاہر کرتے ہوئے کہا، میں ہاتھ سے کھانا کھا کر نہیں پلی بڑھی ہوں اور میں نے ہمیشہ کانٹا استعمال کیا ہے۔ میں ایک عیسائی ماگا محب وطن ہوں۔ ہندوستان میں میرے والد کے اہل خانہ بھی عیسائی ہیں اور وہ بھی کانٹااور چمچہ استعمال کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK