’’’مہاراشٹر اسپیشل پبلک سیکوریٹی بل‘‘ کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ قانون کیوں بنایا گیا۔ ’’اربن نکسل‘‘ کو اکثر موضوع بنایا جاتا ہے جبکہ واضح نہیں ہے کہ اس کا معنی کیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 17, 2025, 2:24 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
’’’مہاراشٹر اسپیشل پبلک سیکوریٹی بل‘‘ کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ قانون کیوں بنایا گیا۔ ’’اربن نکسل‘‘ کو اکثر موضوع بنایا جاتا ہے جبکہ واضح نہیں ہے کہ اس کا معنی کیا ہے۔
دو روز قبل ہم نے یوم آزادی منایا۔ ممکن ہے بہت سوں کے ذہن میں یہ بات آئی ہو کہ آزادی کا مفہوم کیا ہے؟ میرے خیال میں آزادی کا معنی ہے کسی غیر ملکی حکومت یا ظالمانہ قوانین سے نجات آزادی کہلائے گی خواہ آخر الذکر یعنی ظالمانہ قوانین کوئی نافذ کرے (غیر ملکی حکومت یا اپنی ہی حکومت)۔
فی الحال ایک مسودۂ قانون مہاراشٹر کے گورنر شری سی پی رادھا کرشنن کے زیر غو ر ہےجسے حکومت ِ مہاراشٹر نے منظور کیا ہے اور جس کا نام ہے ’’مہاراشٹر اسپیشل پبلک سیکوریٹی بل‘‘۔ مَیں نے ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے گورنر موصوف کو خط لکھ کر التجا کی ہے کہ وہ اس مسودۂ قانون پر دستخط نہ کریں جو اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کیلئے بنایا گیا ہے جنہیں ’’اربن نکسل‘‘ نام دیا گیا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ مجوزہ قانون، قانون بن جانے اور نافذ ہوجانے کے بعد اُن حقوق انسانی کیلئے خطرہ پیدا کرسکتا ہے جنہیں آئین نے تسلیم کیا اور بین الاقوامی میں بھی مانا گیا ہے۔جہاں تک نکسل یا نکسل ازم کا تعلق ہے، کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ دہائیوں پرانا ہے، دیہی علاقوں سے متعلق ہے اور اس کا تعلق کمیونسٹ موومنٹ سے ہے۔ اس کی مدد سے جو نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے وہ ’’اربن نکسل‘‘ ہے جس سے وہ مبینہ ’’حمایت‘‘ مراد لی گئی ہے جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ دانشورو ں ، پروفیسروں اور دیگر کی جانب سے اسے حاصل ہے مگر یہ بات نہیں بھلائی جاسکتی کہ ہندوستانی قوانین میں ’’اربن نکسل ازم‘‘ کی کوئی قانونی تعریف نہیں ہے۔ اصطلاح کی مبہم زبان، اس کا امتیازی اطلاق، عدالتی عمل سے عدم توثیق اور اس کے غلط استعمال کے خدشات کےسبب اندیشہ ہے کہ یہ بل قانون بنا تو وہ لوگ جو قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے احتجاج یا کسی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں اُنہیں مشکلات میں ڈالا جاسکتاہے۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے وضاحت کی ہے کہ اس قانون کے ذریعہ حکومت کے ناقدین کی آواز دَبانے کی کوشش نہیں کی جائیگی مگر جب اس اصطلاح کی کوئی قانونی تعریف نہیں ہے یعنی کوئی بھی قانون اربن نکسل کی بات نہیں کرتا تو پھر یہ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اربن نکسل محض لفاظی اور سیاسی ہتھیار ہے جسے میڈیا اور سیاسی بیان بازیوں کے ذریعہ تشہیر دی گئی۔ چونکہ اس میں ابہام ہے یعنی کوئی تعریف متعین نہیں ہے اس لئے بہت آسانی سے اس کو سول سوسائٹی کے خلاف استعمال کرلیا جاتا ہے لہٰذا کبھی تو پُرامن تنقید یا احتجاج کو ملک دشمنی اور کبھی دہشت گردی نام دے دیا جاتا ہے۔ ماضی میں ایسا ہوا ہے۔ بھیما کوریگاؤں کیس کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کیس میں ۱۶؍ سماجی رضاکاروں کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح اربن نکسل کے لیبل کو استعمال کرکے رضاکاروں کو گرفتار کیا گیا اور مقدمہ چلائے بغیر کئی سال جیل میں رکھا گیا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ گرفتار کئے گئے رضاکاروں یعنی ملزمین میں سے کسی کو بھی تشدد سے نہیں جوڑا گیا۔ اُن کے خلاف جو کچھ پیش کیا گیا اس کا تعلق ناقدانہ اظہار خیال ، حاشئے پر رہنے والی آبادی کے حق میں آواز اُٹھانے اور شہری حقوق کے دفاع سے ہے۔ اس معاملے کی ابتداء ۲۰۱۸ء میں دیویندر فرنویس کے اقتدار کے پہلے دور میں ہوئی تھی۔ سات سال گزر چکے ہیں مگر مقدمہ کی سماعت اب تک شروع نہیں ہوئی، ان میں سے ۶؍ ملزمین کو اب تک ضمانت نہیں ملی ہےاور ایک ملزم اسٹین سوامی کی قید وبند کے دوران موت واقع ہوچکی ہے۔اربن نکسل کی اصطلاح نے بلاتشدد جاری رہنے والی سیاسی مخالفت اور پُرتشدد شدت پسندی کے درمیان جو لکیر تھی اُسےخطرناک طریقے سے دھندلا کردیا ہے۔
اس مسودۂ قانون میں اور بھی دقتیں ہیں ۔ مثلاً امتیازی سلوک۔ اس کے ابتدائی پیراگراف میں ’’بائیں بازو اور اُن جیسی دیگر تنظیموں کی انتہاپسندی‘‘ کو مرکز توجہ بنایا گیا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ زیر بحث مجوزہ قانون کے ذریعہ سیاسی اختلاف رائے اور مخالف نظریات کو ہدف بنایا جائیگا جبکہ بین الاقوامی قوانین (مثلاً انٹرنیشنل کوویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس سے متعلق قانون) میں بھی اس کی اجازت ہے۔ اس انٹرنیشنل کوویننٹ پر ہندوستان نے بھی دستخط کئے ہیں ۔ اب اگر تشدد کے کسی واقعہ کے بغیر بھی کسی تنظیم سے وابستگی کی سزا دینے کا اہتمام ہو تو یہ ہندوستانی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ہمارے قوانین میں ’’غیر قانونی سرگرمی‘‘ اُسے کہا جائیگا جس کا ’’عوامی نظم و نسق کیلئے مسئلہ بننے‘‘ اور ’’نفاذ قانون کیلئے خطرہ بننے‘‘ سے تعلق ہو مگر اس قانون کے نفاذ کے بعد ممکن ہے پُرامن احتجاج اور سول نافرمانی کو بھی نہ بخشا جائے جبکہ یہ دونوں چیزیں ہماری تحریک آزادی کی جان تھیں ۔
یہ بھی پڑھئے : نامہ تو لکھ دیا ہے مگر نامہ بَر کہاں
زیر بحث مجوزہ قانون کے سیکشن ۳؍ کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوجائیگا کہ وہ غیر جانبدار عدالتی توثیق (ریویو)کے بغیر کسی بھی تنظیم کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دے سکتی ہے ۔ جس مشاورتی بورڈ کو نظر ثانی (ریویو) کی ذمہ داری دی گئی ہے اس کے اراکین میں وہی لوگ ہونگے جنہیں حکومت مقرر کریگی ۔ ایسی صورت میں اس بورڈ کی حیثیت کنگارو کورٹ کی ہوگی۔مجوزۂ قانون میں اور بھی سیکشن ہیں جن کے تحت کسی افسر کے ’’خیال‘‘ یا ’’ذاتی معلومات‘‘ کی بناء پر تلاشی لی جاسکتی ہے یا بعض چیزیں ضبط کی جاسکتی ہیں اور اس عمل کو بھی کوئی عدالتی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس سے من مانے طریقے سے تلاشی لینے یا اشیاء کو ضبط کرنے کی چھو‘ٹ مل سکتی ہے اور کسی فرد کی خلوت، املاک اور مکان وغیرہ میں مداخلت ہوسکتی ہے۔
مجوزہ قانون کا سیکشن ۱۴؍ اپیل سے محروم کرنے کیلئے کافی ہے جبکہ سیکشن ۱۷؍ سرکاری افسران کو مکمل آزادی عطا کرتا ہے خواہ اُنہوں نے زور زبردستی ہی کیوں نہ کی ہو۔ یہ ایسی دفعات ہیں جن میں جوابدہی کا فقدان ہے۔ ویسےسامراجی انداز کی زیادتی، جس کے تحت لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا جائے، فیشن بن چکی ہے اور اس قانون میں بھی موجود ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس قانون کی ضرورت کیوں ہوئی جبکہ یو اے پی اے، مکوکا اور بھارتیہ نیایہ سنہتا جیسے قوانین کا دائرہ بھی وہی ہے جو نئے قانون کا ہے۔