Inquilab Logo Happiest Places to Work

نامہ تو لکھ دیا ہے مگر نامہ بَر کہاں!

Updated: August 16, 2025, 1:53 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

رفتگاں کے نام یہ دوسرا خط ہے۔ پہلا خط گزشتہ ہفتے لکھا گیا جو اس کالم میں شائع کیا گیا تھا۔ یہ پچھلے خط ہی کا تسلسل ہے۔اب سے پہلے خاندان کا کوئی شخص برسوں بعد گاؤں سے آتا تھا تو اُس سے کافی تفصیل سننے کو ملتی تھی اُسی طرح رفتگاں مل جائیں تو اُنہیں یہی باتیں بتائی جائینگی جو اس خط میں درج ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

رفتگانِ محترم، پچھلے ہفتے کا خط آپ کو نہیں ملا ہوگا۔ نہیں  ملے گا یہ طے تھا کیونکہ آپ کا پتہ ندارد ہے۔ اتنا علم تو ہے کہ آپ خدا کی رحمت کے سائے میں  آرام کررہے ہیں  مگر وہ سایہ کہاں  ہے اور وہاں  ڈاک کی تقسیم کا نظم ہے یا نہیں ، یہ معمہ  ہے جو آج تک کسی سےحل نہیں  ہوا۔اسی لئے رفتگاں  کو کبھی کسی نے خط نہیں  لکھا اور اچھا ہی ہوا کہ ایسی کوئی روایت قائم نہیں  ہوئی ورنہ کسی بھی صورت باقی نہ رہتی۔ موجودہ زمانے نے رفتگاں  کو یاد کرنے کی رسم اُٹھا دی ہے۔ اب اس کی زحمت کوئی نہیں  کرتا، اس کیلئے فرصت بھی کسی کے پاس نہیں  ہے۔ آپ سوچتے ہوں  گے کہ لوگ اپنے مرحومین کیلئے دُعا تو ضرور کرتے ہونگے۔ ممکن ہے کرتے ہوں  مگر وہ جو جذباتی تعلق آپ حضرات کو اپنے بزرگوں  سے تھا، بات بات پر آپ جو اُن کی نصیحتوں  اور مشوروں  کا ذکر کرتے تھے، اُن کے احسانات گناتے تھے، اُن کی خوبیوں  کے تذکرہ میں  رطب اللساں  رہتے تھے، اُن کی شخصیتوں  کے گوناگوں  پہلوؤں  کا احاطہ کرنے اور انہیں  آئندہ نسلوں  تک پہنچانے کیلئے کتابیں  بھی لکھ دیتے تھے، ان میں  سے بیشتر چیزیں  آپ ہی کے ساتھ رخصت ہوگئی ہیں ۔
  رفتگانِ محترم، نئے دور کا ایک لفظ ہے جو اِدھر کچھ عرصہ سے زبان زد ہے۔ سوشل میڈیا انفلوئنسر۔ آپ کے دور میں  سوشل میڈیا تو نہیں  تھا مگر انفلوئنسر تھے، بھلے ہی اُنہیں  اس نام سے یاد نہ کیا جاتا رہا ہو۔ وہ کوئی اور نہیں  آپ کے بزرگ ہی تھے۔ آپ اُنہی سے سیکھتے تھے مگر اب کی نئی نسل اپنے بزرگوں  سے نہیں  سیکھتی، سوشل میڈیا انفلوئنسر سے سیکھتی ہے، اُنہی سے ترغیب لیتی ہے۔ اُف، مجھے محسوس ہورہا ہے کہ آپ یہی نہیں  سمجھ پائے کہ انفلوئنسر کون ہیں  ۔ لیجئے آپ کی آگاہی کیلئے عرض کئے دیتا ہوں  کہ یہ افراد دلچسپ مواد مثلاً تصاویر، ویڈیوز، ریلس اور اَپ ڈیٹس کے ذریعے سوشل میڈیا کے صارفین میں  شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں  تک پہنچتے ہیں ۔ آپ اُن میں  سے چند کے نام جاننا چاہتے ہیں ؟ استغفر اللہ، آپ نے تو بڑی مشکل میں  ڈال دیا۔ یہ مضمون نگار خود نہیں  جانتا کہ اس فہرست میں  کس کس کا نام ہے۔ اس لئے معذرت۔ اس خط کے ساتھ چند سرفہرست ملکی اور غیر ملکی انفلوئنسرس کے نام منسلک کردیئے جائیں  تب بھی کیا فرق پڑ جائیگا؟ آپ کہاں   اُنہیں  جانتے ہیں ۔ یہ سب نئے دور کے لوگ ہیں  جو اِس  دور پر حاوی ہیں ۔ اِس دور کی بے شمار خصوصیات میں  سے ایک یہ ہے کہ گھر اور معاشرہ کے بزرگوں  کی کوئی نہیں  سنتا مگر انفلوئنسرس کی ضرور سنی جاتی ہے۔ نئی نسل کے ذہن و دل پر اثرانداز ہونے کا اُن کا اسٹائل ہی الگ ہے۔ اسی لئے خدشہ ہے کہ وطن عزیز کے وہ حقیقی انفلوئنسرس جن کا ہندوستانی سماج اور معاشرہ پر غیر معمولی احسان ہے، اُن کے جاننے والے آئندہ وقتوں  میں  تو بالکل نہیں  رہ جائینگے، تب کیا ہوگا؟یہ باتیں  آپ کو فکرمند کرنے کیلئے نہیں  لکھی جارہی ہیں ، یہ تو برسبیل تذکرہ آگئی ہیں ۔ مکتوب نگار کا مقصد آپ کو پریشان کرنا نہیں  ہے۔ یہ تو خود کو بھی سمجھاتا رہتا ہے کہ اے دلِ زار مانا کہ پریشانی کی بات ہے مگر پریشان نہ ہو، جنہیں  ہونا چاہئے وہ نہیں  ہیں  تو تو‘ کیوں  اُن کیلئے اپنی جان ہلکان کرتا ہے، وہ تو سو شل میڈیا انفلوئنسرس سے بہل رہے ہیں ، اُن سے متاثر ہورہے ہیں ، اُن کی سی کررہے ہیں ! یقین جانئے ان کا اثر اتنا زیادہ ہے کہ نئی نسل کے جو لوگ اُردو یا دیگر ہندوستانی زبانیں  نہیں  سیکھتے، اُن میں  غیر ملکی زبان سیکھنے کی خواہش انگڑائی لے رہی ہے۔ داد دیجئے کیا عمدہ ذوق پروان چڑھ رہا ہے اور یہ سب سوشل میڈیا کی وجہ سے ہے۔
 رفتگان محترم، آپ کو بتانے لائق اتنی باتیں  ہیں  کہ ایسے پچاس خط یا اس سے بھی زیادہ لکھے جاسکتے ہیں  آپ کے نام۔ بھلے ہی آپ تک نہ پہنچیں  مگر یہ خطوط لکھنے کا کم سے کم یہ فائدہ تو مکتوب نگار کی سمجھ میں  آگیا کہ ان سے جی ذرا ہلکا ہوجاتا ہے۔
 رفتگانِ محترم، آپ جن زمانوں  میں  دُنیا میں  رہے اُن میں  دُنیا دُنیا تھی، بازار نہیں  بنی تھی۔ اب پوری دُنیا بازار ہے ۔ آپ حضرات خواہش ِ زر کو زیر کردیا کرتے تھے، اب خواہش ِ زر ، زبر اور آدمی زیر ہے۔ امیر ترین لوگوں  کی فہرست بڑی شان سے شائع کی جاتی ہے اور اُس پر بحثیں  ہوتی ہیں ۔ کوئی ملک یہ نہیں  سوچتا کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں  جن میں  ہر طرف خوشحالی کا دَور دورہ ہو اور اخبارات کو غریب ترین لوگوں  کی فہرست دینی پڑے۔ جو امیر ترین ہوتے ہیں  وہی بازار کا رُخ طے کرتے ہیں ، منافع متعین کرتے ہیں  اور وسائل پر قابض ہونے کی نت نئی تدابیر اختیار کرتے ہیں ۔ اہل اقتدار بھی ان کے تابع ہیں ۔ کبھی سنا تھا آپ نے ایسا؟ منافع کی خواہش بازار کا مرتبہ بڑھاتی ہے۔ اب ایک ایک مال، اسٹور اور دکان لدی پھندی رہتی ہے۔ مصنوعات ہی مصنوعات، اشیاء ہی اشیاء۔ طلب اور رسد کبھی ایک دوسرےکیلئے آزمائش نہیں  بنتے بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں  کیونکہ گاہک بازار کا حکم بجا لانے کیلئے پُرجوش رہتا ہے۔ جس کی طاقت نہیں  وہ بھی اُن اشیاء کی خرید کرتا ہے جن کی جانب اُسے تاکنا بھی نہیں  چاہئے۔ رفتگانِ محترم، آپ کہتے تھے ضرورت ایجاد کی ماں  ہے۔ اب ضرورت کو کانوں  کان خبر نہیں  ہوتی اور ایجاد ہوجاتی ہے، پھر ضرورت پیدا کرنے کیلئے پہلے ماحول اور پھر مارکیٹ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں  ایجاد کو پَر لگ جاتے ہیں ۔ کہا تو اب بھی یہی جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں  ہے مگر عملاًمعاملہ مختلف ہے۔  ایجاد ضرورت کی ماں  بن گئی ہے۔
 

یہ بھی پڑھئے : بہار میں راشٹریہ جنتا دل تنظیمی تشکیل ِنو کا پیغام

رفتگانِ محترم، سڑکوں  پر موٹر گاڑیاں  اتنی ہوگئی ہیں  کہ خدا کی پناہ۔ راستہ ہے ہی نہیں  اس لئے چلنا دوبھر ہے۔ اتنے فلائی اووَر بن گئے ہیں  کہ شہر پہچانا نہیں  جاتا۔ بالفرض محال آپ تشریف لے آئے تو ٹریفک دیکھ کر وحشت طاری ہوجائیگی۔ اور یقین جانئے اتنے ہوٹل کھل گئے ہیں  کہ آپ گھروں  کے باورچی خانوں  کی بابت پوچھنے لگیں  گے؟ جب معلوم ہوگا کہ وہ اپنی جگہ موجود ہیں  تو آپ سوچیں  گے کیا اس دور کا انسان اس قدر بسیار خور ہے؟ پتہ نہیں  بسیار خور ہے یا نہیں  مگر آپ حضرات فاقہ اور کبھی کبھی لگاتار فاقے کرتے تھے، اب کوئی نہیں  کرتا اسلئے کسی کو علم نہیں  کہ فاقہ مستی کیا ہوتی ہے۔ دیکھئے، اس خط میں  بھی بہت کچھ قلمبند ہونے سے رہ گیا۔ اس لئے بقیہ باتیں  پھر کبھی۔ گاہے بگاہے ہی سہی، سلسلۂ کلام جاری رہے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK