بنارس ہندو یونیورسٹی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پونے یونیورسٹی، دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء وغیرہ اداروں میں غیر ملکی طلباء کی بڑی تعداد آج بھی موجود ہے۔
EPAPER
Updated: September 26, 2025, 1:19 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
بنارس ہندو یونیورسٹی، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پونے یونیورسٹی، دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء وغیرہ اداروں میں غیر ملکی طلباء کی بڑی تعداد آج بھی موجود ہے۔
قدیم ترین زمانے سے ہندوستان یا بھارت علم کا گہوارہ رہا ہے۔ دور دراز کے ملکوں کے طلبہ بھی یہاں حصول علم کے لئے آتے تھے۔ نالندہ جیسے اداروں کا ذکر آتا ہے تو فخر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے تعلیمی ادارے تھے جہاں دور دراز کے طلبہ داخلہ لیتے تھے۔ عرب اور افغانستان سے ابو معشر الفلکی، ابو ریحان البیرونی اور دہلی کے شہنشاہ شاہ جہاں کے بیٹے دارا شکوہ نے بنارس کا سفر اور وہاں قیام کیا کہ سنسکرت سیکھ سکیں ۔ آزادی کے بعد تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بنارس ہندو یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پونے یونیورسٹی، دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء.... وغیرہ اداروں میں غیر ملکی طلباء کی بڑی تعداد آج بھی موجود ہے۔ ہمارے شہر ممبئی میں ابتدا میں لوگ صنعت و فلمی صنعت میں کام تلاش کرنے، تجارت کرنے، ملازمت تلاش کرنے یا عقیدت کے نام پر چندہ جمع کرنے کیلئے آئے۔ یہ بھی مشہور ہے کہ دنیا بھرکے بھگوڑوں کو ممبئی نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ یہاں کی بھیڑ میں چھپنے کیلئے مجرمین بھی آئے۔ نیا شہر بسا، نئی تہذیب سامنے آئی تو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء میں ممبئی یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس یونیورسٹی میں غیر ملکی اور ہندوستان کی دوسری ریاستوں اور شہروں کے طلبہ نے بھی داخلہ لیا۔ اب یہ خبر آئی ہے کہ ممبئی یونیورسٹی میں گزشتہ پانچ برسوں میں داخلہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں ۱۲۸؍ فیصد اضافہ ہوا ہے (۱۶؍ ستمبر ممبئی کے ٹائمز آف انڈیا میں یوگیتا راؤ کی رپورٹ دیکھی جاسکتی ہے)۔
داخلہ لینے والوں میں سری لنکا، نیپال، جنوبی کوریا اور سنگاپور جیسے ترقی پذیر ملکوں کے طلبہ تو ہیں ہی برطانیہ، کنیڈا، سوئٹزر لینڈ.... جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے طلبہ بھی ہیں ۔ مسلم ملکوں میں بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات، یمن وغیرہ کے طلبہ ہیں ۔ ایک بار پونے کے اعظم کیمپس میں میرا لیکچر تھا جب میں واپس آنے کیلئے اسٹیشن کی طرف چلا تو ایک نوجوان نے بہ اصرار آٹو تک پہنچانے میں مدد کی۔ اس کا تعلق افغانستان سے تھا۔ اصفہاں (ایران) میں ایک بار ایک لڑکی ملی اور اس نے بتایا کہ وہ مجھ سے واقف ہے۔ کیسے؟ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ پونے میں طالبہ ہے اور یہاں کے کسی جلسے میں مجھے سنا ہے۔ سینٹرل ایشیاء کے ملکوں کی بیشتر مساجد کے ائمہ فاضل دیوبند ہیں ۔ مولانا آزاد نے کبھی کہا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب ہندوستان میں حصول علم کیلئے غیر ملکی طلبہ آیا کرینگے۔ آج ہندوستان کے مختلف ٹیکنیکل اداروں میں تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں اچھی تعداد میں غیر ملکی بھی ہیں ۔ آئی سی سی آر اسکالر شپ پر تھائی لینڈ کے دو طالبعلم ممبئی یونیورسٹی میں ہندی (ایم اے) کے طالبعلم ہیں ۔ ان طالبعلموں کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے لوگوں میں ہندی اور انڈین کلچر مضمون میں خاصی دلچسپی پائی جاتی ہے مگر وہاں ہندی پڑھانے والے نہیں ہیں ۔ فجی آئی لینڈ وغیرہ میں بھی ہندی کی مقبولیت کا یہی حال ہے۔ ماریشس میں ایک طبقہ اُردو کا شیدائی ہے مگر وہاں سے کچھ طلبہ کے ہندوستان پاکستان آنے کے علاوہ ان کے ہندی سیکھنے یا اُردو کی طرف راغب ہونے کی کوئی صورت نہیں رہ گئی ہے۔ پڑھائی میں اور کمائی میں سب سے کمزور طبقہ اُردو تعلیم کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ پھر اس طبقے میں مختلف بنیادوں پر گروہ بندی بھی ہے۔ تعلیمی اداروں پر ایسے لوگ بھی قابض ہیں جن کی علمی لیاقت مشکوک ہے۔ علامہ آرزو، نجیب اشرف ندوی، ظہیر الدین صوفی، عبدالرزاق قریشی، قاضی اطہر مبارکپوری، ظ انصاری، کالی داس گپتا رضا، ڈاکٹر صفدر آہ، علی سردار جعفری.... جیسے اہل علم بھی نہیں رہ گئے ہیں جن سے کچھ سیکھا جاسکے۔ ایسے نام نہاد اُردو اساتذہ، صحافی، شاعر، ادیب کی بھرمار ہے جو داؤ پیچ، خوشامد وغیرہ سب جانتے ہیں بس نہیں جانتے تو اُردو اور اس کی تہذیب یا مزاج کو۔ ایسے ایسے لوگ خود کو سینئر صحافی اور بزرگ ادیب کہنے یا کہلوانے لگے ہیں جنہوں نے لفظوں کو جوڑنے کے سوا کچھ کیا ہی نہیں ، ہندی میں البتہ کملیشور، ڈاکٹر دھرم ویر بھارتی اور ان کے توسط سے ’ساریکا‘ اور ’دھرم یگ‘ کا طوطی اب بھی بولتا ہے۔ ہندی بھی ہماری زبان ہے اسلئے جہاں یہ خبر ہمارے لئے خوش کن ہے کہ اس وقت ۶۱؍ ملکوں کے طلباء ہندوستان میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کی زیادہ رغبت بی ایس سی (آئی ٹی)، کمپیوٹر سائنس، بایو ٹیکنالوجی اور بی کام (اکاؤنٹنگ، فنانسیس، فنانشیل مارکیٹس) وغیرہ میں ہے وہیں ہندی میں بھی ہے مگر ہندی نام کے ساتھ اُردو کا تصور بھی ذہن میں ابھرتا ہے جس کی تعلیم، تدریس، تہذیب تباہ کی جا رہی ہے۔ کتنے لوگ تو اُردو کے ادارے، شعبے اور تہذیب کو برائے نام اسلئے زندہ رکھے ہوئے ہیں کہ لوگ ان کا نام لے کر کہیں کہ فلاں صاحب تھے تو اُردو کا بول بالا تھا، وہ نہیں رہے تو فلاں ادارے یا شعبے میں اُردو مر گئی یا اُردو کا فلاں شعبہ یا ادارہ ختم ہوگیا۔ میں ایسے تمام لوگوں کیساتھ ان لوگوں کو بھی اُردو کا دشمن سمجھتا ہوں جو دھونس، حیلے، قوت خرچ یا خوشامد سے اُردو کے پروگرام پر قابض ہوتے یا جاہلوں کو مسلط کرتے ہیں ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی تشہیر کا سامان تو کیا مگر کس قیمت پر؟
یہ بھی پڑھئے: دیر آید درست آید
ابھی حال ہی کی بات ہے کہ کسی نے راستہ روک کر کہا کہ مہاراشٹر اُردو اکیڈمی میں رکنیت کیلئے یا انعام کیلئے ایسے لوگ بھی لابنگ کر رہے ہیں جنہیں اُردو آتی ہی نہیں ۔ پھر انہیں اس بات کا بھی رنج تھا کہ کسی کو اُردو اکیڈمی کا رکن بنانے یا انعام دینے کا فیصلہ ایسے لوگوں کی سفارش یا کمیٹی کے فیصلے کی بنیاد پر ہوتا ہے جنہیں سفارش کرنے یا کمیٹی میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کا اخلاقی حق ہے ہی نہیں اسلئے نااہل بھی رکن بن جاتے ہیں یا اس فہرست میں ان کا نام بھی شامل ہوجاتا ہے جو انعام پانے والوں کی فہرست ہوتی ہے۔ میں نے انہیں یہ کہہ کر خاموش رہنے کی تلقین کی کہ میاں اداروں پر اعتماد کرنا سیکھو۔
میں پہلے کہہ چکا ہوں اور آج بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اچھے کاموں کی توفیق ہوجانا بذات خود اتنا بڑا انعام و اعزاز ہے کہ اس کے بعد کسی انعام و اعزاز کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔ میں اس وقت تقریباً ۲۵؍ کتابوں کا مصنف ہوں اور سمجھتا ہوں کہ رب العالمین نے مجھ سے بڑا کام لیا اور بحمدللہ اب بھی لے رہا ہے۔
بہرحال ممبئی یونیورسٹی میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد بڑھنا یا غیر ملکی طلبہ میں ہندی کا رجحان پیدا ہونا جہاں خوشی کا باعث ہے وہیں اُردو کی زبوں حالی پر رنج بھی ہے۔