• Fri, 03 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

گجرات فسادات کاتذکرہ کرتے ہوئے مظلومیت کی علامت بننے والے قطب الدین انصاری روپڑے

Updated: October 03, 2025, 12:57 PM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai

گاندھی جینتی کے موقع پر ممبئی کے گرانٹ روڈ میںواقع سروودیہ منڈل میںایک خصوصی نشست بعنوان’ شانتی کی کھوج میں‘ کا انعقاد کیاگیا جہاں قطب الدین نے اپنی زندگی کی جدوجہد تفصیل سے بیان کی۔

Qutubuddin Ansari (Memento in hand) and journalist Kaleem Siddiqui (yellow T-shirt) and others. Photo: INN
قطب الدین انصاری ( ہاتھ میں میمنٹو) اور صحافی کلیم صدیقی ( ہرا ٹی شرٹ) اور دیگر۔ تصویر: آئی این این

گاندھی جینتی کے موقع پر ممبئی کے گرانٹ روڈ میںواقع سروودیہ منڈل (گاندھی بُک سینٹر) میںایک خصوصی نشست بعنوان’ شانتی کی کھوج میں‘(امن کی تلاش میں) منعقد کی گئی۔ نشست کی خاص بات یہ تھی کہ گجرات کے مسلم کُش فسادات کے دوران مظلومیت کی علامت بن جانے والے قطب الدین انصاری اور ان کے صحافی دوست کلیم صدیقی کو مہمان خصوصی کے طور پرمدعو کیا گیاتھا۔ گجرات کے مسلم کُش فسادات کا زخم جھیلنے اور بری طرح تباہ وبرباد ہونےکے باوجود قطب الدین انصاری نے حوصلہ نہیں ہارا، وہ جہاںاُس وقت مظلومیت کی علامت تھے وہیں اِ س وقت باعثِ تحریک ہیں۔
 قطب الدین انصاری نے جب گجرات کےمسلم کُش فسادات کے تعلق سے اپنی دردناک داستان بیان کرنی شروع کی تو آبدیدہ ہوگئے ،ان کا گلا خشک ہونے لگا۔ ان کے اندازِ ِ گفتگو سے حاضرین کو ایسا محسوس ہوا جیسے ۲۰۰۲ءکے تباہ کن مناظر قطب الدین کی نگاہوں کے سامنے ہوں۔ وہ اس قدر جذباتی ہوگئے کہ درمیانِ تقریر بیٹھ کرپانی پیاپھر بات چیت کاسلسلہ آگے بڑھایا۔
انہوں نے بتایا کہ گجرات فساد کے بعد کولکاتا میں مغربی بنگال حکومت کی جانب سے انہیں پناہ دی گئی، گھر دیا گیااور بچوں کی تعلیم کا نظم کیا گیا۔ ایک برس وہ وہاں تھے۔ اس وقت ان کی چھوٹی بیٹی ان کی گود میں بیٹھی رہتی تھی،اسی حالت میں صحافی ان سے سوال جواب کرتےتھے ‘‘انہوںنے یہ بھی بتایاکہ ’’وہ سوچتے تھے کہ اس بچی پرکیا بیت رہی ہوگی؟ مغربی بنگال میںقیام کے دوران ان کے ذہن میں بار بار یہ خیال آتا رہا کہ وہ گجرات (احمدآباد ) لوٹ جائیں تاکہ جو کچھ ہواتھا،اسے ان کےبچے بھی دیکھ اور حقیقت جان سکیں۔
اس خیال کے بعد وہ گجرات لوٹ آئےاورنئے سرے سے زندگی شروع کی۔ وہ سلائی کرتے ہیں۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ان کی ملاقات آنند سراف نا م کے ایک شخص سے ہوئی، انہوں نے قطب الدین کو پونے بلالیا۔ جس وقت قطب الدین انصاری سراف کےبارے میں بتارہے تھے، فرطِ جذبات میں ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ وہ سراف کی انسانیت نوازی اورامن پسندی سے یہ بتانا چاہ رہےتھے کہ پورا سماج برا نہیں ہوتا، کچھ لوگ خراب ہوتے ہیں اس لئےپورے معاشرے کو برا گرداننا مناسب نہیں ہے ۔ 
 انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’میری چھوٹی بیٹی بڑی ہوگئی ، اس کی شادی ہوگئی ہے، بیٹی کی شادی میں سراف خود آئے تھے۔اُن کا مجھ سے تعلق کایہ حال ہے کہ وہ آج بھی میری بیوی کو راکھی بھیجتے ہیں۔ یہ کیفیات سن کرحاضرین کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔‘‘ قطب الدین انصاری کے مطابق’’ کیرالا حکومت کی جانب سے بھی انہیں بلایاگیا تھااور اشوک پرمار کےساتھ ان کااستقبال کیا گیا تھا۔‘‘ یہ وہی اشوک پرمار ہیں جو ۲۰۰۲ء کے فساد میںہندتواوادیوں کے بہکاوے کے سبب انتہائی متشددتھے،مگر اب وہ بھی پوری طرح سے بدل چکے ہیں۔ کیرالا حکومت نے پرمار کو جوتے کی دکان کھولنے کے لئے مدد کی تھی اور دکان کے افتتاح کےلئے قطب الدین انصاری کو بلایا تھا۔اخیر میں قطب الدین انصاری نے یہ پیغام دیا کہ’’سماج کا بڑا طبقہ اچھا ہے، امن پسند ہے، محض چند فیصد لوگ خراب ہیں۔ ہمیں تشدد چھوڑ کر امن وشانتی کاراستہ اپناناچاہئے۔‘‘
 صحافی کلیم صدیقی جنہوں نےقطب الدین انصاری کی سوانح حیات لکھی ہے اور اسےکیرالا حکومت نے ملیالم زبان میںشائع کیا ہے، گجرات کےحالات پرتبصرہ کرتے ہوئے خاص طور پر’ اَشانت دھارا ایریا‘نام سے بنائے گئے قانون کا تذکرہ کیا اور کہاکہ ’’یہ قانون لوگوں کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے۔ اسی قانون کے سبب بلڈرلابی کے ہاتھوںبڑی بے دردی سے غریبوں کی بستیاں اجاڑ دی جاتی ہیں۔‘‘ رمیش اوجھا نے اپنےصدارتی خطاب میںکہاکہ’’ ہندوتوا وادی طاقتیں خواہ کتنے ہی دعوے کرلیں یہ ملک ان کے چنگل میں نہیں پھنسنے والا ۔گاندھی کا ہندوستان اوران کی نظریہ و فکر کا ہندوستان محفوظ ہے ۔‘‘ یاد رہے کہ گجرات فساد کے وقت قطب الدین انصاری کی گڑگڑاتی ہوئی تصویر مظلومیت کی ایک علامت بن گئی تھی۔ اس پروگرام میں منصور پٹیل نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ اس نشست کے اہتمام میںٹی آر کے سومیا اورجینت دیوان میں نمایاں رول ادا کیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK