اب راہل گاندھی کے ساتھ دیگر علاقائی جماعتیں بھی کھڑی ہو رہی ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں انتخابی کمیشن کی بد عنوانیوں کیخلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔
EPAPER
Updated: August 21, 2025, 5:32 PM IST | Dr. Mushtaq Ahmed | Mumbai
اب راہل گاندھی کے ساتھ دیگر علاقائی جماعتیں بھی کھڑی ہو رہی ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں انتخابی کمیشن کی بد عنوانیوں کیخلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔
وطن عزیز ہندوستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اس کی پاسداری کے لئے کئی ایسے خود مختار آئینی ادارے قائم کئے گئے ہیں جو ہمیشہ جمہوریت کے استحکام کے لئے عمل پیرا رہے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ حالیہ دہائی میں ان خود مختار آئینی اداروں کے اختیارات کو جس طرح سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان اداروں کے سربراہ بر سراقتدار جماعت کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے اس سے نہ صرف ہماری جمہوریت پر ضرب کاری لگی ہے بلکہ ہر ایک شہری ہراساں اور پریشاں نظر آنے لگا ہے کہ کہیں دنیا کی ایک مثالی جمہوریت کے وجود پر سوالیہ نشان نہ لگ جائے۔ بالخصوص گزشتہ۷؍اگست کو پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے لیڈر وکانگریس قائد راہل گاندھی نے انتخابی کمیشن کے کارناموں کو ثبوت کے ساتھ اجاگر کیا ہے اس کے بعد نہ صرف حالیہ لوک سبھا وکئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر شک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں بلکہ جمہوریت کی سا لمیت کو بھی خطرہ پیدا ہوگیاہے۔
واضح ہو کہ حزب اختلاف کے لیڈر نے انتخابی کمیشن کے ذریعہ تیار شدہ ووٹر لسٹ کے حوالے سے یہ تلخ حقیقت عیاں کی ہے کہ کس طرح انتخابی کمیشن نے مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں چالیس لاکھ سے زائد ووٹوں کا اضافہ کیا اور کرناٹک کے پارلیمانی انتخاب میں ایک اسمبلی حلقہ مہادیو پورہ حلقے میں ایک لاکھ سے زائد فرضی ووٹوں کا اضافہ کیا اور جس کی بنیاد پر وہاں کے نتائج اثر اندازہوئے۔ اسی طرح ہریانہ اسمبلی انتخاب میں بھی بڑے پیمانے پر فرضی ووٹروں کے سہارے ایک خاص سیاسی جماعت کی حمایت کی گئی ۔مہاراشٹر میں بھی کچھ اسی طرح کا غیر جمہوری کھیل ہوا اور پرکاش امبیڈکر نے اس کے خلاف عدالت کا رخ کیا لیکن مہاراشٹرہائی کورٹ نے اسے رد کیا جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ گئے اور وہاں اس کی سماعت ہو رہی ہے۔ظاہر ہے کہ مہاراشٹر میں بھی انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں سامنے آئیں اور ووٹ فیصد میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ۔
بہر کیف! حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے مبینہ طورپر یہ بھی الزام لگایا کہ گزشتہ پارلیمانی انتخاب میں ۲۵؍ سے زائد حلقوں میں انتخابی کمیشن کی جانبدارانہ کوشش سے ہی بر سر اقتدار جماعت کو فائدہ پہنچا۔انہوں نے نقلی وفرضی ووٹروں کے ساتھ ساتھ نقلی وجعلی پتے والے ووٹروں وجعلی تصویر وں والے ووٹروں کی تعداد بھی واضح کی اور یہ بھی انکشاف کیا کہ انتخابی کمیشن نے کس طرح اپنے ڈیٹا میں ہیر پھیر کی۔ اب تک راہل گاندھی کے مبینہ الزامات پر انتخابی کمیشن کا کوئی ٹھوس جواب سامنے نہیں آیا۔
تلخ سچائی تو یہ ہے کہ انتخابی کمیشن اب ایک خود مختار آئینی ادارہ کے طورپر کام نہیں کر رہاہے بلکہ ایک خاص سیاسی جماعت کے حکم کی تعمیل میں سرنگوں ہے اور تمام انصاف پسند وجمہوریت کے پاسداروں کی آواز سننے کو تیار نہیں ہے ۔یہ ایک المیہ ہے اور ایک جمہوری ملک کے لئے سب سے بڑا لمحۂ فکریہ ہے ۔قابلِ ستائش ہماری عدالتِ عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ ہے کہ انہوں نے انتخابی کمیشن کے آمرانہ رویہ پر نکیل کسنے کی کوشش کی ہے اور بہار میں ہو رہے خصوصی ووٹر نظر ثانی مہم کے تحت ۶۵؍ لاکھ سے زائد ووٹروں کے نام کاٹے جانے کی مکمل تفصیل ظاہر کرنے کی ہدایت دی ہے ۔
واضح ہو کہ ان دنوں ریاست بہار میں خصوصی ووٹرنظر ثانی مہم چلائی جا رہی ہے ۔ محض ایک ماہ پہلے اس کا اعلان ہوا اور ریاست کے تقریباً آٹھ کروڑ ووٹروں کے نظر ثانی کا دعویٰ کر تقریباً ۶۵؍ ہزار ووٹروں کے نام نئے ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے غائب کردئیے گئے ہیں۔اس ڈرافٹ پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح ایک خاص علاقے اور خاص طبقے کے ووٹروں کو نشانہ بنایا گیاہے اور ان کے نام حذف کئے گئے ہیں ۔بہار میں بھی بر سر اقتدار جماعت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتو ںنے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے مگر انتخابی کمیشن کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہے اور جس آمرانہ رویے کے ساتھ وہ ہندوستانی شہریوں کے نام کو ووٹر لسٹ سے حذف کر رہاہے اس سے مستقبل میں ایک بڑا سنگین مسئلہ کھڑا ہونے والا ہے ۔ کیونکہ آسام میں جس طرح لاکھوں ووٹروں کو پہلے رائے دہندگی سے محروم کیا گیا اور بعدہٗ اسے غیر ملکی قرار دے کر اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور کیا جا رہاہے ۔ اب انتخابی کمیشن اپنا موقف پیش کر رہاہے کہ تما م بی ایل او گھر گھر جا کر ووٹروں کی شناخت کر رہے ہیں اور جن کے نام حذف ہوگئے ہیں وہ اپنا نام شامل کرا سکیں۔واضح رہے کہ بہار کے کئی اضلاع ان دنوں سیلاب کی زد میں ہیں ، لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں اور بہار کے آرہ ضلع کا ایک گائوں بھی گنگا ندی کے ساتھ بہہ گیا ہے ایسی صورت میں بی ایل او کس کی جانچ کرے گا اور جن ووٹروں کے پاس کوئی ثبوت نہیں رہ گیا ہے وہ کیا پیش کر پائے گا اور اس جانچ مہم کیلئے بھی محض ایک ماہ یعنی اگست کے آخر تک کا وقت دیا گیاہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ جن کے گھر بار ختم ہوگئے ہیں وہ اپنا گائوں چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں وہ اپنی شناخت کا ثبوت پیش کر پائیں گے ؟
اس لئے اگر راہل گاندھی اور بہارمیں حزب اختلاف کے لیڈر تیجسوی یادو نے مشترکہ طورپر اپنے اتحادیوں کے ساتھ ’’ووٹ ادھیکار یاترا‘‘شروع کی ہے اور ساسارام سے۱۷؍ اگست سے اس ماہ کے آخر تک ریاست کے تمام اضلاع سے یاترا گزرے گی اور عوام کو بیدار کرے گی کہ کس طرح ہمارے جمہوری حقوق کی نقب زنی ہو رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی کمیشن کے آمرانہ رویے اور جانبدارانہ عمل نے جمہوری تقاضوں کی نہ صرف اندیکھی کی ہے بلکہ اپنے جانبدارانہ رویے سے آئین کی روح کو مجروح کردیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر انتخابی کمیشن کے آمرانہ رویے کے خلاف ایک نئی صف بندی نہیں ہوئی تو جمہوریت کی پاسداری کا راستہ ہموارنہیں ہو سکے گا اور ایک آئینی ادارہ کے سربراہ کو ایک آمر ہونے سے روکا نہیںجا سکے گا۔خوش آئند بات یہ ہے کہ اب راہل گاندھی کے ساتھ دیگر علاقائی جماعتیں بھی کھڑی ہو رہی ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں انتخابی کمیشن کی بد عنوانیو ں کے خلاف آواز بلند ہو رہی ہے۔