اس انتخاب کا خیرمقدم اچھی بات ہے مگر ہمیں اپنے ملک میں ہونے والی حقوق انسانی کی پامالیوں کا بھی دھیان رکھنا چاہئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ مضمون نگار نے اسی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان اور عراق کے ساتھ ہندوستان کو بھی اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کیلئے ایشیاء سے منتخب کیا گیا ہے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ دُنیا بھر میں حقوق انسانی کے تحفظ اور فروغ کو مستحکم کرنا اُس کی (کونسل کی) ذمہ داری ہے ۔ کونسل کیلئے منتخب کئے جانے کے فیصلے کا ہم نےپُرجوش خیرمقدم کیا ہے ۔ ہماری حکومت نے اس ضمن میں جو بیان جاری کیا اس میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان حقوق انسانی اور بنیادی آزادیوں کے تئیں اپنا فرض نبھانے پر یقین رکھتا ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم کونسل کی رکنیت کے اپنے دور میں اس مقصد کو پورا کریں ۔‘‘
حکومت نے جو کچھ کہا اُس پر تبصرہ کئے بغیر، اِس مضمون میں میری کوشش ہوگی کہ وطن عزیز میں انسانی حقوق کی صورت حال کو واضح کروں ۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اس کا جواب خو د نہ دیتے ہوئے اُن لوگوں سے حاصل کریں جن کے حقوق پامال ہورہے ہیں ۔
۲۲؍ نومبر ۲۰۲۵ء کو خرم پرویز نے مقدمہ قائم ہوئے بغیر جیل میں چار سال پورے کرلئے۔ سری نگر کے خرم کو دہلی کی روہنی جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس کی بیوی اور دو چھوٹے بچے اس انتظار میں ایک ایک دن کاٹ رہے ہیں کہ عدالتی نظام حرکت میں آئے جو اَب تک خاموش ہے۔ خرم کی قید ملک کے اُس قانون کے بارے میں ، جو یو اے پی اے کہلاتا ہے، بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ وہ یہ بھی بیان کرتی ہے کہ کس طرح اس قانون کو حقوق انسانی کی حفاظت کیلئے سرگرم رہنے والوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔
نئے ہندوستان میں بھی، جموں کشمیر کی حالت بدلی نہیں ہے۔ دُنیا کے جن حصوں میں ملٹری کا بہت زیادہ پہرا رہتا ہے اُن میں سے ایک ہمارا یہ خطہ ہے۔ غیر قانونی ہلاکتیں ، سزا دینے کیلئے مکانوں کا انہدام، انتظامی حراستی قوانین کے تحت گرفتاریاں اور سفری پابندی جیسے کئی مسائل ہیں جن کے سبب بنیادی حقوق ہی کی خلاف ورزی نہیں ہورہی ہے بلکہ انسانی وقار اور حرمت پر بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ عوام اپنی ہی منتخب کی ہوئی حکومت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں مگر اس حکومت کے اختیارات مرکزی حکومت نے بے معنی بنا دیئے ہیں جیسا کہ ہم نے حالیہ دنوں میں دیکھا، کس طرح ایک صحافی کے مکان پر بل ڈوزر چلا دیا گیا۔ ایسے ہی واقعات کے پیش نظر خرم پرویز کی جدوجہد بہت اہم ہے جو اس نوع کے واقعات کی تفصیل کو دستاویزی شکل دے رہے تھے۔
دو دہائیوں سے خرم پرویز کشمیر کے سب سے زیادہ محترم اور مشہور حقوق انسانی رضاکاروں میں شمار کئے جارہے تھے۔ مَیں خرم کی گرفتاری اور قید وبند کے اس معاملے کو کئی عالمی پینلوں میں زیر بحث آتا ہوا دیکھ چکا ہوں ۔ جہاں بھی اس پر بحث ہوئی، تشویش کے ساتھ ہوئی۔ جموں اینڈ کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کے پروگرام کوآر ڈینیٹر کی حیثیت سے خرم پرویز نے خطۂ جموں کشمیر میں غیر معینہ مدت کی حراست، افراد کی گمشدگی اور اذیت رسانی کے واقعات کی جو دستاویزات تیار کیں ، وہ بڑی محنت شاقہ کا نتیجہ ہیں ۔ یو این ہائی کمشنر فار ہیومن رائٹس نے جب ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء کی کشمیر پر رپورٹ تیار کی تو اس میں جے کے سی سی ایس کی تیار کردہ دستاویزات سے بہت بڑی حد تک استفادہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسی وجہ سے خرم پرویز کو ہدف بنایا گیا؟ ۲۱؍ نومبر ۲۰۲۱ء کو این آئی اے نے خرم کو ’’دہشت گردی کی فنڈنگ، سازش اور حکومت مخالف سرگرمی‘‘ جیسے سنگین الزْامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ جب اتنے سنگین الزامات ہیں تو مقدمہ میں تاخیر کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ چار سال ہوگئے مگر خرم اور اس کے اہل خانہ نہیں جانتے کہ کب مقدمہ شروع ہوگا۔اتفاق سے وہ تنہا قید و بند میں نہیں ہے۔
مارچ ۲۳ء میں عرفان معراج نامی صحافی کو بھی گرفتار کیا گیا۔ عرفان بھی جے کے ایس ایس سے وابستہ ہے۔ اسی سال اگست میں این آئی اے نے جے کے سی سی ایس کے بانی پرویز امروز کے مکان پر چھاپہ مارا اور باز پرس کیلئے دہلی بلایا۔
ایسے معاملات کے خلاف بین الاقوامی فورموں نے بار بار تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جون ۲۳ء میں آربیٹریری ڈِٹینشن سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے کہا تھا کہ پرویز کی گرفتاری آربیٹریری ہے، اسے رہا کیا جانا چاہئے مگر اب تک ہماری حکومت نے اس مطالبہ کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ اقوام متحدہ سے وابستگی کے سبب یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پرویز کیلئے دشواریاں پیدا ہوئی ہیں ۔ ستمبر ۱۶ء میں اُسے حقوق انسانی کونسل کے ایک اجلاس میں شرکت کیلئے جنیوا جانے سے روک دیا گیا تھا۔ ۲۰۱۸ء سے تاحال پرویز کا معاملہ یو این سکریٹری جنرل کی سالانہ رپورٹ میں شامل رہتا ہے۔ اکتوبر ۲۳ء میں یو این کے حقوق انسانی ماہرین نے یو اے پی اے کا معاملہ اُٹھایا بالخصوص مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ۱۸۰؍ دن کی حراست کا، جس میں توسیع کی جاسکتی ہے۔ ماہرین نے اسے زیادتی قرار دیا اور ہماری حکومت سے بہ اصرار کہا تھا کہ وہ اس قانون کو بین الاقوامی حقوق انسانی معیارات کے مطابق ڈھالے۔
پرویز اور جے کے سی سی ایس سے کئی عالمی فورموں نے استفادہ کیا ہے۔ ان کے کام نے تقریباً دو دہائیوں کے دوران ہزاروں کشمیریوں کو درپیش انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اُجاگر کیا۔ آج وہ ہندوستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال کے سب سے زیادہ متاثرین میں شامل ہیں ۔ ان کا مقدمہ ہر جگہ انسانی حقوق کے رضاکاروں کو درپیش خطرات کی علامت ہے جو اقتدار کو آئینہ دکھاتے ہیں مگر اقتدار انہیں دشمن قرار دیتا ہے۔ حقوق انسانی کے تحفظ کی جدوجہد کیلئے سرگرم عمل رہنے والوں ہی کو اگر ہم دشمن سمجھ لیں تو یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ہیں کہ ہم قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی قوم ہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ خرم پرویز کی گرفتاری ہی سوال ہے۔ اُسے گرفتار نہیں کیا جاناچاہئے تھا۔ کیا حقوق انسانی کی پامالی کا گوشوارہ تیار کرنا جرم ہے؟ چار سال ہوگئے وہ قید و بند میں ہے اور ہر گزرتا دن یاد دہانی کرتا ہے کہ اُس کی رِہائی بہت پہلے ہو جانی چاہئے تھی۔