شخص مرضی اور انفرادی سوچ کے احترام میں کمی نہ ہونے دینے کے قائل سبھی ہیں مگر اس کے باوجود چوری، دھوکہ دہی، جبری عصمت دری جرم ہے تو ان جرائم کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟
ہمارے نزدیک غلط غلط ہے چاہے وہ دو بالغ مرد کریں ، دو بالغ عورتیں کریں ، ایک مرد ایک عورت کرے یا قانون کی نگاہ میں نابالغ مگر جسمانی طور پر بالغ لڑکے لڑکیاں آپس میں کریں مگر ملک کا قانون کچھ اور ہے۔ یہ دو بالغ کو مرضی و اتفاق کی صورت میں ناجائز حرکتوں کو بھی جائز کہنے اور کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہاں نومبر ۲۰۱۲ء سے ایک قانون Pocso Act نافذ ہے۔ اس کے مطابق نابالغ کی مرضی یا رضا مندی کو بھی ناقابلِ قبول ٹھہرایا گیا ہے۔ یعنی اب بہلا پھسلا کر، چاکلیٹ یا پیسہ دے کر یا شادی کا جھانسہ دے کر کوئی شخص کسی نابالغ کو جنسی فعل کے لئے رضا مند کرلے تو قانون کی نگاہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس کی کچھ اور صورتیں بھی ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ۲۰۱۷ء سے ۲۰۲۲ء کے درمیان اس ایکٹ کے تحت درج کئے جانے والے معاملات میں ۹۴؍ فیصد کا اضافہ ہوا مگر سزا دیئے جانے کی شرح ۹۰؍ فیصد رہی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جب اس ایکٹ کے تحت ۹۴؍ فیصد یا اس سے زیادہ معاملات درج کئے گئے تو سزا ۹۰؍ فیصد کو ہی کیوں ہوئی؟ جواب یہ ہے کہ کافی معاملات پولیس تھانے تک لائے نہیں گئے، کچھ جھوٹے معاملات پولیس اسٹیشن میں درج کرائے گئے اور کچھ معاملات میں عدالت نے اس شخص کو بری کر دیا جس کو ملزم بنایا گیا تھا۔
اپریل ۲۰۲۴ء میں دہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا اور بہت صحیح کہا تھا کہ قانون کی دفعات اور عوامی اخلاقیات الگ الگ ہے۔ ایک ایسا شخص جس نے جرم یا مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا ہو عدالت سے بری کر دیا جائے تو معاشرے کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اگر کسی ایسے شخص کو سزا سنا دی جائے جس نے مجرمانہ فعل کا ارتکاب، خاص طور سے جنسی فعل کا ارتکاب نہ کیا ہو تو معاشرے کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کے ساتھ کافی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ ایک جھوٹا معاملہ خاص طور سے جنسی استحصال کا معاملہ کسی کی زندگی کو بھی برباد کرسکتا ہے۔ ایسے ملزمین کے بارے میں معاشرے کا جو رویہ ہے یا ایسے ملزمین کو عدالتی کارروائی اور جرح کے دوران ذہنی ابتلاء یا کوفت سے گزرنا پڑتا ہے اور سزا ہونے کی صورت میں ہی نہیں ، بری ہوجانے کی صورت میں بھی اس کے اثرات برقرار رہتے ہیں کیونکہ معاشرے میں اس کو برا سمجھا یا طعنہ دیا جاتا ہے۔
ایک بڑا معاملہ قانون کے غلط استعمال کا بھی ہے۔ یوں تو ہر قانون کا کسی نہ کسی سطح پر غلط استعمال ہوتا ہے اور اس کے غلط طور پر استعمال ہونے سے برا نتیجہ بھی سامنے آتا ہے مگر Pocso قانون کے غلط استعمال کا تو انتہائی برا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے مفادعامہ کی ایک عرضداشت کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ Pocso قانون کا نفاذ زوجین کے باہمی جھگڑے اور عتفوان شباب کی طرف بڑھتے ہوئے نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کے باہمی مفاہمت سے قائم کئے ہوئے رشتوں پر بھی یعنی غلط طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اسی لئے گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ نے ایک ایسے نوعمر لڑکے کو Pocso سے بری کیا تھا جو اپنی ہم عمر یا عمر سے کچھ کم عمر کی لڑکی سے محبت کرتا اور اس کے ساتھ جنسی فعل کیا کرتا تھا۔ چونکہ لڑکی کی عمر اتنی نہیں تھی کہ اس کو قانونی طور پر بالغ کہا جاسکے اس لئے لڑکے کو ۱۰؍ سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا لڑکے کو محض اس لئے سزا سنائی گئی تھی کہ وہ نابالغ لڑکی سے اس کی مرضی سے جنسی فعل کر رہا تھا؟ جواب یہ ہے کہ جی ہاں ، عدالت عالیہ کو محض یہ اعتراض تھا کہ لڑکا لڑکی کے ساتھ اس کے نابالغ ہونے کے باوجود میاں بیوی جیسا تعلق رکھے ہوئے تھا، وہ بھی لڑکی کی مرضی سے۔ اس کو جنسی فعل پر اعتراض نہیں تھا۔ عدالت عالیہ نے اس سزا کو منسوخ کرکے لڑکے کو بری کر دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ اور مذہب کی اخلاقیات ایک طرف ہے اور قانون کی ترجیح دوسری طرف۔ وجہ شاید یہی ہے کہ بالغ کی رضامندی سے قائم کئے گئے تعلق کو قانون جرم نہیں تسلیم کرتا مگر سماجی اور مذہبی اخلاقیات میں اس کو جرم قرار دیا گیا ہے اور ترجیحات یا ضابطوں کے اس فرق یا تضاد کے سبب فحاشی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
Pocso یعنی نابالغ کے خلاف جنسی جرائم کے قانون کو بلیک میل کرنے، بدنام کرنے یا حربے کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوسروں پر گھناؤنے الزام کو تو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔ راقم الحروم کو ایک شخص نے طعنہ دیا کہ موجودہ عہد میں جب دنیا عیش کر رہی ہے آپ نماز روزہ کر رہے ہیں جواب میں راقم نے کہا کہ عیش کی حدود پامال ہوتی جا رہی ہیں عیش اور عیاشی کے ساتھ آزادی اور آوارگی کا فرق آپ جیسوں نے مٹا دیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکیزہ زندگی گزارنے اور رزق حلال کا اہتمام کرنے کے باوجود مجھ جیسے طعنے سن رہے ہیں اور آپ جیسے لوگ عیش کرنے کی چاہ میں اوندھے ہوتے جا رہے ہیں ۔ آج بدفعلی، طعنہ زنی یا بلیک میلنگ سے نجات کی بہتر صورت یہی ہے کہ پاکیزگی اور پاک نفسی کی دعوت کو عام کیا جائے مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اچھائی کی ہر دعوت کی مخالفت کرنے والے بھی موجود ہیں اور اب تو انہیں قانون کا سہارا بھی مل گیا ہے۔
شخص مرضی اور انفرادی سوچ کے احترام میں کمی نہ ہونے دینے کے قائل سبھی ہیں مگر اس کے باوجود چوری، دھوکہ دہی، جبری عصمت دری جرم ہے تو ان جرائم کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے یا نظر انداز کیا جانا چاہئے جو عوامی اخلاقیات کا حصہ نہیں ہیں یا جو پوکسو قانون میں جرم نہیں قرار دیئے گئے ہیں ۔ اسی طرح دو عاقل چاہے وہ مرد ہوں یا عورت یا ایک مرد ہو ایک عورت باہمی رضامندی سے ایک گناہ کو کیسے جائز قرار دے سکتے ہیں ؟ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت کے اس فیصلے کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نابالغ کی مرضی مرضی نہیں ہے۔ یہ پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے مگر اس مسئلہ کو جو اصل میں گناہ اور جرم ہے غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنایا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ بالغ نابالغ، شخصی مرضی اور جبر، لالچ اور جھانسہ کی بحث میں گناہ کو عام کرنے کا جواز پیدا کیا جا رہا ہے اس صورتحال کو پاکی اور پاکبازی کو فوقیت اور اہمیت دے کر ہی بدلا جاسکتا ہے۔ یہ مذہبی اخلاقیات کا حصہ تو ہے ہی سماجی اخلاقیات کا بھی حصہ ہے۔