دہلی ہائی کورٹ نے ’’آئی لو محمد‘‘ پوسٹر کے معاملے میں ایف آئی آردرج کرنے کے خلاف مسلم مخالف تعصب کادعویٰ کرنے والی درخواست مسترد کردی ، درخواست کے مطابق پولیس نے تعصب کی بناء پر جھوٹے مقدمات درج کیے ہیں اور پرامن اظہار کو مجرمانہ قرار دیا ہے۔
EPAPER
Updated: November 13, 2025, 5:02 PM IST | New Delhi
دہلی ہائی کورٹ نے ’’آئی لو محمد‘‘ پوسٹر کے معاملے میں ایف آئی آردرج کرنے کے خلاف مسلم مخالف تعصب کادعویٰ کرنے والی درخواست مسترد کردی ، درخواست کے مطابق پولیس نے تعصب کی بناء پر جھوٹے مقدمات درج کیے ہیں اور پرامن اظہار کو مجرمانہ قرار دیا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے ایک عوامی مفاد کی درخواست (PIL) مسترد کردی جو تین ایف آئی آر کے خلاف آزاد اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے کے مقصد سے داخل کی گئی تھیں، یہ ایف آئی آر ،اتراکھنڈ اور اتر پردیش میںعید میلاد النبی کے موقع پر’’ آئی لو محمد‘‘ کے پوسٹر لگانے والے مسلمانوں کے خلاف درج کی گئی تھیں۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پولیس نے مسلم مخالف تعصب کی بنا پر جھوٹے مقدمات درج کیے ہیں اور پرامن اظہار کو مجرمانہ قرار دیا ہے۔چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے اور جسٹس تشار راؤ گڈیلا کی ڈویژن بینچ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار، شجاعت علی، کا اس معاملے میں کوئی عوامی مفادنہیں ہے۔عدالت نے مزید وضاحت کی کہ دہلی ہائی کورٹ دوسری ریاستوں میں درج ایف آئی آر کے حوالے سے ہدایات جاری نہیں کر سکتی۔مفاد عامہ میں دلیل دی گئی کہ ملزم افراد محض اپنے مذہبی تہوار کے حصے کے طور پر پوسٹر لگا رہے تھے۔تاہم، بینچ نے کہا کہ ملزمین خود مناسب قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں اور چونکہ درخواست گزار کا عوامی مفاد نہیں تھا، اس لیے درخواست مسترد کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھئے: گجرات: سیشن کورٹ نے گائے کے ذبیحہ پر۳؍ افراد کوعمر قید سنائی،۱۸؍لاکھ کا جرمانہ
واضح رہے کہ’’ آئی لو محمد‘‘ ستمبر میں میلاد النبی جیسے مذہبی جلوسوں کے دوران مسلمانوں کی طرف سے پیغمبر محمد ﷺ کے لیے پرامن عقیدت کا اظہارکیا گیا تھا۔ تاہم، ہندوتوا گروپوں کی طرف سے توڑ پھوڑ کی وجہ سے یہ معاملہ تیزی سے پورے ملک میں تنازعے میں بدل گیا، جس کے بعد پولیس کی جارحانہ کارروائیوں نے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ دراصل یہ معاملہ ۴؍ ستمبر ۲۰۲۵ء کو کانپور، اترپردیش میں ایک جلوس کے دوران شروع ہوا، جب مقامی مسلمانوں نے ظفر والی گلی، سید نگر، روات پور میں ’’آئی لو محمد‘‘ کا ایک سادہ سا بورڈ لگایا، جو پیغمبرﷺ کے لیے محبت اور احترام کا اظہار تھا۔کچھ ہی دیر بعد، ہندوتوا گروپوں کے اراکین نے بورڈ کو توڑ دیا اور اسے پھاڑتے ہوئے مسلم مخالف نعرے لگائے۔ اس کے باوجود، کانپور پولیس نے۲۵ء مسلمانوں کے خلاف دشمنی پھیلانے اور عوامی امن کو خراب کرنے کے الزامات میں ایف آئی آر درج کی، جبکہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھئے: دہلی دھماکے کے بعد مہاراشٹر میں ہلچل، چھاپہ ماری، ناکہ بندی
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے ریکارڈ کے مطابق، ابتدائی طور پر۲۱؍ ایف آئی آر درج کی گئیں اور۱۳۰۰؍ سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، جن میں ۳۸؍ گرفتاریاں شامل تھیں۔۷؍ اکتوبر تک، اے پی سی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ تعداد بڑھ کر۴۵۰۵؍ مسلمانوں کے خلاف مقدمات اور۲۶۵؍ گرفتاریاں ہو گئی، جن میں صرف بریلی میں ۸۹؍ گرفتاریاں شامل تھیں۔انہوں نے مسلم گھروں پر رات کے وقت چھاپے مارے، من مانی طور پر لوگوں کو حراست میں لیا، جن میں نابالغ بھی شامل تھے، وکلاء کو ایف آئی آر کی کاپیاں دینے سے انکار کیا، اور ان گھروں کو مسمار کیا گیا جن پر ’’آئی لو محمد‘‘ کے پوسٹر چسپاں تھے۔محمد عمران خان جیسے وکلاء نے اسے "ناجائز اور خطرناک" قرار دیا، اور دلیل دی کہ یہ مسلم علامات پر حملوں کیلئے محض ایک بہانہ ہے۔