• Sat, 15 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سیکولرازم کاغذ پر نہیں حقیقت میں دکھائی دینا چاہئے

Updated: November 10, 2025, 11:59 PM IST | Ali Imran | Kolhapur

سپریم کورٹ نے اکولہ فساد کی جانچ کیلئے ہندو مسلم افسران کی مشترکہ ٹیم کی تشکیل کا حکم جاری کیا مگر ریاستی حکومت نے اعتراض ظاہر کیا

Supreme Court reprimands police for biased actions
سپریم کورٹ نے پولیس کی جانبدارانہ کارروائیوں پر سرزنش کی

 مہاراشٹر حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے جس میں ۱۳؍مئی ۲۰۲۳ ءکو اکولہ شہر میں ہوئے  فساد کے معاملے میں ہندو اور مسلم پولیس افسران پر مشتمل خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دینے کے سپریم کورٹ کے حکم پر نظرثانی کی درخواست کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست پر منقسم فیصلہ دیا ہے۔ دو رکنی بنچ کے دو ججوں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس ستیش چندر شرما نے الگ الگ حکم جاری کیا ہے۔
  یاد رہے کہ اس سلسلے میں اصل درخواست فرقہ وارانہ فسادات کے دوران زخمی ہونے والے محمد افضل محمد شریف نے دائر کی تھی  اور معاملے کی شفاف جانچ کا مطالبہ کیا تھا ۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے ۱۱؍ستمبر ۲۰۲۵ کو اپنے فیصلے میں فسادات کی تحقیقات کیلئے سینئر ہندو اور مسلم پولیس افسران پر مشتمل مشترکہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت دی تھی۔
  اس سلسلے میں ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے اس حکم پر نظرثانی کی درخواست کی تھی۔حکومت کا کہنا تھا کہ  مذہبی شناخت کی بنیاد پر تفتیشی ٹیم کی تشکیل ادارہ جاتی سیکولرازم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جسٹس سنجے کمار نے ریاستی حکومت کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے نظرثانی درخواست کو خارج کردیا۔ پولیس کی غیر فعالی اور مذہبی بنیادوں پر دیئے جانے والے جانبدارانہ رویے کو دیکھتے ہوئے، انہوں نے حکم نامے میں رائے دی کہ صرف مختلف مذہب کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم ہی جانچ کے معاملے میں شفافیت برقرار رکھ سکتی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی معاملے میں پولیس نے مقدمہ درج کرنے میں مکمل طور پر غفلت اور اپنے فرض سے غفلت برتی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے پس منظر میں، دونوں برادریوں کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ سیکولرازم کو کاغذ پر نہیں بلکہ اسے حقیقت میں نافذ کیا جانا چاہئے۔
  اس سلسلے میں انہوں نے بلرام سنگھ کیس میں مشاہدات کی بنیاد پر اصل ہدایت کو درست طریقے سے واضح کیا ہے۔ تاہم اس کے بر خلاف بنچ کے ایک اور جج جسٹس ستیش چندر شرما نے جسٹس سنجے کمار سے اختلاف کیا اور درخواست کو قبول کر لیا۔ انہوں نے مدعا علیہ کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے نظرثانی کی درخواست کھلی عدالت میں سننے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے قبول کیا کہ ریاستی حکومت کا یہ نظریہ کہ مذہبی شناخت کی بنیاد پر تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی کرتی ہے قابل غور ہے۔ انہوں نے درخواست گزار اور حکومت کو اس سلسلے میں دو ہفتوں میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کی۔  یاد رہے کہ مہاراشٹر میں اکولہ سمیت کئی مقامات پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ فسادات کے بعد پولیس نے یکطرفہ طور پر ایک ہی طبقے کے نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ جبکہ حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اسی کے پیش نظر  اکولہ فساد میں زخمی ہونے والے محمد افضل شریف نے یہ مذکورہ عرضداشت داخل کی تھی۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK