• Tue, 23 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

رحیم خانخاناں کی وراثت اور اس سے ملنے والی بصیرت

Updated: December 22, 2025, 1:35 PM IST | Professor Sarwar Al-Huda | mumbai

اس عظیم فنکار کو بھلا دیا گیا البتہ موقع محل کی مناسبت سے ان کے دوہوں کا استعمال کر لیا جاتا ہے۔ کیا انہیں اتنا ہی یاد رکھنا چاہئے؟

INN
آئی این این
 جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہندی ڈپارٹمنٹ نے اٹھارہ نومبر کو رحیم خانخاناں (۱۷؍ دسمبر۱۵۵۶ءتا یکم اکتوبر۱۶۲۷ء) کی شاعری اور شخصیت پر ایک سمینار کا انعقاد کیا تھا جس میں  مجھے بھی اظہار خیال کا موقع ملا۔ رحیم کے دوہے اور رحیم پر لکھی گئی تنقید کو پڑھنے کا مطلب اپنی ایک کھوئی ہوئی روایت سے رشتہ استوار کرنا ہے۔ اس روایت سے ہمارا رشتہ کیوں  کمزور ہوا اگر اس کے تاریخی بلکہ ادبی اور لسانی سیاق پر روشنی ڈالی جائے تو بہت سے لوگ ناراض ہوں  گے۔ ناراضگی کا سبب ہمارا ایک مخصوص لسانی ذوق ہے جو زمین سے بلند ہو کر اپنی عظمت کا اعلان کرنا چاہتا ہے۔لسانی اور ادبی ذوق جب زمین سے بلند ہو جاتا ہے تو پھر اس کا رشتہ انسانی تجربات اور محسوسات سے بھی ٹوٹنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں  ہم ایک ایسی مخلوق بن جاتے ہیں  جو اوپر ہی اوپر گردش کرتی رہتی ہے۔ ایک خیال سے دوسرا خیال کچھ اس طرح پرواز کرتا ہے کہ جیسے خیال کو زمین پر آنا ہی نہیں ۔ یہ ہماری روایت کا ایک عام حوالہ ضرور ہے مگر وقت تو بہت نکل چکا ہے۔ دنیا کتنی کروٹیں  لے چکی ہے اور ہم ہیں  کہ خیال کی سطح پر فضا میں  گردش کر رہے ہیں ۔
مجھے رحیم کو اور رحیم پر لکھے جانے والی تنقید کو پڑھتے ہوئے اپنی مٹی اور بوباس کا شدید احساس ہوا جیسے کوئی بولی جو بطور زبان اپنی لسانی سیاست سے بلند ہو کر تن بدن میں  داخل ہو رہی ہو بلکہ لپٹنا چاہتی ہو۔ ایک بولی کا زبان بن جانا اور کبھی اس کا صرف بولی کے طور پر باقی رہ جانا، ان معاملات کا تعلق ہماری تہذیبی زندگی سے ہے۔ تہذیبی زندگی اپنے مخصوص رکھ رکھاؤ کے ساتھ جس بولی میں  خود کو ظاہر کرتی ہے، وہ کبھی زبان سے زیادہ بڑی ہو جاتی ہے۔وہ زبان جسے اپنی مخصوص ادائیگی بلکہ اشرافی ادائیگی پر بہت غرور ہے۔
طالب علموں  کے درمیان رحیم کے بارے میں  کچھ لکھنا یا بولنا ایک بڑی ذمہ داری کو قبول کرنا تھا۔ آج کی زندگی اور زمانے کے سیاق میں  یہ عنوان بہت اہم ہے۔ رحیم کے دل میں  انسانیت کا خیال ایک ایسے انسانی معاشرے کا خیال ہے جس میں  انسانی اقدار کا احترام ہو۔ ایک انسان دوسرے کیلئے زحمت کے بجائے رحمت ہو۔ صرف چار حروف سے بنا لفظ رحیم کتنا طاقتور ہے۔ یہ طاقت اندر کی اس دنیا نے پیدا کی ہے جس کے بارے میں  رحیم نے طرح طرح سے غور کیا۔ جو باہر کی دنیا ہے اس کی طاقت کا احساس بھی رحیم کو تھا۔ لیکن ان کی اصل دنیا کا رخ تو دل کی طرف تھا۔ انہوں  نے دل سے دنیا کو پہچانا یا دل کے آئینے میں  دنیا کو دیکھا تھا۔ جامعہ سےمحض ۱۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر رحیم کا مزار ہے۔ ہم میں  سے بہت لوگ رحیم کے مزار پر حاضر ہوئے ہوں  گے۔ ان کے سمے کو ان کی شاعری کے بغیر اچھی طرح سمجھا نہیں  جا سکتا۔ اس میں  انسانی اور کائناتی دکھ ہے۔ اس دکھ کا ایک ایسی زبان میں  اظہار ہوا ہے جو زمین سے لگ کر چلتی ہے۔ وہ شاعری جو زمین سے لپٹی ہوئی ہے۔ اس کے میٹا فزکس کو سمجھے بغیر اس کے ساتھ انصاف نہیں  کیا جا سکتا۔
رحیم کی زندگی جو اکبر کے ساتھ گزری ہے وہ بڑی حد تک روشن ہے اور اس کے حوالے آئین اکبری اور دربار اکبر ی وغیرہ میں  تلاش کیے جا سکتے ہیں  لیکن جو زندگی ان کے دوہوں  میں  ہے اس کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔رحیم کے کچھ دوہے تو اس طرح یاد آتے ہیں  کہ جیسے وہ ہمارے زمانے کیلئے اور ہمارے لئے کہے گئے ہوں ۔ سامنے کی بہت معمولی چیزوں  سے مثال دے کر زندگی اور کائنات کے اسرار کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرنا رحیم کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔جس سمے کا ذکر رحیم کے سیاق میں  آیا ہے، وہ ان سامنے کی چیزوں  کے ساتھ بھی موجود ہے۔ درخت، پرندے اور پھل پھول، ان کے بارے میں  اس طرح سوچنا کہ جیسے یہ انسانوں  کی طرح سانس لے رہے ہیں  لیکن ایک ببول ہے جو دوسرے درخت کی طرح کسی کا راستہ نہیں  روکتا۔ رحیم اپنی بات کہنے کیلئے جو مثالیں  تلاش کرتے ہیں  وہ بظاہر کس قدر مانوس معلوم ہوتی ہیں  مگر ان سے جو بصیرت حاصل ہوتی ہے وہی دراصل رحیم کا کارنامہ ہے۔ مثلاً یہ دوہا:رحیم یہ تن سوپ ہے، لیجے جگت پچھورہ
لکن کو اڑ جان دے، گروپ راکھ بٹور
(اے رحیم، یہ جسم چھاج کے جیسا ہے جس میں  سب زمانے کو پھٹک لو۔ جو ہلکی ہو، ہوا سے اڑ جانے دو اور جو بھاری ہو اسے سنبھال کر رکھ لو)۔ رحیم نے جگت کو پھٹکنے کی بات کہہ کر، یہ بھی بتایا ہے کہ زمانے سے جڑی ہوئی چیزیں  ایک جیسی نہیں  ہیں ۔ ایک زمانہ دوسرے زمانے سے اگر الگ ہے تو اس کا کارن صرف زمانے کا نزدیک یا دور ہونا نہیں  بلکہ اس کا ہلکا اور بھاری ہونا ہے۔جو ہلکا ہے وہ اڑ جائے گا، اور جو بھاری ہے وہ رہ جائے گا۔ اس دوہے کی روشنی میں  دنیا کے اس ادب کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو زمانے کا بوجھ نہیں  اٹھا سکا اور زمانے نے اسے گرد کی طرح اڑا دیا۔
رحیم کے ذہن میں  سوپ کا خیال جگت کو پھٹکنے کیلئے آیا تھا، یہی وہ ذہن کی زمین ہے یا زمین کا ذہن ہے جو رحیم کے وقت کو ہمارے لیے اہم بناتا ہے۔ بھاری کے ساتھ ہونے کا مطلب اس زندگی اور زمانے کے ساتھ ہونا ہے جس سے نئی کائنات کی تشکیل کا سراغ مل سکتا ہے۔ سوپ کتنا چھوٹا ہے مگر اس کی چھوٹی سی کائنات کتنی بڑی ہے۔ اس سے نکلنے والی وہ چھوٹی چھوٹی اشیا جنہیں  اپنے وجود کو بچانے کا جتن بھی نہیں  کرنا ہے وہ کبھی آنکھ میں  آ جاتی ہیں ، جیسے راستے کا غبار ہو۔ جگت کو سوپ میں  پھٹکنے کی بات رحیم سے پہلے شاید کسی نے نہیں  کہی۔ اور یہ بھی دیکھیے کہ جگت اور زمانے سے کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ جو جگہ دنیا کو جگت گرو بنانے کے لیے کوشاں  اور مصر ہے، اسے ایک سوپ میں  رکھ کر اس کے ہلکے اور بھاری ہونے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔
 
کہو رحیم کیسے نبھے کیر بیر کو سنگ 
یہ ڈولت رس آپ نے، ان کے پھاٹت انگ
(اے رحیم بتاؤ بھلا بیر کی صحبت کس طرح نبھے گی۔ یہ تو مستانہ وار جھومتے ہیں  اور اس غریب کا بدن چھلنی ہوا جاتا ہے)۔ باغ میں  پودوں  پھولوں  اور درختوں  کو ان کی فطری مجبوریوں  کے ساتھ دیکھنا اور انہیں  ایک دوسرے سے کمتر یا برتر ثابت کرنے کے بجائے ان کے درد کو محسوس کرنا رحیم کا ایک ایسا رویہ ہے جو انہیں  فطرت یا پرکرتی کا سادھک اور دوست بنا دیتا ہے۔ رحیم کی تخلیقی نظر وجود کے اندر تک کچھ اس طرح جاتی ہے کہ پھر وہ سب کچھ دیکھ لیتی ہے جو اسے دیکھنا چاہیے۔ یہ عمل کوئی بہت خوش کرنے والا عمل نہیں  ہے لیکن جو کچھ وجود کے اندر اندھیرے اجالے اور بھاگ کی صورت میں  ہے اس سے اس طرح نظر کو بچایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK