Inquilab Logo Happiest Places to Work

عید قرباں کے چند اہم معاشی پہلو

Updated: June 06, 2025, 1:19 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ایک جانور کے ذبیحہ یا قربانی سے ۱۷؍ سے ۲۰؍ افراد تک کو روزی ملتی ہے۔ کوئی چارہ مہیا کرتا ہے، کوئی آنتیں خریدتا ہے، کوئی چرم کا کاروبار کرتا ہے۔ بیشک ہم ان کے جذبات کی قدر کرتے ہیں جو جانوروں پر رحم کرنے اور گندگی نہ کرنے کی بات کرتے ہیں مگر وہ ذبیحہ اور قربانی میں مسلسل رخنہ ڈال کر ایک بڑے طبقے کی روزی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ہمارے ملک میں  تقریباً ۳۸؍ فیصد ایسے لوگ ہیں  جو گوشت خور نہیں  ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً ۶۲؍ فیصد لوگ گوشت کھاتے ہیں ۔ گوشت کھانے والوں  میں  وہ بھی شامل ہیں  جو حرام جانور اور کتے بلّی بھی کھا جاتے ہیں  یا جھٹکے کے گوشت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ مسلمان تو صرف حلال جانوروں  کا حلال کیا ہوا گوشت ہی کھاتے ہیں  بعض غیر مسلم بھی ذبیحہ کے ہی گوشت کو ترجیح دیتے ہیں  مگر تمام مسائل حلال کئے گئے حلال جانور کے ہی ساتھ ہیں ۔ ابھی علی گڑھ سے جو خبر آئی وہ بہت اندوہناک ہے بعد میں  یہ خبر بھی عام ہوئی کہ گوشت اس جانور کا تھا ہی نہیں  جس کا ہونے کے شبہ میں  اس کے تاجروں  کو زد و کوب کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی عام ہوگئی کہ جو لوگ حملہ آور ہوئے انہوں  نے حملہ کرنے سے پہلے ایک بڑی رقم طلب کی تھی وہ رقم ان کو نہیں  دی گئی تو انہوں  نے حملہ کیا یا حملہ کروایا۔ اس کا مطلب ہے کہ حلال گوشت کھانے اور بیچنے والوں  کیخلاف جو لوگ یا جو ٹولہ سرگرم ہے اس کو دھرم سے کچھ لینا دینا ہے ہی نہیں  وہ سیدھے سیدھے جبری وصولی کرتا ہے۔ کیا یہ نظم و نسق کا معاملہ نہیں  ہے؟
 عیدالاضحی مسلمانوں  کا بڑا تہوار ہے اس دن وہ نماز عیدالاضحی ادا کرنے کے بعد سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے جانوروں  کی قربانی دیتے اور گوشت ایک دوسرے میں  تقسیم کرتے اور دعوتیں  کرتے ہیں ۔ اگر ۱۸، ۲۰؍ کروڑ مسلمانوں  میں  سے دو کروڑ لوگ بھی قربانی کے جانور خریدتے ہیں  تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کتنے روپیوں  کے جانور خریدے اور قربان کئے جاتے ہیں ۔ قربانی کے یہ جانور کسی مسلم ملک سے درآمد تو کئے نہیں  جاتے بلکہ اسی ملک کے باشندوں  کے گھروں  اور کھیتوں  میں  پالے ہوئے ہوتے ہیں ۔ عیدالاضحی کے موقع پر ان کو بیچنے والوں  کو یکمشت رقم ملتی ہے تو ان کے کافی کام نکل جاتے ہیں ۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوجاتی ہیں ۔ حکومت نے گوا، میگھالیہ، شمال مشرق وغیرہ چند ریاستوں  کو چھوڑ کر گئو اور گئو ونش کی قربانی پر پابندی لگا دی ہے مگر گوشت کا کاروبار کرنے والوں  کے علاوہ گوشت خاص طور سے حلال گوشت کھانے والوں  کے خلاف تشدد کم نہیں  ہو رہا ہے۔ پکے ہوئے گوشت کے بارے میں  یہ ثابت کرنا بھی مشکل اور وقت طلب ہے کہ یہ ممنوعہ جانور کا گوشت ہے یا بھینس کا۔ مگر کسی قسم کے جانور کے گوشت کے بارے میں  یہ افواہ پھیلا دینا آسان ہے کہ وہ اس جانور کا گوشت ہے جس کا ذبیحہ ممنوع ہے۔ یہ بھی ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ افواہ اڑانے اور عوام کو ورغلانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں  جو جبری وصولی کرتے ہیں ۔
 قربانی کے جانور اللہ کی راہ میں  چونکہ قربان کئے جا چکے ہوتے ہیں  اس لئے ان کی کھال بیچی نہیں  جاتی بلکہ مدارس و جامعات کو دے دی جاتی ہے کہ وہ اس کو بیچ کر یتیم و نادار اور یتیمی، ناداری کے باوجود حصول علم کی کوشش کرنے والوں  کی مدد کریں ۔ اس کو ختم کرنے کے لئے پہلے تو شوشہ چھوڑا گیا کہ قربانی کی کھالیں  بیچ کر دہشت گردوں  کی اعانت کی جاتی ہے۔ اس لغو اور بیہودہ الزام کے سچ ہونے کا ایک بھی ثبوت نہیں  ہے مگر اس کے بعد ایسا ہوا کہ قربانی کی کھالیں  کوڑیوں  میں  بکنے لگیں ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ چمڑے کا متبادل ریگزن آچکا ہے اس لئے چمڑوں  کی قیمت نہیں  رہی۔ اب قربانی کے جانوروں  کے گندگی کرنے اور ان کی نمائش و آرائش سے ایک طبقے کی دلآزاری کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں  ان میں  کچھ سچائی ہے اور اس سلسلے میں  ذمہ داران خود مسلمانوں  کو تلقین کر رہے ہیں  کہ قربانی کے جانوروں  کو گھمانے، چرانے، قربانی کرنے اور قربانی کے بعد اس کے بچے کھچے حصے کو پھینکنے میں  غیر معمولی احتیاط سے کام لیا جائے تاکہ شرپسندوں  کو فساد پھیلانے یا عام لوگوں  کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے۔
 یہاں  یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب گئو ونش پر پابندی نہیں  تھی تب بھی مسلمان گائے کی نہیں  بیلوں  کی قربانی کرتے تھے وہ بھی ایسے بیلوں  کی جو زراعت یا نسل بڑھانے کے لائق نہیں  رہ جاتے تھے مگر ان کیخلاف احتجاج ہوتا تھا۔ ان کی قربانی ممنوع قرار دی گئی تو بھینسوں  اور بکروں  کے منتقل کئے جانے کیخلاف بھی دھر پکڑ شروع کر دی گئی۔ ظاہر ہے یہ گئو ہتیا کا معاملہ نہیں  جبری وصولی کا معاملہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: بہار میں مختلف کمیشنوں کی تشکیل نو؟

 دوسری طرف بڑے کے گوشت کے ایکسپورٹ کا معاملہ ہے۔ ۲۰۲۵ء میں  ۴ء۶۴؍ ملین میٹرک ٹن گوشت کی پیداوار کا منصوبہ ہے۔ ۲۰۲۴ء میں  یہ پیداوار ۴ء۵۷؍ ملین میٹرک ٹن تھی۔ جانوروں  کے گوشت وغیرہ کے ایکسپورٹ میں  ۷۹؍ فیصد بھینس کے گوشت کا ایکسپورٹ شامل ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہندوستان کا بھینس کا گوشت امریکہ، آسٹریلیا اور برازیل سے درآمد کئے گئے بھینس کے گوشت سے سستا ہوتا ہے۔ ہم ایکسپورٹ کے مخالف نہیں ، بس یہ چاہتے ہیں  کہ جس طرح اس ملک میں  بڑے کے گوشت کے ایکسپورٹ کی ایک پالیسی ہے، روزمرہ گوشت استعمال کرنے والوں  اور عیدالاضحی پر قربانی دینے والوں  کے لئے بھی ویسی ہی پالیسی بنائی جائے۔ بکروں ، بھیڑوں ، بھینسوں  کی قربانی کرنے اور مویشیوں  کو پالنے اور قربانی کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والوں  کا تحفظ کرے اور راشٹر دھرم یہ ہے کہ گوشت کھانے اور قربانی کرنیوالے گوشت نہ کھانے والوں  کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچنے دیں ۔ یہ راج دھرم اور راشٹر دھرم کے علاوہ جیو اور جینے دو کا بھی مسئلہ ہے کہ ایک جانور کے ذبیحہ یا قربانی سے ۱۷؍ سے ۲۰؍ افراد تک کو روزی ملتی ہے۔ کوئی چارہ مہیا کرتا ہے، کوئی آنتیں  خریدتا ہے، کوئی چرم کا کاروبار کرتا ہے۔ بیشک ہم ان کے جذبات کی قدر کرتے ہیں  جو جانوروں  پر رحم کرنے اور گندگی نہ کرنے کی بات کرتے ہیں  مگر وہ ذبیحہ اور قربانی میں  مسلسل رخنہ ڈال کر ایک بڑے طبقے کی روزی کو خطرے میں  ڈالتے ہیں ۔ گائے سے آستھا جڑی ہے مگر بھینسوں  اور بکروں  کی قربانی یا ان کا ذبیحہ کیا رکاوٹوں  سے پاک ہے؟ ان کی قربانی، ذبیحہ یا ان کے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں  کیوں  رکاوٹ ڈالی جاتی ہے؟ یہ تو سیدھے سیدھے جبری وصولی کا معاملہ ہے۔ اس کیخلاف ونچت اگھاڑی کے ایک ذمہ دار سامنے آئے۔ وزیراعلیٰ (مہاراشٹر) نے تو پہلے نہایت ناقابل فہم بیان دیا پھر واپس لیا۔ اچھا کیا مگر قربانی اور ذبیحہ کے بارے میں  حکومت کی مستقل پالیسی کیوں  نہیں ؟ کبھی سرکیولر نکالنا اور کبھی اس کو واپس لینا مسئلہ کا حل نہیں  ہے۔ قربانی کرنیوالوں  کو مستقل پالیسی پر اصرار کرنا چاہئے۔ گئو ہتیا رکو آندولن کے نام پر بھینسوں  اور بکروں  کی گاڑی روکنے، گوشت اور مویشی کا جائز کاروبار کرنیوالوں  کو زد و کوب کرنے اور جبری وصولی کرنے والوں  کیخلاف اقدام بھی حکومت کا کام ہے۔ غیر قانونی وصول کرنے والے دھرم کے نام خود کو چھپا نہیں  سکتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK