• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تم ہار کے دل اپنا مری جیت امر کردو!

Updated: November 17, 2025, 1:52 PM IST | Professor Sarwar Al-Huda | mumbai

جیت ہار کا سلسلہ برسہا برس سے جاری ہے۔ جو ہارتا ہے وہ کبھی جیت بھی جاتا ہے اور جو جیتتا ہے وہ کبھی ہار بھی جاتا ہے اسلئے انسان چاہے جیتے یا ہارے ہر دو چیزوں کو کھلاڑی کے جذبہ یعنی اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ قبول کرنا چاہئے۔ یہ جذبہ جیت ہارکو وقار عطا کرتا ہے۔

INN
آئی این این
آج  صبح ہوئی تو بہت بار کی سنی ہوئی ایک آواز سماعت سے ٹکرانے لگی۔ اس میں  کسی شعوری کوشش کا دخل نہیں  تھا۔ جگجیت سنگھ کی اس آواز میں  کتنی کشش ہے۔ ایک اداسی ہے جو اندر ہی اندر لفظوں  کو موسیقی کے ساتھ کچھ ابھارتی بھی ہے اور دباتی بھی ہے۔ اٹھتا اور گرتا ہوا سر، جیسے دل سینے میں  اوپر تلے ہو رہا ہو۔ اداسی کی فطرت میں  خاموشی ہے مگر خاموشی موسیقی کے ساتھ کچھ اور گونجنے لگتی ہے۔ معلوم نہیں  کیوں  اس آواز نے جس کا بنیادی حوالہ عشق ہے، ایک نئی معنویت کے ساتھ صبح کو روشن کردیا۔ دہلی کا موسم ابھی اتنا سرد نہیں  ہوا ہے۔ ہلکی سردی کی صبح کچھ اداس دکھائی دیتی ہے یا ہماری آنکھ میں  گزری ہوئی راتوں  کی اداسی ہے جو فضا میں  اپنی ہی جیسی کسی شے کو تلاش کر لیتی ہے۔ کچھ تو ایسا تھا اور ہے کہ جس نے جگجیت کی آواز کو گزرے ہوئے دن اور گزری ہوئی رات کی کیفیات سے ہم آہنگ کر دیا۔ تہذیبی زندگی کی ہما ہمی سے ہر شخص کچھ نہ کچھ متاثر ہوتا ہے۔ کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے نظریے اور رویے کے ساتھ اجنبی اور تنہا ہے۔ وہ تہذیبی زندگی پر کوئی نقش مرتب نہیں  کر سکتا۔ اس لئے نہیں  کہ وہ کچھ کرنے کا اہل نہیں ، اس لئے کہ جن وسائل کی ضرورت ہے وہ اسے حاصل نہیں ۔ تہذیبی زندگی کے تہذیبی وسائل کا مفہوم پہلے جیسا نہیں  رہا۔ وسائل کا رشتہ مادے سے بہت گہرا ہے اور یہ بات کوئی نئی نہیں  ہے۔ پھر بھی تہذیب اور اس کے وسائل کا رشتہ صرف مادے سے نہیں  ہے۔ اداس وہ بھی ہے جس کے پاس وسائل کی کمی نہیں  ہے۔ وہ خوش بھی ہے جو بڑی حد تک وسائل سے محروم ہے ۔ تہذیبی زندگی کا یہ تضاد سیاست کا موضوع ہو سکتا ہے مگر اتنے شور شرابہ کے درمیان ان حقائق پر غور کرنے کیلئے کس کے پاس فرصت ہے؟ کم سے کم وقت میں  زیادہ سے زیادہ لوگوں  تک پہنچنے اور اپنی بات رکھنے کی خواہش وہ طرز زندگی ہے جسے ایک بڑی سچائی کے طور پر قبول کر لینا چاہیے۔ یعنی زور سے اور چلا کر بولنے کی ضرورت کا احساس۔ غور کیجئے کہ خاموشی پر کیا گزرتی ہوگی۔
تہذیبی زندگی کا یہ شور وقت کے ساتھ بڑھتا جائے گا اور وہی بات صحیح سمجھی جائے گی جس میں  چیخ ہوگی۔چیخ کے مقابلے میں  پکار کتنا خوبصورت اور بامعنی لفظ ہے۔ اگرچہ چیخ بھی صورتحال کے سیاق میں  اہم ہو جاتی ہے۔ تہذیبی زندگی میں  چالاکی کا مطلب ہمیشہ تدبیر نہیں  رہا ہے۔ تدبیر خود بخود سیاسی سمجھ کو آواز دیتی ہے یا اس کا امتحان لیتی ہے۔لفظ تدبیر کبھی کتنا خوبصورت اور بامعنی سمجھا جاتا تھا۔
تہذیبی زندگی میں  ہار اور جیت کا فیصلہ کبھی بہت جلد ہو جاتا ہے اور کبھی کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ پھر بھی جیت تو جیت ہے چاہے ہار کا جو بھی جواز پیش کیا جائے۔ کسی کی ہار کسی کی جیت ہے اور کسی کی جیت کسی کی ہار ہے۔ تاریخ نے پہلے بھی نہ جانے کتنی مرتبہ تہذیب کے چہرے کو اداس دیکھا ہے۔ تہذیب کا چہرہ صرف کامیابی کا چہرہ نہیں  ہے بلکہ وہ چہرہ بھی ہے جو فوری طور پر اداس بھی ہے اور بجھا بجھا بھی۔ تہذیبی زندگی کی خوبصورتی اسی بات میں  ہے کہ تہذیب کا روشن چہرہ تہذیب کے اداس چہرے کو دیکھے اور محسوس کرے۔نیلسن منڈیلا نے کہا تھا: ’’مجھے میری کامیابیوں  سے مت پر کھو، مجھے اس بات سے پرکھو کہ میں  کتنی بار ہار کر گرا ہوں  اور پھر سے اٹھ کھڑا ہوا۔‘‘ مگر بہت کم لوگ اس طرح سوچتے ہیں ۔ ہار کر گرنے اور پھر اٹھنے کی روش کتنی خوبصورت اور دیر پا ہے۔ اس کے بعد جو جو ہار گلے کی زینت بنتا ہے، اس کے پھول مرجھانے کے بعد بھی زندگی کا مفہوم سمجھاتے ہیں ۔ گلے کا ہار ہو جانا اور گلے میں  ہار کا ہونا، دونوں  میں  فرق ہے۔ مجھے اس وقت وحید اختر اور کلیم عاجز کے اشعار یاد آرہے ہیں ۔
بہت دلکش ہیں  دنیا میں  گرفتاری کے ساماں  بھی
ہر اک شاخ شجر سے پھول کی زنجیر اترے گی (وحید اختر)
اسیر کر کے ہمیں  کیا پھر ے ہے اتراتا 
گلے میں  ڈالے وہ پھولوں  کا ہار دیکھو تو ( کلیم عاجز)
باغ کے پھولوں  کو گلے کا ہار بننا ہے یا انہیں  روندا جانا ہے،کون جانتا ہے۔پھولوں  کو گلے کا ہار بننے میں  کبھی بہت کم وقت لگتا ہے اور کبھی بہت زیادہ۔ روندے گئے پھولوں  کی بابت کچھ سوچنا اور لکھنا چاہیے۔ پھولوں  کا مقدر دونوں  صورتوں  میں  مرجھانا اور ختم ہو جانا ہے۔
دل ہار جانے والا کسی گیت کو امر کر دیتا ہے۔شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ دل ہمیشہ کے لئے نہ تو ہارتا ہے اور نہ جیت کا زمانہ طویل ہوتا ہے۔لیکن اس نغمے کی جو تہذیب ہے وہ بھی وقت کے ساتھ اجنبی ہوتی گئی۔پروین شاکر نے کہا تھا:
ہار جانے میں  انا کی بات تھی = جیت جانے میں  خسارہ اور ہے 
 
یہ باتیں  ہماری تہذیبی زندگی کے لئے اب کتنی اہم رہ گئی ہیں ، اس کا فیصلہ تہذیبی معاشرہ ہی کر سکتا ہے،اور وہ شاید کر بھی چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تہذیبی زندگی میں  ہار اور جیت کے تعلق سے اتنی سرشاری اور اتنی دلآزاری پائی جاتی ہے۔جشن کی زبان فطری طور پر بہت نرم ہوا کرتی تھی یا اسے درد مند ہونا چاہیے۔ ہار کی زبان تو ہار کی زبان ہے اس کے پاس کھونے کے لئے اور کچھ نہیں  ہے اگر اس کی طاقت ہے تو صرف اس کی شکست۔ جیت کی طاقت بھی جیت ہے مگر وہ ذمہ داریوں  کے بوجھ سے جھکی ہوئی بھی ہے۔ اسی لئے جیت کے جشن کی زبان کو بہت مہذب ہونا چاہیے۔ فتح اور شکست کے ماحول میں  جگجیت سنگھ کا گایا ہوا نغمہ کچھ کہتا ہےفرد واحد سے بھی اور زمانے سے بھی: ’’تم ہار کے دل اپنا مری جیت امر کر دو‘‘۔ تاریخ میں  جب کبھی تہذیب کا چہرہ روشن اور اداس ہواتو چہرے کی روشنی نے اداسی کے اندھیرے کو بھی اپنائیت کے ساتھ گلے لگایا ہے۔
روشنی اور اداسی ایک ساتھ جب ہوتی ہے تو تہذیبی معاشرہ کچھ زیادہ مہذب اور فکر و خیال کی سطح پر گہرا دکھائی دیتا ہے۔ گاندھی جی نے کہا تھا: ’’زہر زیادہ زہر پیدا کرتا ہے، صرف محبت کا امرت زہر کو ختم کر سکتا ہے۔‘‘دل ہارنے والا ہی دل جیت سکتا ہے۔ دل پر اس وقت مشکل وقت آتا ہے جب سیاست دل تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے بعد دل سخت اور آنکھیں  خشک ہو جاتی ہیں ۔ان حالات میں  ’’تم ہار کے دل اپنا مری جیت امر کر دو‘‘کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ گیت زندگی کا نغمہ بھی ہے اور تہذیب کا بھی، اسے خطرہ اس سیاست سے ہے جس کے مرکز میں  انسانی اقدار نہیں  ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK