• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

لال قلعہ کار دھماکہ: میٹا نےعمر نبی کا وائرل ویڈیو اپنے تمام پلیٹ فارم سے ہٹادیا

Updated: November 19, 2025, 10:14 PM IST | New Delhi

حکومت کی ہدایت کے بعد میٹا نے عمر نبی کا وائرل ویڈیو اپنے تمام پلیٹ فارم سے ہٹادیا، یہ ویڈیو ایک فون میں ملاتھا جسے عمر نے اپنے پلوامہ کے گھر میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس چھوڑا تھا۔

A scene after the Red Fort blast. Photo: INN
لال قلعہ دھماکے کے بعد کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این

حکومت کی ہدایت کے بعد میٹا نے عمر نبی کا وائرل ویڈیو اپنے تمام پلیٹ فارم سے ہٹادیا، یہ ویڈیو ایک فون میں ملاتھا جسے عمر نے اپنے پلوامہ کے گھر میں اپنے چھوٹے بھائی کے پاس چھوڑا تھا۔ اس کے بھائی نے پولیس کے خوف سے فون کو ایک تالاب میں پھینکنے کی کوشش کی لیکن بعد ازاں اس نے یہ فون ایجنسیوں کے حوالے کر دیا۔عمر کا یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا اور وائرل ہو گیا۔تاہم حکومت ہند کی ہدایت کے بعد مارک زکربرگ کی کمپنی میٹا نےاس ویڈیو کو اپنے تمام پلیٹ فارم سے ہٹا دیا ہے، جبکہ کمپنی نے اس کی وجہ شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی بتائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: لال قلعہ کار دھماکہ: مرکزی وزارتِ اطلاعات کی نجی ٹی وی چینلز کو سخت ایڈوائزری

واضح رہے کہ عمر نبی کشمیر کا رہنے والا ایک ڈاکٹر تھا جو ہریانہ کے شہر فرید آباد میں الفلاح یونیورسٹی میں کام کرتا تھا ۔ یہ ویڈیواس نے اپنے فون سے ریکارڈ کی تھی۔ دہلی کے لال قلعہ کے قریب ہونے والے کار دھماکے میں۱۰؍ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ ویڈیو میں عمر نے خودکش حملوں کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔انٹیلی جنس اہلکاروں نے بتایا کہ یہ ویڈیو درحقیقت دہشت گرد تنظیموں اور ان کے حامیوں کی جانب سے نئے بھرتی ہونے والوں کے سامنے پیش کی جانے والی ایک ایسی دلیل تھی جو ان کے مذہبی احکامات (خودکشی کی ممانعت) اور دہشت گردی کے درمیان موجود تضاد کو ختم کرتی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: حیدر آباد: عمرہ حادثہ کے تمام ۴۵؍ متاثرین کی جنت البقیع میں ہی تدفین ہو گی

محققین کو یہ ویڈیو جیش محمد دہشت گرد گروپ کی تحقیقات کے دوران ملی تھی۔عمر نے یہ فون اپنے چھوٹے بھائی کے حوالے کیا تھا، جسے لال قلعہ دھماکے کی رات ہی جموں و کشمیر پولیس نے پلوامہ کے اس کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔پولیس کا کہنا تھا کہ عمر کا چھوٹا بھائی انہیں ایک نالے کے پاس لے گیا، جہاں اس نے فون پھینکا تھا اور کافی کوشش کے بعد فون برآمد کر لیا گیا۔فون کے برآمد ہونے کے بعد اسے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ کم از کم چار ویڈیوز برآمد ہوئیں، جن میں سے ایک وہ ہے جو عوامی سطح پر گردش کر رہی ہے۔ ان ویڈیوز کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) اور اسٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
محققین کے مطابق، عمر کے ساتھیوں نے انہیں بتایا کہ وہ گروپ کا سب سے زیادہ شدت پسند رکن تھا اور اکثر خودکش دھماکوں کے بارے میں بات کرتا تھا۔عمر کے علاوہ، اس دہشت گرد گروپ کے دیگر اراکین میں الفلاح یونیورسٹی کے ان کے ساتھی ڈاکٹر مزمل احمد گنائی، لکھنؤ کے ڈاکٹر شاہین شاہد انصاری اور سہارن پور کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر عدیل مجید شامل تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK