• Wed, 31 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فسطائیت کی صدی بالآخر ختم ہوئی

Updated: December 30, 2025, 1:55 PM IST | Sohail Waheed | mumbai

بینت مسولینی ۹؍ نومبر۱۹۲۱ء کو اٹلی میں ’قومی فاشسٹ پارٹی‘کی بنیاد رکھ کرفسطائیت کا بانی بنا تھا۔ ۱۹۲۲ء میں ’روم پر مارچ‘ کے بعد وہ اٹلی کا وزیر اعظم بنا اور ۱۹۲۵ء میں اس نے اٹلی کے آئین کو رد کر دیا اور خود کو ’ڈکٹیٹر‘ مقرر کر کے حکومت سنبھال لی، اُس نے فسطائیت کو اس صدی کا رہنما اصول بتایاجو جمہوری نظریات کی مخالف ہے۔

INN
آئی این این
سو  سال ہوگئے۔ بدنام زمانہ نازی رہنما اڈولف ہٹلر کی سوانح تصنیف ’مین کیمف‘ ۱۹۲۵ء میں   ہی شائع ہوئی جس میں   اس نے اپنے سیاسی نظریے اور جرمنی کیلئے منصوبوں   کا ذکر کیا ہے۔ یہ وہی سال تھا جس میں   اٹلی کے فسطائی لیڈر مسولنی نے اپنے آمر ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ہندوستان میں   اس سال کو سب سے زیادہ ’آر ایس ایس‘ کے سو سال پورے ہونے اور اس کی صد سالہ تقریبات کیلئے شہرت ملی۔ آر ایس ایس کے قیام کے بعد اسی سال کے آخر میں   کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی وجود میں   آئی تھی۔ آر ایس ایس کی داغ بیل ۲۷؍ ستمبر ۱۹۲۵ءکو پڑی تو کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد ۲۶؍دسمبر ۱۹۲۵ء کو رکھی گئی۔ اسے حسن اتفاق کی بجائے قدرت کا نظام کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان دونوں   تنظیموں   میں   قدرِ مشترک باہم مخالف نظریاتی نقطہ ٔ نگاہ ہے۔ آر ایس ایس دائیں   بازو کی سیاسی نرسری کے طور پر اپنی تکمیل کا شہرہ حاصل کر چکی ہے تو کمیونسٹ پارٹی بائیں   بازو کے افکار کی پابند ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی داغ بیل در اصل ۱۷؍  اکتوبر ۱۹۲۰ء کو تاشقند میں   کمیونسٹ انٹرنیشنل کی دوسری کانگریس میں   پڑ گئی تھی۔ بعد میں  ۲۶؍ دسمبر۱۹۲۵ء کو کانپور میں   پارٹی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ مشہور شاعر حسرت موہانی، ایم این رائے، ابانی مکھرجی، محمد علی، محمد شفیق صدیقی ، رفیق احمد، شوکت عثمانی، بی ٹی آچاریہ، مظفر احمد، ایس اے ڈانگے اور سلطان احمد جیسے لوگ اس کے بانیوں   میں   شامل تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے کئی حصے ہوئے، جن میں   ایک سی پی آئی مارکسی تھی جس نے مغربی بنگال سمیت ہندوستان کی آدھا درجن ریاستوں   میں   اپنی حکومتیں   قائم کیں  ، کیرالہ میں   اب بھی اسی کی حکومت ہے۔ ہندوستان میں  حکومت بنانے اور چلانے سے زیادہ کمیونسٹ پارٹی ایک تحریک کی حیثیت سے زیادہ فعال تھی۔ دوسری تمام زبانوں   سے زیادہ اردو ادب اس سے متاثر رہا اور تقریباً پوری اردو نثر اور زیادہ تر شاعری ترقی پسندی کے ارد گرد ہی رہی۔ یہی نہیں    شمالی ہندوستان کا دانشور طبقہ کمیونسٹ تحریک کے زیرِ اثر پروان چڑھا۔ کمیونسٹ تحریک نے عالمی شہرت یافتہ عرفان حبیب، رومیلا تھاپر، بپن چندرا جیسے مؤرخین دئیے۔ سیکڑوں   سیاستداں   اور نوبل انعام سے سرفراز امرتیہ سین اور ابھیجیت بنرجی جیسے ماہر اقتصادیات دئیے۔ سائنسی ایجادات کے موجدوں   میں   بھی بائیں   بازو کے حامی زیادہ نظر آتے ہیں  ۔ بائیں   بازو کی تحریک کے برخلاف آر ایس ایس کو دیر سے کامیابی ملی۔ اس کی سیاسی تنظیم ۱۹۵۱ء میں   ’جن سنگھ‘کی شکل میں   سامنے آئی جو۱۹۷۷ء میں   جنتا پارٹی میں   ضم ہو گئی۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کہتے ہیں   کہ ان کی تنظیم سیاسی نہیں   ہے اور اسے بی جے پی کے چشمے سے نہیں   دیکھنا چاہیے، لیکن بی جے پی میں   ایک تنظیمی سکریٹری کا عہدہ مرکزی اور ریاستی سطح کا آر ایس ایس کے لیے محفوظ رہتا ہے، وہی پارٹی کی کمان سنبھالتا ہے۔ 
۱۹۸۰ء جن سنگھ نے ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے نئے نام سے سیاست شروع کی۔ حکومتوں   کے بننے بگڑنے کا کھیل چلتا رہا اور مکمل کامیابی ۲۰۱۴ءمیں   ملی، تب سے اب تک وہ ملک کی کامیاب سیاسی جماعت کے طور پر سامنے ہے جس کی مرکز سمیت ۱۴؍ ریاستوں   میں   اپنی حکومتیں   ہیں   اور چھ جگہ سیاسی اتحاد میں   وہ حصہ دار ہے۔ آر ایس ایس کو قدیم ہندوستانی اقدار پسند ہیں  ، اس کے نظریات ہندو دیومالا کے سنہرے عہد سے آراستہ ہیں  ۔ آر ایس ایس سربراہ اب کھلے عام وہ بیانات دیتے ہیں   جو اقلیتی طبقوں   اور اس تنظیم کے اصول ونظریات سے اتفاق نہ رکھنے والوں   کی دل آزاری کرتے ہیں  ، لیکن بعد میں   موہن بھاگوت بار بار یہ وضاحت بھی کرتے ہیں   کہ آر ایس ایس مسلمانوں   کے خلاف نہیں   ہے۔ ہندوستان سے حقیقی محبت کے دعوے کے ساتھ یہ تنظیم صرف ہندو مذہبی عقیدے کے لوگوں   کے ذہنی سکون کے لئے سرگرداں   نظر آتی ہے۔
بینت مسولینی ۹؍ نومبر۱۹۲۱ء کو اٹلی میں   ’قومی فاشسٹ پارٹی‘ کی بنیاد رکھ کرفسطائیت کا بانی بنا تھا۔ ۱۹۲۲ء میں   ’روم پر مارچ‘ کے بعد وہ اٹلی کا وزیر اعظم بنا اور ۱۹۲۵ء میں   اس نے اٹلی کے آئین کو رد کر دیا اور خود کو ’ڈکٹیٹر‘ مقرر کر کے خود حکومت سنبھالی۔ مسولینی نے فسطائیت کو اس صدی کا رہنما اصول بتایا۔ ’فسطائیت جمہوری نظریات کی سخت مخالف ہے، اصولاً اور عملاً  اس کی تردید کرتی ہے۔ فسطائیت اس سے انکار کرتی ہے کہ انسانی اعداد کی بنا پر قوموں   کی شخصی رہبری کی جا سکتی ہے۔‘ مسولینی نے ہی جمہوریت کو قدیم روایت بتاتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ ہٹلر سے مل کر دوسری عالمی جنگ شروع کر دی۔
دوسری عالمی جنگ میں   شامل ایک امریکی فوجی گے آرگ لائٹمن ابھی زندہ ہیں  ۔ مئی ۲۰۲۵ء میں   ۱۰۰؍ برس پورے کرنے والے گے آرگ لائٹمن کہتے ہیں   کہ دوسری عالمی جنگ نے انہیں   پورے طور سے بدل دیا۔ جنگ اتنی وحشت ناک تھی کہ انسانیت پر ہی شک ہونے لگتا ہے، خود پر بھی بھروسہ مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جنگ جس میں   چھ کروڑ سے زیادہ لوگوں   کی جان گئی تھی، اس کی ذمہ داری کسی نے نہیں   لی، تب ان لوگوں   نے فسطائی نظریات کا حامی ہونے سے بھی انکار کیا  تھا جنہوں   نے جنگ چھیڑی تھی۔ فسطائیت ایک اصولی نظریہ ہے جس کی شروعات انسانوں   کو ’لائق‘ اور ’نالائق‘ یا ’مناسب‘ اور ’نامناسب‘لوگوں   میں   بانٹنے سے ہوئی اور جس کا انجام اجتماعی قتل عام سے ہوا۔ اسی میں   وہ ہولوکاسٹ بھی ہوا جس میں   ۱۵؍ لاکھ بچوں   کا بےدردی سے قتل کیا گیا۔ گے آرگ لائٹمن برکلے کے ہی ایک بزرگوں   کے آشرم میں   رہ رہے ہیں  ، وہ کہتے ہیں   ’میں   اکثر خود سے پوچھتا ہوں  ، جرمن جیسے تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں   نے اتنے کم وقت میں   اتنا خوفناک کام کیسے کر لیا۔‘
باعث تشویش بات یہ ہے کہ آسٹریلیاکے مؤرخ ، فلوریان وینگر نے کہا ہے کہ ’طاقت‘ کا اقتدار یعنی فسطائیت کا سایہ پھر سے لوٹ رہا ہے۔ ہندوستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ مختلف ہو سکتا تھا اگر یہاں   کمیونسٹ تحریک کمزور نہ پڑتی۔ تیس برس بھی نہیں   ہوئے ہیں   جب شمالی ہند کے چھوٹے بڑے ہرشہر میں   چالیس پچاس ترقی پسند ادیب، شاعر اور دانشور ہوتے تھے اور نوجوانوں   کی تہذیبی تربیت کرتے تھے۔ جب تک یہ پیڑھی سلامت رہی، فرقہ پرستوں   کو پر پرزے پھیلانے کا حوصلہ نہیں   ہوا۔ ترقی پسندوں   کو ملحد اور کافر کہہ کر ان کے خلاف منظم تحریک چلائی گئی۔ نتیجہ سامنے ہے۔ آج فسطائی طاقتوں   سے نجات کیلئے سیاسی پارٹیوں   سے فقیرانہ امید لگائی جا رہی ہے۔ بہرکیف وہ صدی ختم ہوئی جس کی ابتداء فسطائیت سے ہوئی تھی۔ اگلا نیاسال، نئی امیدوں   کے خیرمقدم کا سال ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK