• Tue, 25 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بچہ مزدوری پر ملک میں قانون تو ہے لیکن نفاذ نہیں

Updated: November 25, 2025, 2:06 PM IST | Derek O`Brien | mumbai

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق، ’’بچہ مزدوری غربت کا ایک سبب بھی ہے اور نتیجہ بھی۔‘‘ گھریلو غربت بچوں کو پیسے کمانے کیلئےمزدوری میں دھکیل دیتی ہے۔

INN
آئی این این
پارلیمنٹ میں سوالات پوچھنے یا تقریریں  کرنے سے بہت پہلے، میں  نے ۸؍ سال اشتہارات کے شعبے میں  کام کیا ہے۔ ایک ایسی ایجنسی میں  جسے ہم بصداشتیاق ’ اوگلوی یونیورسٹی‘ کہتے تھے ۔ ان ۸؍ برسوں کے سب سے یادگار چار دن وہ تھے جب ایک جونیئر کاپی رائٹر کے طور پر میں  اشتہارات کی دنیا کے بابا آدم ڈیوڈ اوگلوی کے ساتھ رہا،اس وقت جب وہ ہندوستان آئے تھے ۔ اوگلوی کے زریں  اقوال میں سے میرا پسندیدہ یہ تھا: ’’سادہ آئیڈیاز ہی عام طورپر بڑے آئیڈیا ز ہوتے ہیں ۔‘‘
حالانکہ اب میں  سیاست کی پیچیدہ راہوں  سے گزررہا ہوں  لیکن مارکیٹنگ اور کمیونی کیشن اب بھی میرے پسندیدہ مضامین ہیں ۔ امسال یوم مزدور پر ایک شاندار اشتہار ’پرنٹ‘ میں  شائع ہوا تھا۔ یہ اشتہار ’اوگلوی انڈیا‘ نے بنایا تھا۔انتہائی دلچسپ اور متوجہ کرنے والی سرخی تھی، ’’ اس یوم مزدور،۷ء۸؍ملین مزدوروں  کو فارغ کر دیا جائے‘، اور پھر تعارفی اقتباس میں  جولکھا تھا وہ سب کچھ واضح کردینے والا تھا ،’’۳۵ء۶؍ملین بے روزگار نوجوانوں  والے ملک میں ۷ء۸؍ ملین بچے مزدوری (چائلڈ لیبر) کر رہے ہیں ، نوجوانوں  کو کام کرنے دیں  اور بچوں  کو اسکول جانے دیں ‘‘۔ یہ ایک بڑا آئیڈیاہے لیکن اسے بالکل سادہ انداز میں پیش کیاگیا ہے۔آج بچہ مزدوری کی حقیقت بھیانک شکل اختیار کرچکی ہے۔
مرکزی حکومت کے متواتر لیبر فورس سروے ۱۹-۲۰۱۸ء کے اقوام متحدہ کے بچوں  کے فنڈ سے متعلق ادارے یونیسیف کے ذریعے تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہندوستان میں  چائلڈ لیبر میں  بچوں  کی تعداد ۱۸؍ لاکھ سے ۳۳؍ لاکھ تک ہے ۔ مزدوری کرنے والے بچوں  میں  سے تقریباً نصف اپنے ہی خاندان میں  کام کرتے ہیں  ۔ زراعت کے شعبے سے بھی بچوں  کی بڑی تعداد وابستہ ہے ۔ اس کے بعد صنعتی شعبہ میں  بھی بڑی تعداد بچوں  کی ہےجس میں  مینوفیکچرنگ اور تعمیرات شامل ہیں ۔
مزدوری کی بدترین شکلیں : چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ نقصان دہ شکلوں  میں  خطرناک صنعتوں  یا پیشوں  میں  بچوں  کا کام شامل ہے۔مختلف پسماندہ ذات اورطبقات کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچوں  کے ساتھ ساتھ غریب گھرانوں  کے بچوں  کے خطرناک کاموں  میں  ملوث ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ بالخصوص فیکٹریوں میں  آجروں  کی طرف سے بدسلوکی بڑے پیمانے پر رپورٹ کی جاتی ہے۔ اس میں  جسمانی اور زبانی بدسلوکی، کم اجرت اور حادثات ہونے کی صورت میں  صحت کی خدمات تک رسائی کا فقدان شامل ہے۔ غیرمناسب حفظان صحت ، صاف صفائی اور صاف پانی کی کمی کے سبب بچےمتعدی بیماریوں  کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں ۔ ایسی فیکٹریوں  اورصنعتوں  میں  کام کرنا جہاں  کی فضا آلودہ اور زہریلی ہوتی ہے ، بعض اوقات بچوں  میں  ایسی بیماریوں  کا بھی سبب بن سکتا ہے جولا علاج ہوں ۔چائلڈ لیبر کی بدترین شکلوں  سے نمٹنے کے لئے جن شعبوں  پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ان میں  ماچس اور آتش بازی، شیشے اور چمڑے کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ اینٹوں  کے بھٹوں ، کوئلے کی کانوں  اور تعمیرات کا شعبہ شامل ہے۔
چائلڈ لیبر اور غربت: انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق، ’’بچہ مزدوری غربت کا ایک سبب بھی ہے اور نتیجہ بھی۔‘‘ گھریلو غربت بچوں  کو پیسے کمانے کیلئےمزدوری میں  دھکیل دیتی ہے۔ کچھ خاندان کی آمدنی کو سہارا دینے کیلئے کام کرتے ہیں  ، جب کہ بہت سے دوسرے صرف زندہ رہنے کیلئے ایسا کرنے پر مجبور ہیں ۔ اسے اس حقیقت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں وہ بچے جن کا بچپن ضائع ہوچکا ہے، ایسے ہر دومیں  سے ایک بچہ ہندوستان میں  رہتا ہے۔ یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کا قد کے لحاظ سے وزن کم ہوتا ہے۔
حکومتی بے حسی : دو سال پہلے، راقم نے پارلیمنٹ میں  وزارت برائے بہبود خواتین واطفال سے دو حصوں  پر مشتمل ایک سوال پوچھا تھا:(الف) ۵؍سے۱۴؍ سال کی عمر کے زمرے میں  کام کرنے والے بچوں  کی تعداد کتنی ہے ؟ اور (ب) دیہی اور شہری کام کرنے والے بچوں  کی تعداد صنفی لحاظ سے کتنی ہے؟ وزیر نے پہلے حصے کا جواب دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ۲۰۲۱ء میں  چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ لیبر ( امتناع وانضباط) ایکٹ ۱۹۸۶ءکے تحت ۶۱۳؍مقدمات درج ہوئے تھے، لیکن ، سوال کے دوسرے حصہ کاجواب نہیں  دیا گیا ۔ آخری مردم شماری۱۴؍ سال قبل ۲۰۱۱ء میں  کی گئی تھی۔۲۰۲۱ء کی مردم شماری بظاہر ابھی تک سر د خانے میں  ہے ، اس لیے یہ جاننا ناممکن ہے کہ ملک میں  کتنے بچے مزدور ہیں  اور حقیقت یہ ہےکہ مسئلے کی شدت کو سمجھے بغیر، بامعنی حل تلاش کرنا مشکل ہے۔
سخت نفاذ کی ضرورت: آئین ہند کا آرٹیکل ۲۴؍ ۱۴؍ سال سے کم عمر بچوں کو کسی بھی فیکٹری، کان کنی یا کسی دوسرے خطرناک شعبے میں کام کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔ چائلڈ لیبر ( امتناع وانضباط) ترمیمی ایکٹ ۲۰۱۶ء نے مزدوری اورکام کرنے کے حالات کو زیادہ واضح طور پر بیان کیا ہے۔ مسئلہ قانون کا نہیں ، نفاذ کا ہے۔ گزشتہ سال مدھیہ پردیش میں  ایک شراب کے کارخانے سے۲۰؍ لڑکیوں  سمیت۵۸؍بچوں  کو بچایا گیا تھا ۔ انہیں  روزانہ۱۱؍ گھنٹے کی شفٹوں  میں  کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ مشکل سے اجرت ملتی تھی اور کیمیائی مادوں  سے ان کی ہتھیلیاں  جل جاتی تھیں ۔
۲۰۱۲ء میں ، نیویارک میں  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۶۷؍ ویں  اجلاس میں  ہندوستانی وفد کے حصہ کے طور پر، میں  نے’بچوں  کے حقوق کے فروغ اور تحفظ‘ سے متعلق ایک بیان دیا تھا۔ یہاں  وہ بیان کیاجاتا ہے:’’بچہ مزدوری کا خاتمہ حکومت ہند کی ترجیح ہے۔ ہم ۱۴؍ سال سے کم عمر کے بچوں  کی ملازمت پر پابندی کو سختی سے نافذ کر رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی، اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اس مسئلے کو اس کے سماجی و اقتصادی پس منظر سے الگ نہیں  کیا جا سکتا، ہم تعلیم ، صحت اور معیاری تغذیہ تک (بچوں  کی) رسائی کو بہتر بنانے کے اقدامات بھی نافذ کر رہے ہیں ۔۱۳؍ سال بعد، ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK