۷؍اکتوبر کے واقعہ کے بعد درجنوں ممالک نے اسرائیل کیساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تھا ۔ پہلگام پر حملہ کے بعد کیا دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی یہ اعلان کیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہے؟
EPAPER
Updated: May 28, 2025, 3:16 PM IST | Pervez Hafeez | Mumbai
۷؍اکتوبر کے واقعہ کے بعد درجنوں ممالک نے اسرائیل کیساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تھا ۔ پہلگام پر حملہ کے بعد کیا دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی یہ اعلان کیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہے؟
۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں اسرائیل پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے چند گھنٹوں کے اندر امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا اور درجنوں ممالک نے نہ صرف حماس کی اس حرکت کی سخت مذمت کی بلکہ اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کردیا۔ حماس کو ٹھکانے لگانے کے بہانے جب بنجامن نیتن یاہو کی صہیونی فوج نے غزہ پٹی کے نہتے شہریوں جن میں معصوم بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی کا قتل عام شروع کردیا تو مغربی ممالک نے اس قتل عام کو بھی یہ کہہ کر جائز ٹھہرایا کہ’’ اسرائیل کو اپنے دفاع کو پورا حق ہے۔‘‘
۷؍مئی ۲۰۲۵ء کو جب ہندوستانی فوج نے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں واقع دہشت گرد اڈوں پر بمباریاں کیں تو کیادنیا کے کسی ملک نے کہا کہ بھارت نے جو کیا ٹھیک کیا؟ ۲۲؍اپریل کو پہلگام کی سر سبز وادیوں میں پاکستانی دہشت گردوں نے جب ۲۵؍بے گناہ سیاحوں اور ایک جیالے کشمیری گائیڈ کو موت کے گھاٹ اتاردیا تو کیا دنیا کے کسی ملک نے کھل کر ہندوستان کی حمایت کا اعلان کیا؟ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک نے دہشت گردی کی مذمت تو کی لیکن کسی نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس غیر انسانی جرم کے ارتکاب کے لئے پاکستان کی مذمت نہیں کی۔ اور تو اور ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے سبھی نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کو صبر و ضبط سے کام لینے کا مشورہ دے دیا۔ سوائے اسرائیل کے کیا کسی اور ملک نے آپریشن سیندور کی تعریف کی اور اسے پاکستان کی ناجائزکارستانی کے جواب میں ہمارا جائز ردعمل قرار دیا؟ چار روزہ جنگ کے دوران ترکی اور آذربائیجان جیسے ممالک نے کھل کر پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ دنیا کے ۱۹۳؍ ممالک میں سے کیا کسی ایک چھوٹے سے ملک مثلاً نیپال نے بھی یہ اعلان کیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ کھڑا ہے؟ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور پانچویں بڑی معیشت ہیں؛ہم امریکہ اور مغرب کی آنکھوں کا تارا ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے۔یہ وہی سرزمین ہے جہاں اسامہ بن لادن ایک طویل عرصے تک چھپا رہا تھا۔ پاکستان کا ایسا منفی امیج ہونے کے باوجود کسی مغربی ملک نے اسے معتوب کیوں نہیں ٹھہرایا؟ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک میں ہندوستان کا اثر و رسوخ بے پناہ بڑھا ہے تو پھر کسی بھی ایشیائی یا افریقی ملک نے پاکستان کی بزدلانہ حرکت کے خلاف ہمارے مشن سیندور کی حمایت کا اعلان کیوں نہیں کیا؟
وزیر اعظم نریندر مودی پچھلے۱۱؍ برسوں میں تقریباً۸۰؍سے زیادہ غیر ملکی دورے کرچکے ہیں۔ بی جے پی اور مودی بھکت یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ مودی جی نے اقوام عالم میں بھارت کا وقار اور دبدبہ بڑھایاہے۔ دنیا کے تمام اہم لیڈروں اور خصوصاً امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ مودی جی کے ذاتی مراسم ہونے کے دعوے بھی ہم تواتر سے سنتے آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی مودی جی کی سیاسی بصیرت، سفارتی قابلیت اور ذاتی کرشمہ کی وجہ سے ساری دنیا میں بھارت کا ڈنکا بج رہا ہے تو حالیہ جنگ میں اس کی گونج کیوں نہیں سنائی دی؟ ہماری خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کی کامیابی تب سمجھی جاتی جب کسی ایک ملک نے بھی اپنے سربراہ کو نئی دہلی بھیج کر ہمارے موقف کی حمایت اور ہمارے کاز کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا ہوتا۔
اس وقت ہندوستان کے ۵۰؍ سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ اور سابق سفارتکار دنیا کے مختلف ممالک میں گھوم گھوم کر پاکستان کو بے نقاب اور آپریشن سیندور کی کامیابی کی تفصیل سے باخبر کررہے ہیں۔ کانگریس لیڈر جے رام رمیش کے مطابق ہندوستان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہے اور غیر ممالک میں ہندوستانی وفود بھیجنے کا فیصلہ مودی حکومت کی damage control کی کوشش ہے۔
امریکی اسکالر C. Christine Fair کا خیال ہے کہ بھارت کو اگر اپنے حق میں عالمی بیانیہ تشکیل دینا تھا تواسے نمائندوں کے وفود کو فوجی آپریشن سے قبل بھیجنا چاہئے تھا۔ اسلام آباد اگر اپنے لیڈروں کو غیر ملکوں کی راجدھانیوں میں بھیج کر’’ بھارت کی جارحیت‘‘ کا دکھڑا روئے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہم ایشیا کی سب سے بڑی دو طاقتوں میں سے ایک ہیں۔ دنیا سے ہمدردی کے طلب گار بن کر کیا ہم اپنی کمزوری کا اعتراف نہیں کررہے ہیں؟
چلیں فرض کرلیتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے ہندوستانی نمائندوں کو بھیجنا ضروری تھا لیکن کیا ہم نے یہ سوچا ہے کہ بات صرف پاکستانی کی شر انگیزی اور دہشت گردی اور ہندوستان کی عسکری کامیابی تک محدود نہیں رہے گی۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔کیا کشمیر ایک بار پھر دنیا بھر میں موضوع سخن نہیں بن جائے گا؟ کیایہ بات ہمیں کسی قیمت پر منظور ہوگی؟
ہم دراصل ایک کنفیوژڈ قوم ہیں۔ جب بین الاقوامی ادارے ہماری جمہوریت اور پریس کی آزادی کی پامالی پر تنقید کرتے ہیں اور جب امریکی حکومت ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہورہے مظالم کے لئے ہماری سرزنش کرتی ہے تو ہم ان کے مشاہدات کو جانبدارانہ اور متعصبانہ قرار دے کر انہیں مسترد کردیتے ہیں۔اور اگرنیو یارک ٹائمز یا دی اکانومسٹ میں ہندوستان کو تیزی سے بڑھتی معیشت قرار دیا جاتا ہے تو ہم جشن منانے لگتے ہیں۔اسی لئے ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا ہمیں بین الاقوامی رائے کی پروا ہے یا نہیں ہے۔ سینئر صحافی شیکھر گپتا نے صحیح کہا ہے کہ اگر ہمیں اس کی پروا نہیں ہے تو پھر ہمیں عوام کے پیسوں پر ایم پیز کو غیر ممالک میں چھٹیاں منانے کے لئے بھیج کر یہ’’ تماشہ‘‘کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان ایک خود مختار د اور طاقتور ملک ہے اورہم آتم نربھر قوم ہیں۔ ہمیں کسی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے قرضے یا کسی عرب ملک سے امداد کے لئے لائن میں لگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہیں جس کے پاس ہزاروں سال قدیم ثقافتی اور تہذیبی وراثت ہے۔ ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت اور اپنے شہریوں کے تحفظ کا پورا اختیار ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ پاکستانی ملٹری ہندوستان کو کمزورکرنے کے لئے دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ لیکن ہمارے جانبازوں نے اس بار مریدکے اور بہاول پور میں دہشت گردٹھکانوں کو تباہ کرکے اور ایک سو دہشت گردوں کو ٹھکانے لگاکراسے درست سبق سکھا دیا ہے۔ پاکستان کو ہمارا پیغام یہ ہے کہ مستقبل میں اس کے ہر پراکسی وار کا جواب بھارت وار سے دے گا۔ اسی لئے مجھے یہ بات ناقابل فہم لگتی ہے کہ ہمیں گھوم گھوم کر دنیا کو اپنے اس موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے؟یہ ہماری جنگ ہے اور اسے ہمیں خود ہی لڑنا ہے۔