• Sun, 16 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عالمی جدولوں میں ہم کہاں تھے، اب کہاں ہیں!

Updated: November 16, 2025, 1:58 PM IST | Aakar Patel | mumbai

گلوبل انڈیکسوں کا اہمیت کم نہیں۔ ان کا ڈیٹا جب پوری دُنیا میں مشتہر ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے الگ الگ ملکوں کی شبیہ بہتر یا خراب ہوتی ہے۔ جیسا رینک ویسی شبیہ۔ ہم نے اس محاذ پر کافی کچھ گنوایا ہے

INN
آئی این این
چند سال پہلے نیتی آیوگ نے کہا تھا کہ وہ ایک ایسا ڈیش بورڈبنائے گا جس میں  ہندوستان کو مختلف موضوعات پر درجہ، مقام (رینک) دینے والے عالمی جدولوں  کی تفصیل ہوگی۔ ابتداء میں  یہ تعداد ۲۹؍ بتائی گئی تھی۔ پھر کہا گیا کہ ۳۲؍ جدول ہوں  گے۔ اِس ڈیش بورڈ کا مقصد ’’صرف درجہ بندی کو بہتر بنانا نہیں  تھا بلکہ نظام (سسٹم) کو درست کرنا اور اصلاح کرنا تھا جس سے جدول پر اچھا مقام ملتا ہے، سرمایہ کاری کی ترغیب ہوتی ہے اور عالمی شبیہ تقویت پاتی ہے۔
یہ نہیں  ہوا۔ خواہ جو بھی وجہ رہی ہو لیکن یہ کام ایسا نہیں  ہے جو ہم خود نہ کرپائیں ۔ اپنی نئی کتاب کیلئے مَیں  نے چار درجن عالمی جدولوں  کا جائزہ لیا۔ مقصد موازنہ کرنا تھا کہ ان جدولوں  پر ہندوستان ۲۰۱۴ء میں  کہاں  تھا اور اب کہاں  ہے۔ مَیں  وقتاً فوقتاً اس ڈیٹا کا جائزہ لیتارہتا ہوں  اور یہ ضروری بھی ہے۔ اس مضمون میں  مختلف جدولوں  پر ہندوستان کی درجہ بندی ہی سے بحث مقصود ہے۔
جدول برائے انسانی ترقیات (ہیومن یولپمنٹ اِنڈیکس) میں  ۲۰۱۴ءمیں  ہندوستان ۱۳۰؍ ویں  مقام پر تھا،آج بھی اس میں  کوئی بہتری نہیں  آئی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ ’’معاشی عدم مساوات ہندوستان کے انسانی ترقیاتی جدول کو اس طرح متاثر کرتی ہے کہ اس کی وجہ سے ۳۰ء۷۰؍ فیصد پوائنٹس متاثر ہوتے ہیں ۔ اِس خطے کا کوئی اور ملک اس کی وجہ سے اتنا متاثر نہیں  ہوا۔ اس دوران صحت اور تعلیم کی عدم مساوات تو کم ہوئی ہے لیکن آمدنی اور صنفی امتیازات اب بھی ویسے ہی ہیں ۔ اسی طرح ملازمتوں  اور سیاسی معاملات میں  خواتین کی نمائندگی کم ہے۔ 
’’سویکس مانیٹر‘‘ نے شہری اُمور (سویک اسپیس) میں  ہندوستان کو ’’رکاوٹ ڈالنے والے ملکوں ‘‘ میں  سے نکال کر ’’حوصلہ شکنی کرنے والے (یا،دبائے گئے) ملکوں ‘‘ میں  شامل کیا ہے۔ یہ درجہ عموماً اُن ملکوں  کو دیا جاتا ہے جہاں  شہری اُمور میں  حاصل آزادی کو محدود کیا جاتا ہے اور جہاں حکام قانونی اور عملی رکاوٹیں  ڈال کر شہریوں  کو اُن کے بنیادی حقوق کے بھرپور استعمال کا موقع دینے میں  تامل یا ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں ۔
لیوی انسٹی ٹیوٹ ایشیاء پاور انڈیکس کسی ملک کے ہارڈ پاور کی پیمائش کرتا ہے یعنی اس کا کتنا جی ڈی پی ہے،فی کس جی ڈی پی کتنا ہے، روزگار کی شرح کیا ہے وغیرہ۔ اس انڈیکس میں  ہندوستان کا اسکور ۵ء۴۱؍ سے گر کر ۱ء۳۹؍پر آگیا جس کے سبب اس نے اپنی `بڑی طاقت کی حیثیت گنوا دی۔ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ’’بھارت اپنے دستیاب وسائل کے پیش نظر خطے میں  توقع سے کم اثر و رسوخ رکھتا ہے، جیسا کہ ملک کے منفی پاور گیپ اسکور سے ظاہر ہوتا ہے۔ ۲۰۲۴ء میں  اس کا منفی پاور گیپ ایشیا پاور انڈیکس کے آغاز کے بعد سے سب سے بڑا تھا۔‘‘
فریڈم ہاؤس کی فریڈم انڈیکس میں  قانون کی حکمرانی، سیاسی تکثیریت، انتخابات، حکومت کے کام کاج، شہری آزادی وغیرہ کو آنکا  جاتا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں  ہندوستان کو ۷۷؍ واں  مقام ملا اور اس کی درجہ بندی ’’آزاد‘‘ ملک کے طور پر ہوئی تھی۔ ۲۰۲۵ء میں  یہ گھٹ کر ۶۳؍ ویں  مقام پر آگیا اورریمارک میں  اسے ’’جزوی آزاد‘‘ کردیا گیا (جب پہلی بار ایسا ہوا تھا تب حکومت کافی برہم تھی لیکن بعد میں  اس نے ایسی رپورٹس پر تبصرہ کرنا ترک کردیا)۔
اقوام متحدہ کی پائیدار ترقی کے حل (سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ سولیوشنز ) کا نیٹ ورک، ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ فی کس جی ڈی پی، سماجی مدد، صحت مند زندگی کی توقع، اسلوب حیات کے انتخاب کی آزادی، سخاوت، بدعنوانی کے تصورات اور عوام کی پریشاں  حالی پر نگاہ رکھتی ہے۔ اس جدول میں  ہندوستان ۲۰۱۴ء میں  ۱۱۱؍ ویں  مقام پر تھا، اب ۱۱۸؍ پر آ گیا ہے۔
’’رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز‘‘ (آر ایس ایف) پر عالمی پریس فریڈم انڈیکس میں  ہندوستان ۲۰۱۴ء میں  ۱۴۰؍ ویں  مقام پر تھا مگر ۱۵۱؍ ویں  پر آگیا ہے۔ اس ادارے ، آر ایس ایف، کا کہنا ہے کہ’’صحافیوں  کے خلاف تشدد، میڈیا کے ذریعہ حکومت کی ہمنوائی اور سیاسی صف بندی کے سبب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں  پریس کی آزادی بحران کا شکار ہے۔‘‘ کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے ہیومن فریڈم انڈیکس میں  ہندوستان ۲۰۱۴ء میں  ۸۷؍ ویں  مقام پر تھا مگر پھر ۱۱۰؍ ویں  مقام پر آگیا۔ ورلڈ اکنامک فورم کے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں  ہندوستان ۲۰۱۴ءمیں  ۱۱۴؍ ویں  مقام پر تھا، اب ۱۳۱؍ ویں  پر ہے۔ اس سلسلے میں  جو وجوہات بیان کی گئیں  اُن کے مطابق ’’پارلیمنٹ میں  خواتین کی نمائندگی ۱۴ء۷؍ سے گھٹ کر ۱۳ء۸؍ فیصد ہوگئی ہے۔ علاوہ ازیں  وزارتی کونسل میں  خواتین کی نمائندگی ۶ء۵؍ فیصد سے کم ہوکر ۵ء۶؍ فیصد ہوگئی ہے۔
 
مختلف ملکوں  میں  بدعنوانی یا شفافیت کی صورت حال کیا ہے اس کا جائزہ لینے والا ادارہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہے جو ’’ گلوبل کرپشن پرسیپشن انڈیکس‘‘ تیار کرتا ہے۔ اس کے ذریعہ ہونے والی درجہ بندی کی خبر باقاعدگی سے شائع کی جاتی تھی مگر اب ایسا نہیں  ہوتا۔ ۲۰۱۴ء میں  ہندوستان ۸۵؍ ویں  نمبر پر تھا، اب ۹۶؍ ویں  پر آگیا ہے۔ اسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن نامی ادارہ عالمی معاشی آزادی (گلوبل اکنامک فریڈم انڈیکس) تیار کرتا ہے جس کے ذریعہ قانون کی حکمرانی، حکومت کا سائز، ریگولیٹری کارکردگی اور کھلی منڈی کی کیفیت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس جدول میں  ہندوستان ۲۰۱۴ء میں  ۱۲۰؍ ویں  مقام پر تھا، اب ۱۲۸؍ویں  پر ہے۔ اس صورتحال کی بابت بتایا گیا کہ’’مارکیٹ پر مبنی اصلاحات سست رفتار رہیں ۔ موثر طریقے سے کاربند قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی میں  طویل مدتی معاشی ترقی کی بنیادیں  کمزور رہتی ہیں  اور تاجروں  کو سخت چیلنجوں  کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہندوستان کا ریگولیٹری فریم ورک جو اُصولوں  اور ضابطوں  کو نافذ کرتا ہے، ناقص کارکردگی کا حامل ہے۔‘‘ وغیرہ۔
گلوبل ہنگر انڈیکس میں  ہم ۷۶؍ ممالک میں  ۵۵؍ ویں  مقام پر تھے ( ۲۰۱۴ء )، آج ۱۲۳؍ ملکوں  کے جدول میں  ۱۰۲؍ نمبر پر ہیں ۔ ابتداء میں  مرکز نے جدول تیار کرنے والوں  کا ڈیٹا ٹھیک نہ ہونے کی بات کہی، پھر انہیں  نظر اندازکیا۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ 
gdp Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK