Inquilab Logo

کیا اسرائیل اس شکست کا بدلہ لے گا؟

Updated: April 23, 2024, 1:11 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

اسرائیل نے اصفہان اور کچھ دیگرشہروں پر حملہ کیا تھا، یہ محض ایک تماشہ تھا، کہانی ابھی باقی ہے۔ وہ حملےکیلئے ابھی ماحول تیار کر رہا ہے۔ایران نے حملہ نہیں کیا تھا بلکہ جوابی حملہ کیا تھا۔ایران نے ۳۸؍گھنٹے پہلے دنیا کو یہ بتا دیاتھا کہ وہ دمشق میں سفار ت خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دے گا ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

یقیناً لے گا؟حال ہی میں  اسرائیل نے اصفہان اور کچھ دیگرشہروں  پر حملہ کیا تھا، یہ محض ایک تماشہ تھا، کہانی ابھی باقی ہے۔ وہ حملےکیلئے ابھی ماحول تیار کر رہا ہے۔ایران نے حملہ نہیں  کیا تھا بلکہ جوابی حملہ کیا تھا۔ ایران نے ۳۸؍گھنٹے پہلے دُنیا کو یہ بتا دیاتھا کہ وہ دمشق میں  سفار تخانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دے گا اور اگر اس نے ایسا کیا تووہ عالمی قوانین کےعین مطابق ہوگا۔کسی ملک میں  سفارت خانہ یا قونصل خانہ اسی ملک کاہوتا ہے جس کا وہ سفارت خانہ یا قونصل خانہ ہوتا ہے۔ اسے یوں  سمجھئے کہ جیسے پاکستان میں ہندوستان کا سفارت خانہ ہے۔ جس احاطے میں  یہ سفارت خانہ ہوتا ہے، و ہ ہندوستان ہی کا حصہ کہا جائیگا کیونکہ یہاں  پاکستان کے قوانین نہیں  چل سکتے۔ اس لئے اگر وہاں  کوئی دوسرا ملک گڑبڑ کرے گا تو وہ ہندوستان کے خلاف کارروائی سمجھی جائیگی  اور ہندوستان اس پر جوابی کارروائی کر سکتا ہے اور یہ عالمی قوانین کے مطابق ہے۔ ایران نے ایسا ہی کیاتھا۔ حملہ کرنے سے ۳۸؍ گھنٹے پہلے اس نے تمام عالمی ہوا باز کمپنیوں  سے بھی کہہ د یا تھا کہ وہ اپنے جہاز خطے سے دور رکھیں  تاکہ انہیں  کسی طرح کا نقصان نہ ہو۔
 اسرائیل نے جب سلامی قونصل میں  شکایت کرائی تو اس کا کوئی اثر نہیں  ہوا۔ ویسے بھی روس اور چین اسے ویٹو کر دیتے۔ روس تو بہرحال ایران کے ساتھ تھا، لیکن چین جو عام طور پر ایسے معاملات سے خود کو دور رکھتا ہے، وہ یوں  بھی عالمی لڑائیوں  سے ا لگ ہی رہتا ہے۔لیکن اس بار اس نے بھی ایران کا ساتھ دیا۔ اسرائیل کو حیرت اس وقت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ اس معاملے میں  امریکہ اور اس کے دوسرے اتحادی مثلاً برطانیہ، فرانس اور جرمنی بھی اس کے سا تھ نہیں  ہیں ۔ ان سب نے اسرائیل کو خاموشی سے بتا دیا کہ اگر وہ کوئی حملہ کرے گا تو ہم اس کے ساتھ نہیں  ہونگے۔ابھی ابھی یہ خبر بھی آئی ہے کہ امریکہ اسرائیل کی فوج پر کچھ پابندیاں  عائد کررہا ہے۔ اس بات کا امکان کم بلکہ بہت ہی کم ہے کہ اسرائیل ایران پر لشکری حملہ کرے گا، اس کا امکان اس لئےبھی کم ہے کہ ایران واقف ہے کہ بنجامن نیتن یاہو کی مقبولیت صرف دو فیصد رہ گئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فضائی طاقت میں  اسرائیل ایران سے بہت آگے ہے لیکن جنگ کے بہت سے محاذ ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو فوج کا تخمینہ لگائیں  تو معلوم ہوگا کہ اسرائیل میں  شہریوں  کو دو سال کی فوجی تربیت دی جاتی ہے پھر بھی اس کے فوجیوں  کی تعداد ایک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی  جبکہ ایرانی فوجوں  کی تعداد پانچ سے چھ لاکھ کے قریب ہے۔ اسرائیل کی مجموعی آبادی بھی تہران شہرکےبرابر ہوگی۔ ایران کی شہری آبادی کا اتنا بڑا ہونا بھی اسرائیل کیلئے درد سر ہے۔ اس کے علاوہ سمندری محاذ میں بھی ایران اسرائیل سے بہت آگے ہے، ایران کے پاس بہت سی آبدوز کشتیاں  ہیں ۔ ٹینکوں  کے معاملے میں  بھی ایران اسرائیل سے بہت آگے ہے۔ لیکن جنگ صرف اسلحہ  سے نہیں  ہوتی۔ جہاں  تک مکر و فریب کی کیفیت ہے، اسرائیل ایران سے بہت زیادہ آگے ہے۔ آج تک اسرائیل نے جو کچھ کیا وہ سازش کا ہی نتیجہ ہے۔ اسرائیل نے اسی مکر و فریب سے ساری دنیا کو دھوکہ دے رکھا ہے۔ ایران کے فوجی سردار بھی اسرائیل کے نشانہ پر رہتے ہیں ، اسرائیل نے اس سے قبل بھی ایران کے دوفوجی افسران کو عراق میں  شہید کیا تھا، اس کے علاوہ ایران کے نیوکلیائی ادارے بھی اسرائیل کے نشانے پر ہیں ۔ چند سال قبل اسرائیل نےسائبر جنگ میں  ایران کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ایران کو اپنے نیوکلیائی نظام کو بچانے کیلئے پہلے سے زیادہ کوشش کر نی ہو گی۔ اسرائیل کو ایران سے بدلہ لینے کیلئے اب کسی ایسے بہانے کی تلاش ہوگی جس کی بنیاد پر وہ دنیا کویہ باور کرادے کہ یہ حملہ جائز تھالیکن ایران بہرحال اس کیلئے تیار ہوگا۔  ایک بات اسرائیل کے لئے بہت فائدہ مند ہے کہ حالیہ جنگ اور خصوصاً غزہ میں  جنگ بندی کے معاملے میں  نام نہاد مسلم ائمہ بالکل خاموش ہیں ۔ حد یہ ہے کہ آئی او سی تک نے بھی ایک تجویز پاس نہیں  کی۔ یہ خدشہ بھی دائمی نہیں  ہے کیونکہ عرب عوام اپنے حاکموں  سے زیادہ ایران کے ساتھ ہیں ۔ ان کی و جہ سے اسرائیل کوجان لینا ہوگا کہ کسی طرح کی احمقانہ پیش قدمی ریاست اسرائیل کی بقا کاسوال بن جائے گا۔
 امریکہ نے بہر حال یہ اعلان تو کرہی دیا ہے کہ وہ اسرائیل کی کسی پیش قدمی کا ساتھ نہیں  دے گا۔ اس کہ وجہ یہ نہیں  ہے کہ جوبائیڈن کی اسرائیل کے بارے میں  پالیسی تبدیل ہو گئی ہو۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں  یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ چند سو یہودی سرمایہ داروں  کو خوش کرنے کیلئے امریکہ دنیا کے اربوں  مسلمانو ں  کو ناخوش کیسے کرسکتا ہے؟ امریکی تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ امریکہ کیلئے یہ پالیسی بہت غلط ثابت ہوگی۔ امریکہ میں  ڈیموکریٹ یہ جانتے ہیں  کہ آئندہ صدارتی الیکشن میں  جو بائیڈن ہار جائیں  گے۔ ٹرمپ اس وقت بائیڈن سے بہت آگے ہیں ۔ٹرمپ ویسے چاہے جیسے ہوں  لیکن وہ جنگ باز نہیں  ہیں ۔ روسی صدر پوتن نے جب یوکرین پر حملہ کیا تھا اس وقت بھی ٹرمپ یہ نہیں  چاہتے تھے کہ امریکہ کسی طرح اس جنگ میں  شامل ہو۔ 
 اسرائیل نے حال میں  ایران پر جو حملہ کیا تھا اس سے اسرائیل کو بہت ندامت اٹھانی پڑی ہے۔ اسرائیل کے و زیراعظم بنجامن نیتن یاہو یوں  بھی ہرنیا کے مریض ہیں  اور چند ہفتے قبل ان کا آپریشن بھی ہوا تھا لیکن ایران کی جارحیت نے انہیں  ہرنیا کے بجائے کسی ذہنی مرض میں  مبتلا کر دیا ہوگا۔ وہ یوں  بھی کئی معاشی بے ضابطگیوں  کے معاملے میں  مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ایرانی جارحیت نے اسرائیل کا یہ بھرم بھی توڑ دیا کہ اسرائیل ناقابلتسخیر  ہے۔ ایرانی حملے میں  اسرائیل کے دو شہروں  کوبالکل تباہ کر دیا گیا جہاں  اسرائیل کے فضائی اڈے تھے۔ ان تمام باتوں  کی وجہ سے یہ سمجھنا کہ اسرائیل خاموش بیٹھے گا، غلط ہوگا۔ وہ کچھ مہینوں  تک انتظار کرےگالیکن اس انتظار کے بعد بھی اس کی تمنا پوری نہیں  ہوگی۔

israel iran Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK