ڈونالڈ ٹرمپ اس تعلق سے جلد تجویز پیش کریں گے، امریکی اہلکار کی سربراہی میں ایک حکومت قائم ہوگی جو غزہ کو غیر مسلح رکھے گی۔
EPAPER
Updated: May 09, 2025, 11:36 AM IST | Agency | Gaza
ڈونالڈ ٹرمپ اس تعلق سے جلد تجویز پیش کریں گے، امریکی اہلکار کی سربراہی میں ایک حکومت قائم ہوگی جو غزہ کو غیر مسلح رکھے گی۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ غزہ کے تعلق سے نئی منصوبہ بندی پیش کرنے والے ہیں جس میں یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی کینئی تجویز شامل ہوگی۔ ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں کہا کہ اس وقت غزہ کے بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ آپ کو غالباً اگلے ۲۴؍ گھنٹوں میں معلوم ہو جائے گا۔ گزشتہ اطلاع ملی تھی کہ واشنگٹن ایک امریکی اہلکار کی سربراہی میں غزہ میں ایک عبوری حکومت تشکیل دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
اطلاع کےمطابق امریکہ غزہ کے اپنے انتظامی امور میں فلسطینی ٹیکنوکریٹس کی مدد حاصل کرے گا۔ ۵؍ باخبر افراد نے بتایا کہ امریکہ اور اسرائیل نے جنگ کے بعد غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ کی قیادت کیلئے واشنگٹن کے امکان پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ اعلیٰ سطح کی مشاورت ایک امریکی اہلکار کی سربراہی میں غزہ کی نگرانی کرنے والی ایک عبوری حکومت کی تشکیل پر مرکوز تھی۔ اس حکومت کا مقصد غزہ کو غیر مسلح، مستحکم اور ایک فعال فلسطینی انتظامیہ کے طور پرقائم کرنا ہے۔ یہ بات چیت جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ کی قیادت میں ایسے انتظامیہ کے قیام کی کوئی مقررہ ٹائم لائن نہیں ہوگی کیونکہ اس کا انحصار زمینی صورتحال پر ہوگا۔
یہ بھی پڑھئے:کرنل صوفیہ قریشی کا گھر گھر چرچا، قومی ہیرو بن گئیں
دوسری جانب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ غزہ میں زندہ اسرائیلی قیدیوں کی تعداد۲۱؍ ہے، اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔ بدھ کی شام ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک ویڈیو میں نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو یقینی علم ہے کہ ۲۱؍ قیدی اب بھی زندہ ہیں، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے تین اور افراد ہیں جن کے زندہ ہونے کے امکانات پر شُبہ ہے۔ نتن یاہو نے یقین دہانی کروائی کہ اسرائیل ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کرے گا، لیکن یہ تعداد اس اعلان سے متضاد ہے جو اس سے قبل اسرائیل کے قیدیوں اور لاپتہ افراد کے امور کے کوآرڈی نیٹر گال ہیرش نے کیا تھا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا تھا کہ حماس کے پاس ۵۹؍ قیدی ہیں، جن میں سے ۲۴؍ زندہ تصور کئے جاتے ہیں جبکہ ۳۵؍ کی موت کی با ضابطہ تصدیق ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق زندہ قیدیوں کی تعداد ۲۴؍ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسرائیلی فوج نے بھی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں واضح کیا کہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے حملے میں جن ۲۵۱؍ افراد کو یرغمال کیا گیاتھا اُن میں سے ۵۸؍اب بھی فلسطینی علاقے میں قید ہیں، جن میں سے ۳۴؍ کی موت واقع ہو چکی ہے۔ ان کے علاوہ ایک اسرائیلی فوجی بھی شامل ہے جو جنگ کے دوران مارا گیا تھا اور اسکی لاش ابھی تک حماس کے قبضے میں ہے۔
یہ تضاد ایک طویل سیاسی بحث کے بعد سامنے آیا جو اسرائیلی داخلی حلقوں میں باقی قیدیوں کی بازیابی کے طریقۂ کار پر جاری ہے، خاص طور پر ۱۷؍ مارچ کو ختم ہونے والی۶؍ ہفتے کی جنگ بندی کے بعد جس دوران فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ یہ صورتحال ایسے وقت میں مزید پیچیدہ ہوئی جب اسرائیلی فوج نے دو روز قبل ’عربات جدعون‘ نامی آپریشن کا اعلان کیا، جسکا مقصد غزہ کے تباہ حال علاقے میں زمینی کارروائی کو وسعت دینا اور قبضے والے علاقوں میں قیام کو یقینی بنانا ہے۔ اس اقدام نے اسرائیلی قیدیوں کے اہلِ خانہ کی جانب سے شدید احتجاج کو جنم دیا، جن کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی غزہ میں موجود قیدیوں کی جان خطرے میں ڈال سکتی ہے۔