Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہاں،ذرا ایک نظر اپنے پڑوسی پر بھی!

Updated: July 22, 2025, 1:28 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

پاکستان کی معیشت کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے مگر اس کی جمہوریت کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے نہیں ہے۔ زیر نظر مضمون میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی قید و بند کی زندگی اور اُن کے بیٹے قاسم کے ممکنہ دورۂ پاکستان کی بابت چند باتیں احاطۂ تحریر میں لائی گئی ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ہمارا خیال ہے کہ یہ بات اٹل بہاری واجپئی نے کہی تھی اور وہ بھی ہندوستان اور پاکستان کے روابط کے بارے میں ، انہو ں نے کہا تھا کہ کوئی اپنا دوست تو بدل سکتا ہے لیکن پڑوسی نہیں  بدل سکتا ،اگر کسی دوست کی کوئی بات ناخوشگوار اور ناگوار لگے تو دوسرا دوست بنایا جاسکتا ہے لیکن اگر آپ کا پڑوسی بے ایمان اور بدقماش ہو تو یہ ناممکن ہے کہ آپ پڑوسی بدل لیں ۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اس کے کچھ چھینٹے آپ کے دامن پر بھی آئینگے۔ ہندوستان اور پاکستان کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ اگرپاکستان میں  کچھ ناگوار او رناخوشگوار ہو تو اس کا اثر آپ پر بھی پڑتا ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جس کی معیشت صفر تک آگئی تھی اور سیاست اگر صفر سے بھی کوئی نمبر کم ہو تو وہاں  تک پہنچ چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں  اخلاق اور شعور کی کوئی جگہ بچی ہی نہیں ۔ 
 پاکستان کے دوبار کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو لاہور کے ایک انتخابی حلقے میں  بری طرح سے شکست ہوئی تھی۔ ان کو یہ شکست ستر سال سے اوپر ایک کینسر زدہ خاتون یاسمین راشد نے دی تھی۔ کوشش کی گئی کہ نواز شریف کے ووٹ بڑھ جائیں  لیکن حساب دانوں  نے یہ کہہ کر دونوں  ہاتھ اوپر کھڑے کردیئے کہ یہ علم ہماری حساب دانی کے باہر ہے۔ ہم کچھ نہیں  کرسکتے،یہ اور بات ہے کہ یاسمین راشد اس کے بعد سے اب تک جیل میں  ہیں ، یہ جیل کب ختم ہوگی یہ خدا ہی جانتا ہے۔ 
 موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف بھی لاہور کے ہی ایک حلقے سے انتخاب ہار گئے تھے لیکن حساب دانوں  نے اس بار کچھ ایسا حساب لگایا کہ جیتے ہوئے اُمیدوار کو ہارا ہوا اور ہارے ہوئے امیدوار کو جیتا ہوا قرار دیا گیا اور شہباز شریف  پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے، آج بھی اس منصب پر ہیں ۔ یہی نہیں  پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز بھی لاہور کے ایک دوسرے حلقے سے ایک عام انسان سے، جو خلق خدا کا کام کرتا تھا، الیکشن ہار گئی تھیں  لیکن خدا کی قدرت کہ وہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں ۔ شہباز شریف کے کئی وزیر اور مشیر ہارے ہوئے لوگ ہیں ۔ یہ لوگ پاکستان کو کس حد تک آگے لے جاسکتے ہیں  اس کے بارے میں  آپ ہی قیاس لگائیں  تو بہتر ہوگا۔
 پاکستان کی مقننہ اور عدلیہ فوج کی گرفت میں  ہیں ، وہ کچھ چوں  چرا تو کرسکتے ہیں  لیکن اس سے آگے نہیں  جاسکتے۔ پاکستان کی عدلیہ نے شاید دنیا کی عدالتی تاریخ میں  ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ یہ پہلا ملک ہے جس میں  عدلیہ فوج کی مرضی کے بغیر ہل بھی نہیں  سکتی  اور یہ سب اِس لئے ہو رہا ہے کہ پاکستانی حکمراں  اور اقتدار یہ ایک ایسے انسان سے ڈرے ہوئے ہیں  جو جیل کی ایک موت کی کوٹھری میں  بند ہے۔ اس کے بارے میں  پاکستانی حکمرانوں  کا خیال ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں اس کا نام بھی نہ لیا جائے لیکن اب چونکہ اس شخص کی مقبولیت زیادہ ہے ، اس لئے حکمرانوں  نے حکم دیا ہے کہ اگر اس کا نام لینا بھی پڑے تو اسے پاکستان کا سابق وزیر اعظم نہ کہا جائے بلکہ نام لینا ضروری ہو تو بانی ٔ تحریک انصاف پارٹی کا نام دیا جائے۔ یہ شخص جس کال کوٹھری میں  قید ہے اس میں  کبھی بجلی نہیں  آتی تو کبھی ٹی وی نہیں  چلتا ۔ اس شخص کو کوئی کتاب بھی پڑھنے کو نہیں  دی جاتی۔ یہ سب صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ یہ شخص یعنی عمران خان جھک جائے یا دب جائے اور فوجی حکمرانو ں کی یہ بات مان لے کہ اگر اسے رہا بھی کردیا جائے تو وہ سیاست پر بات نہ کرے، فوجی آمروں  کے خلاف کوئی ذکر زبان پر نہ لائے اور بہتر ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں  چلا جائے۔ ان لوگوں  کا یہ بھی خیال ہے کہ بہتر ہے عمران خان برطانیہ چلے جائیں  جہاں  ان کے دونوں  بیٹے مقیم ہیں ۔ لیکن اب اس کو کیا کیجئے کہ عمران خان نہ تودبنے والے ہیں  او رنہ جھکنے والے ہیں ۔ انہوں  نے ان سب کے جواب میں  یہ کہا کہ وہ جیل کی اس کوٹھری میں  تاعمر رہنا پسند کرینگے لیکن وہ بات نہیں  مانیں  گے جو پاکستان کی جمہوریت کیلئے حق بجانب نہ ہو۔ خبرہے کہ عمران کو کوئی کتاب پڑھنے کو نہیں  دی گئی مگر اس قید کے دوران ،جو پانچ اگست کو دوسال کی ہونے والی ہے، انہوں  نے کئی بار قرآن کا مطالعہ کیااور خود میں  بڑی تبدیلی محسوس کی۔
 عمران خان کو جب ہٹایا گیا تھا تب بھی پاکستانی عوام خوش نہیں  تھے، بغیر کسی کی اپیل کے وہ سڑکوں  پر نکل آئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہم نہیں  سمجھتے کہ کسی ملک میں  اور کوئی ایسا لیڈر ہو جس نے عدم تشدد کا وہ مظاہر کیا ہو جو عمران خان نے کیا ہے۔ ان کے ایک اشارے پر ا ب بھی لاکھوں  لوگ باہر نکل سکتے ہیں  لیکن عمران خان نہیں  چاہتے کہ ان کی وجہ سے خون خرابہ ہو۔ جیل میں  قید کئے گئے سیاسی لیڈروں  کو قلم دوات تو دی جا سکتی ہے لیکن عمران سے یہ دولت بھی چھین لی گئی۔ وہ نہ لکھ سکتے ہیں  اور نہ پڑھ سکتے ہیں ۔

یہ بھی پڑھئے: عزیز کیوں نہ ہو خاک ِ رہِ وطن مجھ کو

 عمران خان کے دو بیٹے ہیں  قاسم اور سلیمان۔ دونوں  برطانیہ میں  رہتے ہیں ۔ اُن کی ماں  اورعمران خان کی سابق بیوی جمائمہ ہماری نظر میں  باوفا  اور باوقار خاتون ہیں ۔ جب قاسم نے یہ اعلان کیا کہ وہ پاکستان جائینگے تو حکمرانوں  کے پاؤں  کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ وہ جانتے ہیں  کہ عمران کے بیٹے کا پاکستان میں  ایک قدم بھی حکمرانوں  کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دیگا۔ قاسم نے اپنے اس اعلان پر ابھی عمل بھی نہیں  کیا ہے مگر وہاں  کے ایک احمق وزیر اور آپ جانتے ہیں  کہ پاکستانی وزیروں  میں  احمقوں  کی کمی نہیں  ہے، یہ اعلان کردیا کہ اگر قاسم آئے تو انہیں  گرفتار کرلیا جائیگا۔ قاسم نے تو اس کا کوئی جواب نہیں  دیا لیکن جمائمہ نے بیان دیا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہا ں ایک بیٹے کو اپنے باپ سے ملنے نہیں  دیا جاتا۔ 
 اب پاکستانی حکمرانوں  کی سمجھ میں  نہیں  آرہا ہے کہ وہ کیا کریں ۔ اگر قاسم  پاکستان گئے اور گرفتار کئے گئے تو یہ حماقت ہوگی، یہ ایک بین الاقوامی جرم بھی ہوگا۔ پاکستان میں  اب بھی ایسے دانشور موجود ہیں  جو یہ کہیں  گے کہ ایسا نہ کیجئے کیونکہ اس سے معاملہ صفر سے بھی اور نیچے چلا جائے گا۔ قاسم امریکہ گئے ہیں ۔ وہاں  کے پاکستانی نژاد شہریوں  نے ایسا انتظام کردیا ہے کہ امریکہ کی دونوں  بڑی پارٹیوں  کے کانگریس مینوں  کی ایک بڑی تعداد عمران خان کی آزادی کی حامی بن چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قاسم پاکستان گئے تو ان کے ساتھ ان کانگریس مینوں  کا اور پریس والوں  کا ایک وفد بھی ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK