Inquilab Logo Happiest Places to Work

عزیز کیوں نہ ہو خاک ِ رہِ وطن مجھ کو

Updated: July 21, 2025, 1:54 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai

وہ تمام لوگ جو ملازمت یا کاروبار کی غرض سے اپنے آبائی وطن سے ہجرت کرکے دوسرے شہروں میں سکونت اختیار کرتے ہیں،وقتاً فوقتاً گاؤں واپس آتے ہیں۔ یہ سلسلہ برسوں سے چلا آرہا ہے مگر ماضی میں گاؤں آکر انہیں بڑی راحت ہوتی تھیکیونکہ گاؤں گاؤں تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی یہ پہچان کھوتی جارہی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

وطن میں  چھٹیوں  کے دن کبھی تیز تر گزر جانے کا احساس دلاتے ہیں  تو کبھی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی دن گزرنے کے باوجود ٹھہر گیا ہے۔ پہلے شہر اور گاؤں  کے درمیان فرق کرنے کیلئے بہت سی اشیاء تھیں ۔ شہر ایسا بھی تھا جس میں  گاؤں  بستا تھا۔ کچھ ملی جلی سی کیفیت تھی۔ کارخانے اور موٹر سے نکلنے والا دھواں  دکھائی دیتا تھا۔ گاڑیوں  اور انسانوں  کے درمیان کچھ فاصلہ تھا۔ اب یہ فاصلہ ختم ہو گیا ہے۔ گاڑیوں  کا شور موٹر گاڑیوں  سے نکلنے والے دھوئیں  سے زیادہ مشکل اور خطرناک معلوم ہوتا ہے۔شہر کے کنارے پر کہیں  چمنی سے دھواں  نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو اوپر ہی اوپر فضا میں  پھیل جاتا ہے۔ گاڑیوں  سے اب دھواں  نکلتا ہوا دکھائی نہیں  دیتا۔ دھوئیں  کی جگہ شور نے لے لی ہے۔ گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی چھٹیاں  باہر کے شور سے متاثر ہو جاتی ہیں ۔ شہر یا بستی کا کوئی گوشہ یا کنارہ ایسا نہیں  جہاں  شور نہ ہو۔ کبھی چھٹیوں  کے دن شور سے محفوظ تھے۔
 یہ بھی ہے کہ اب درخت کٹتے جا رہے ہیں ۔ سڑکیں  پختہ ہوتی جا رہی ہیں ۔ دیکھتے دیکھتے پختہ مکانوں  کا جنگل سا پھیل گیا ہے۔ زمین پر پاؤں  اگر پڑتا بھی ہے تو اس طرح کہ جیسے مکان کی چھت ہو۔ زمینیں  درختوں  کے ساتھ تھیں ۔ اب زمینوں  کو تنہائی کا سامنا ہے اور یہ تنہائی اس حقیقت کے باوجود روشن ہے کہ پختہ مکانات تعمیر ہو گئے ہیں ۔ فکشن نگاروں  نے درخت کو دیکھتے ہوئے اس کی تنہائی کو محسوس کیا تھا اور یہ بھی محسوس کہ وہ کتنے اداس ہیں ۔ یہ کتنا سوچتے ہیں  مگر اب درختوں  کی تنہائی ان کے وجود کے ساتھ پابہ رخصت ہے۔

یہ بھی پڑھئے : جن سنگھ کا سودیشی نظریہ اور بی جے پی کا کارپوریٹ پریم

 درختوں  نے کیا عجب کہ اپنی تنہائی کو اس آبادی میں  منتقل کر دیا ہو جس نے انہیں  زمین سے اکھاڑا اور کاٹا ہے۔اس مرتبہ چھٹیوں  کے دن کچھ اس طرح گزرے کہ جیسے ہر طرف درختوں  کے جسم پر آرا چل رہا ہو۔ یہ محض احساس نہیں ، واقعہ ہے۔ زمین کا ایک نوحہ تو وہ تھا جو ایٹمی تجربے سے متعلق ہے۔ ضمیر نیازی نے ایسی تحریروں  کو یکجا کر کے ’’زمین کا نوحہ‘‘ کے نام سے کتاب مرتب کی۔ اب ایک ایسی کتاب مرتب ہونی چاہئے جس کا عنوان ’’درخت کا نوحہ‘‘ ہو۔زمین کا اندرون دکھائی نہیں  دیتا۔ زمین ہر طرف پٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اب تک درخت کا جسم نظر آتا تھا مگر اب بہت کم دکھائی دیتا ہے اور نہ اس کی جڑیں  دور تک پیوست ہونے کا التباس پیدا کرتی ہیں ۔ جس طرف کو جائیے، خالی زمینیں  دیوار سے گھیری ہوئی یا گھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ زمین کو گھیرنے کا مطلب زندگی کو گھیرنا تو نہیں  لیکن یہ جو زمینوں  کو گھیرنے کا سلسلہ ہے اسے دیکھ کر خوف ہوتا ہے۔ کیا صرف وہ راستہ باقی رہ جائے گا جو سب کیلئے ہے اور سب کیلئے نہیں  بھی ہے۔ ایک راستہ درختوں  کے ساتھ کتنی دور تک جاتا تھا۔ 
 دیکھتے دیکھتے نیشنل ہائی وے آجاتا۔ اب وہ راستہ درختوں  سے رفتہ رفتہ خالی ہو رہا ہے اور جہاں  درخت موجود ہیں  وہاں  وہ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کیسا آرا چلا ہے کہ زندگی لہو لہان ہو گئی ہے۔ درختوں  کا جسم زمین پر گرانے سے پہلے اسے کئی زاویوں  سے کاٹا گیا ہے۔ زمین پر گرنے سے پہلے انہیں  یہ خاموش تعلیم دی گئی ہے کہ گرتے ہوئے کم سے کم زمین کا احاطہ کرنا ہے۔ کبھی کبھی درخت کا کٹا ہوا حصہ ہفتوں  اور مہینوں  زمین پر پڑا رہتا ہے۔ یہ جو دور تک جاتی ہوئی سڑک ہے وہ بھی پختہ ہو گئی ہے لیکن درخت سے خالی ہونے والی زمینیں  گہری ہو گئی ہیں ۔ ان میں  برسات کا پانی کچھ اس طرح بھر جاتا ہے کہ جیسے آنسوؤں  کا سیلاب آگیا ہو۔ لیچی، آم اور امرود کے درخت اب بھی ہیں  مگر ان کے درمیان کا فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جو درخت سوکھتا ہے وہ ہمیشہ کیلئے اپنی زمین خالی کر دیتا ہے۔ اب ایسے درخت گھر اور آنگن میں  لگائے جا رہے ہیں  جن کا قد چھوٹا ہے اور وہ بہت جلد پھول پھل دینے لگتے ہیں ۔ان درختوں  کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے زندگی کچھ سمٹ سی گئی ہے۔ مگر خیال آتا ہے کہ کم سے کم چھوٹے ہی سہی مگر درخت تو کہیں  گھر آنگن میں  موجود ہیں ۔ چھوٹے درختوں  کا کاروبار کرنے والے ایک شخص نے کہا کہ اب درختوں  کی ضرورت اور اس کی معنویت تبدیل ہو گئی ہے۔ اب یہ چھوٹے درخت ہیں  اور گھر کے اندر آگئے ہیں  جس طرح آپ چھٹیوں  میں  اپنے گھر آگئے ہیں ۔ چھٹیوں  کے دن کچھ اس طرح چھوٹے ہوتے جا رہے تھے کہ جیسے چھوٹے درختوں  کی نظر لگ گئی ہو۔ بازار میں  بکنے والی اشیاء میں  وہ سبزیاں  بھی ہیں  جو کبھی مقامی زمینوں  سے اگا کرتی تھیں ۔ یہ جن زمینوں  کی پیداوار ہیں  وہاں  کی مٹی اُنکے ساتھ لگی ہوئی آ جاتی ہے۔ مگر اب سوچتا ہوں  وہ مٹی کہاں  ہے جو پیرہن سے لپٹ کر غبار کی صورت مسافر کے ساتھ پردیس آ جاتی تھی۔ اب چھٹیوں  کو ان دنوں  کا انتظار ہے جو زندگی کی تیز رَوی کے باوجود سست رو ہوتے تھے۔ اب وہ مقامی شور میں  زیادہ اجنبی ہوگئے ہیں ۔
  ایک کنواں  جو کبھی پانی سے بھرا ہوا تھا، نہ صرف سوکھا ہوا ہے بلکہ زمین سے مل گیا ہے۔ کنویں  کی سطح جب زمین سے مل جائے تو سمجھیے کہ ایک معنی میں  زندگی خشک اور بے کیف ہو گئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ڈول سے رسی بندھی ہوتی تھی اور وہ کنویں  میں  اتر کر ٹھنڈے پانی کو اوپر لے آتی تھی۔ قریب سے اس دائرے کو دیکھا جو کنویں  کا تھا مگر پانی کتنی دور جا چکا تھا کہ اب اس کے بارے میں  سوچنا بھی آسان نہیں ۔ وہ نسل جس نے اس کنویں  کو دیکھا نہیں  وہ کیا جانے کہ اس کا پانی کتنا ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ ڈول کی رسی پانی میں  بھیگ جاتی تھی کہ جیسے انسانی جسم کے تار بھیگ گئے ہوں ۔ ایک بھیگا بھیگا سا موسم کنویں  کے ساتھ باہر تک آ جاتا تھا۔ اب اس علاقے میں  ایک بھی کنواں  نہیں  ہے۔ سڑک کے کنارے کبھی احاطے کے اندر کچھ نئی پرانی قبریں  ہوتی تھیں ۔ اب ان پر دکانیں  کھل گئی ہیں ۔ ایک شخص سے پوچھا کہ وہ قبریں  کیا ہوں  گئیں  تو کہنے لگا کہ یہاں  قبریں  کہاں  تھیں ؟
  یہ زندگی ہے یا زندگی کا بے ہنگم شور؟ صرف آواز بلکہ شور سے بھری ہوئی دنیا کب تک کسی معاشرہ کی تہذیبی زندگی کو سنبھال سکتی ہے۔ شور میں  بھی زندگی ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے مگر اس میں  کسی کا کوئی لحاظ کوئی خیال تو ہو۔ یہ صورتحال عام ہے مگر ہر شخص کو اپنا شہر اور گاؤں  کچھ الگ لگتا ہے۔ اسی غرورکے سہارے چھٹیوں  کے دن اس خیال کے ساتھ گزر جاتے ہیں  کہ میرا ماضی حال سے بہتر ہے، بقول کلیم عاجز:
عزیز کیوں  نہ ہو خاک رہ وطن مجھ کو
 یہ میرے ساتھ مرے پیرہن میں  آئی ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK