Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: بچپن کی عید، کچھ یادیں، کچھ باتیں

Updated: April 05, 2025, 1:06 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

Eid is for children. They wear new clothes and shoes and go around the neighborhood collecting Eid gifts. Photo: INN.
عید تو بچوں ہی کی ہوتی ہے۔ نئے کپڑے اور جوتے پہن کر محلے بھر میں دندناتے پھرتے ہیں اور عیدی جمع کرتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

عید پر ہندو مسلم اتحاد قابل دید تھا


بچپن میں گاؤں میں عید منائی ہے۔ عیدگاہ غیرمسلم آبادی میں تھی، غیر مسلم برادران وطن چوراہے پر وضو اور پینے کے پانی کا نظم کرتے تھے۔ عیدگاہ کے اطراف بہت سی دکانیں لگتی تھیں۔ ہم عیدی کے پیسے انہی دکانوں پر خرچ کرتے تھے۔ نماز کے بعد گاؤں کی سرکردہ شخصیات مثلاً سرپنچ اور پولیس پاٹل کے گھر پر مسلم ذمہ داران کا استقبال ہوتا۔ سبھی ایک دوسرے سے گلے ملتے اور پان وغیرہ کھاتے تھے۔ گھرآ کر شیرخرما پہلے پڑوسیوں کو دیتے جن میں ہندو مسلمان سب شامل تھے۔ عید کے دن فلم دیکھنے جانا بہت بڑی تفریح سمجھی جاتی تھی جس ساتھی کے پاس زیادہ عیدی جمع ہوتی وہ بالکنی کا ٹکٹ لیتا اور دوستوں پراپنی ’’امیری‘‘ کا رعب جماتا۔ کسی سال دوستوں کےساتھ کھیتوں میں پارٹی کا اہتمام کیا جاتا۔ پارٹی کا خرچ کم کرنے کیلئے گھر سے سالن روٹی لے جاتے تھے۔ عیدالفطر کے کپڑے دھو کر رکھ دیئے جاتے تھے تاکہ انہیں عیدالاضحی میں بھی پہنا جاسکے۔ 
اسماعیل سلیمان، کرہاڈ، جلگاؤں 
پہاڑی علاقے کی عید گاہ


عید کا چاند نظر آتے ہی ہر طرف خوشیوں کا ماحول ہوتا تھا۔ رات دیر تک تیاری جاری رہتی اور صبح فجر سے پہلے اٹھ کر عید گاہ جانے کی جلدی رہتی تھی۔ سبھی بہن بھائی ساتھ جاتے اور کھانے کی چیزیں لےکر ایک طرف بیٹھ جاتے اور پھر ان سے لطف اندوز ہوتے۔ نمازی، نماز کیلئے صفوں میں بیٹھتے۔ چونکہ عید گاہ گاؤں کے باہر پہاڑی علاقے میں تھی اسلئے اطراف کا جائزہ لینے میں بڑا لطف آتا تھا۔ پھر نماز کے بعد گھروں کی طرف روانگی شروع ہوتی۔ راستے میں آنے والے ہر شخص سے مصافحہ کرنا یاد آتا ہے۔ پھر رشتہ داروں اور عزیزوں سے ملاقات کیلئے جاتے، یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہتا۔ 
محمد اقبال، جلگاؤں 
۲۹؍ ویں روزے پر عید کے چاند کی خواہش
۲۹؍ ویں روزے کو بڑی خواہش ہوتی کہ چاند نظر آجائے۔ نماز کے بعد میلہ جانے، کھلونے اور طرح طرح کی چیزیں خریدنے کی بے انتہا خوشی ہوتی تھی۔ پھر دوستوں کے ساتھ کھیلنا کودنا، گلے ملنا اورعید کی مبارکباد دینا، ایک خوشنما یاد بن کر رہ گئی ہے۔ 
مولانا نظیف عالم صدیقی قاسمی، بیلاپور، نوی ممبئی
نئے کپڑوں اور جوتوں کی خوشی


عید الفطر پر والدین اور رشتہ داروں سے عیدی ملنے کی خوشی زندگی بھر یاد رہے گی۔ تمام رشتہ داروں کے گھر جانا، عید کی مبارکباد پیش کرکے شیر خرما پینا اور نئے کپڑوں اور جوتوں پر فخر محسوس کرنا اب بھی یاد آتا ہے۔ 
شیخ عبدالموحد عبدالرؤف، مہا پولی، بھیونڈی
عیدی ڈبے میں جمع کرنا
عید کے دِن نئے کپڑے پہننے کیلئے بے چین رہتے تھے۔ جس عمارت میں ہم رہتے تھے اُس کے تیسرے منزلے پر ایک آغاخانی فیملی رہتی تھی۔ اُن کی دونوں بیٹیوں حسینہ اور امینہ مجھے اور میرے بھائی کو بیٹوں کی طرح رکھتی تھیں۔ اُن کی والدہ کو ہم چاچی ماں کہتے تھے۔ دونوں غیر شادی شدہ تھیں اور ہم بھائیوں سے بہت محبت کرتی تھیں لہٰذا نماز عید الفطر کے بعد اپنے نئے کپڑے اُن دونوں بہنوں کے پاس لے جاتے۔ امینہ مجھے اور حسینہ میرے بھائی محمود کو نئے کپڑے پہناتی۔ پھر ہم عیدی جمع کرنے کیلئے رشتہ داروں کے ہاں جاتے تھے۔ اُس زمانے میں ہم دونوں بھائیوں کو بطور عیدی ایک روپیہ کا سکہ دیا جاتا تھا۔ دوپہر تک ہم عیدی جمع کرتے۔ اور پھر انہیں غلک میں ڈال دیتے تھے۔ ان پیسوں کا استعمال بوقت ضرورت ہوتا تھا۔ 
پرنسپل( ڈاکٹر) محمد سہیل لوکھنڈوالا، ممبئی
دادا جان کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جانا


بچپن میں عید کی خریداری کے وقت بازاروں میں بھیڑ نہیں ہوتی تھی۔ ہم عمر ساتھیوں کو شوق سے کپڑے دکھانا، مہندی کیلئے بچیوں کا باجی کے آگے پیچھے دوڑنا، گھر کی خواتین کا سوئیاں بنانا اور ہمارا سوئیوں کی رکھوالی کرنا جیسی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اب کہاں۔ عید گاہ کی طرف دادا جان کی انگلی پکڑ کر پیدل جانا اور نماز بعد سبھی کو مبارکباد پیش کرنا کبھی نہیں بھول سکتا۔ آس پڑوس میں مختلف پکوانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئیں پھیلی ہوتی تھیں۔ 
محمد ضیاء معاون معلم الحراء اردو اسکول، بھساول
والدین کا ہماری سہیلیوں کو بھی عیدی دینا 


ماں باپ بھائی بہنوں کے ساتھ عید کا لطف دوبالا ہوجاتا تھا۔ ہر ایک کو عید کی تیاری میں مصروف دیکھا ہے۔ سحری کے ساتھ ہی خریداری، کپڑے سلنا، پریس کرنا پھر افطاری کی تیاری۔ عید پر والد ین ہمارے ساتھ ہماری سہیلیوں کو بھی عیدی اور دعائیں دیتے۔ اب عید اپنے بچوں کے ساتھ گھر ہی پر گزرتی ہے اور پورا دن اپنے رشتہ داروں سے ملنے میں نکل جاتا ہے۔ عید کب ختم ہو جاتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔ لیکن رشتہ داروں سے ملنے جلنے میں جو لطف ہے، وہ کسی اور چیز میں کہاں۔ 
شاہدہ وارثیہ، وسئی ویسٹ 
سب سے زیادہ عیدی ملنے کی خوشی


بچپن کی عید کا موازنہ کسی بھی قسم کی خوشی سے نہیں کیا جاسکتا۔ رمضان کے آخری دس دن تو اسی ادھیڑ بن میں گزرجاتے تھے کہ عید کیسے منائیں گے۔ محلے کے ہر گھر کی بس یہی کہانی ہوتی، سبھی عید اور عید کی تیاریوں کے بارے میں گفتگو کرتے رہتے۔ نئے کپڑوں اور نئے جوتوں کی کہانیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ پھر عید کی نماز کے بعد ہر دوست ایسے وارد ہوتا جسے سپر اسٹار ہو۔ سبھی ایک دوسرے کی خوب تعریف کرتے۔ بڑوں پر روزوں کا رعب ڈال کر عیدی کے نام پر پیسے اینٹھے جاتے، اس میں بھی یہی ہوڑ لگی رہتی کہ سب سے زیادہ عیدی کسے ملی۔ محلے کے ہر گھر سے اشتہا انگیز پکوانوں کی خوشبو آتی تھی۔ انسان اپنی حیثیت کے مطابق اپنی عید کا اہتمام کرتا۔ عید کی رات ہی میں باسی عید کی پلاننگ کر لی جاتی تھی۔ سبھی ایک دوسرے سے گلہ شکوہ مٹاکر ملتے تھے۔ 
محمد سلمان شیخ، تکیہ امانی شاہ، بھیونڈی
منشی پریم چند کی کہانی ’’عیدگاہ‘‘ کی یاد


اصل دھماچوکڑی تو عید کے چاند کی خبر عام ہوتے ہی شروع ہوتی تھی۔ عیدی کا شدت سے انتظار رہتا۔ جب عیدی مل جاتی تو دوستوں کے ساتھ رقم گنی جاتی کہ کس کے پاس زیادہ عیدی ہے۔ پھر مختلف چیزیں خریدی جاتیں۔ تیسرے دن میں جب گھر والوں کے ساتھ گھومنے جاتے تو وہ رقم خرچ کرتے۔ آج بچپن میں پڑھی گئی منشی پریم چند کی کہانی ’’عیدگاہ‘‘ بھی یاد آتی ہے۔ علاوہ ازیں، اخبارات میں پڑھے گئے دردمندانہ حقیقی واقعات بھی یاد آتے ہیں۔ بڑھاپے میں بچپن بہت یاد آتا ہے۔ 
مرتضیٰ خان، نیا نگر، میرا روڈ
بھونپو لے کر تانگہ پر چاند نظر آجانے کا اعلان


جیسے ہی عید کا چاند بادلوں سے نظر آتا، بچے ’’ چاند ہوگیا‘‘ کی صدا لگاتے ہوئے محلے بھر میں دوڑ لگاتے۔ اس کے فوراً بعد ہم دوستوں کے ساتھ بھونپو لے کر نماز عیدالفطر کا وقت کا اعلان کرنے تانگہ پر نکل پڑتے۔ نماز فجر کے بعد نئے کپڑے پہن کر والد اور بھائیوں کے ساتھ نماز عید کیلئے مسجد کا رخ کرتے۔ گھر پر والدہ شیر خرما، سوئیاں اور دیگر لوازمات تیار رکھتیں۔ اسی دوران سحری جگانے والے اپنی آمد کی اطلاع دیتے اور فطرہ و خیرات لے کر دعائیں دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ ہم گھر کے ہر فرد سے عیدی لیتے۔ بار بار عیدی کی رقم گنتے اور دوسرے بچوں کی رقم سے موازنہ کرتے۔ عزیز و اقارب اور دوستوں کو عید کارڈ بھیجتے۔ عید کارڈ ملنے پر بہت خوشی ہوتی تھی۔ باسی عید پر ہم کئی دوست، نظیر احمد شرف الدین کی ایمبسڈر میں ممبئی کی سیر کو نکل جاتے فی کس خرچ دس روپے آتا تھا۔ اب ہزاروں روپے خرچ کرکے بھی وہ خوشی نہیں ملتی۔ 
ملک مومن، ممبئی
سال میں ایک مرتبہ نئے کپڑے


 بچپن کی عید میں بھی آج کی طرح نئے کپڑے، عیدی، نئےپکوان، سیر وتفریح سب کچھ ہوتا تھا مگر امّی سے روزانہ پوچھنا کہ اب عید میں کتنے دن رہ گئے، کتنے روزے باقی رہ گئے، وہ نہیں رہ گیا ہے۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کیلئے عید کارڈ دیتے تھے جس کی خریداری کا آغاز پہلے روزے ہی سے ہوجاتا تھا۔ سال بھر میں صرف ایک مرتبہ ہی نئے کپڑے پہننے کا موقع ملتا تھا۔ اس لئے بھی عید کا بے چینی سے انتظار رہتا تھا۔ عید کی نماز کیلئے خاندان کے بڑے اکٹھا ہوکر عیدگاہ جاتے، ان کے ساتھ بچے بھی بغلوں میں چادریں، جائے نماز اور کپڑے کے تھیلے دبائے چل پڑتے تھے۔ اس وقت کم سن بچوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ جب بڑے نماز پڑھیں تو وہ کپڑے کی تھیلوں میں گھر والوں کے جوتے چپل جمع کرکے ان کی نگرانی کریں۔ پانچ دس روپے ہی عیدی ملتی تھی۔ اور ہم عید کا انتظار کرتے تھے کہ پسند کی آئسکریم کھاسکیں یا کولڈرنک پی سکیں۔ 
ایم پرویز عالم نور محمد، رفیع گنج، بہار
قبرستان جاکر دعائے مغفرت
گاؤں کی عید کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ ہر کوئی نئے کپڑوں میں نظر آتا۔ سرمہ، عطر لگا کر سبھی مسجد کا رخ کرتے تھے۔ نماز بعد ایک دوسرے سے گلے ملتے اور مبارکباد دیتے۔ قبرستان جاکر مغفرت کی دعا کرتے تھے۔ دس روپے عیدی بڑی خوشی دیتی تھی۔ 
اقبال احمد خان دیشمکھ، کھٹیل، مہاڈ
محلے کو قمقموں سے سجانا


چاند رات پر محلے کو سجاتے اور پورا علاقہ روشنیوں میں ڈوب جاتا۔ عید پر صبح جلدی اٹھ کر نئے کپڑے پہن کر ہم ابو کے ساتھ عید گاہ جاتے اور سبھی سے ملاقات کرتے۔ لوٹ کر امی اور سبھی رشتہ داروں کو مبارکباد پیش کرتے۔ بچپن میں عیدی زیادہ ملتی تھی۔ عیدی جمع کر کے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کیلئے میلے وغیرہ کا رخ کرتے تھے۔ 
عاطف عدنان شیخ صادق، شاہو نگر، جلگاؤں 

بچپن کی عید اپنا احساس اورمفہوم کہاں لے گئی ؟


کہتے ہیں ‏ ایک عمر کے بعد انسان عید نہیں، گزشتہ عیدوں کی یاد مناتا ہے۔ ‏عید جو بچپن میں کبھی شوخ وچنچل سی ہوتی تھی وہ نہ جانےاپنا احساس اور مفہوم کہاں لے گئی، رات میں جوتے کپڑے سجا کر رکھتے اور عید کی صبح تیار ہو کر ابو کے ساتھ عیدگاہ جاتے اور عید گاہ سے واپسی پر امی کے ہاتھ سے بنے لذیذ شیر خرما اور سیوئیوں کامزہ لیتے۔ محلے کے بچے بن سنور کے اپنی تیاری دکھانے آتے، ابّو کے دوست عید ملنے آتے اور جاتے جاتے مٹھی میں عیدی دے کر جاتے۔ ایک دوسرے سے زیادہ عیدی کا مقابلہ کرتے، اکثر بچے عیدی گم بھی کر دیتے تھے۔ بچپن میں ہم اسلئے بھی خوش تھے کہ والدین ہمیں یہ پتہ ہی نہیں چلنے دیتے تھے کہ عید کا بندوبست کیسے کیا، کپڑے اور جوتے دلوانے کیلئے کتنی محنت کی۔ اسلئے ہر عید پر والدین کے احسانات کو یاد کرکے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ 
رضوان عبدالرازق قاضی، کوسہ ممبرا
اب پہلی جیسی خوشیاں کہاں!


بچپن میں لوگوں میں کتنی محبتیں تھیں، کتنا خلوص تھا، ایک دوسرےکو پکڑ پکڑ کر اپنے گھر لے جاتے تھے، کیا دور تھا وہ۔ کتنی خوشیاں تھیں ، خواتین رات بھر جاگ کر مختلف پکوان تیار کرتیں مگر آج وہ رونقیں کہاں ؟ وہ خوشیاں کہاں ؟ آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ کیٹرر سے چکن بریانی بنواکر لاتے ہیں گھر میں شیر خورمہ بس ! اور تو اور جس سے ہماری دوستی ہے جس سے ہمارا ذاتی فائدہ ہے، اسے بلاتے ہیں، اسے ہی دعوت دی جاتی ہے، پڑوسیوں میں ایک دوسرے سے حسد جلن بغض کینہ لڑائی جھگڑا ہے، `اللہ خیر کرے۔ 
ابو مصعب عادل ندوی چکھلی، پونہ
والد صاحب کے سا تھ چٹائی لے کرعید گاہ جاتے تھے


بچپن میں عید کا خمار تو رمضان کے چاند کے ساتھ ہی چڑھ جایا کرتا تھا۔ عید پر ’میں کیا پہنوں اور کیا نا پہنوں ‘، اس کا تجسس قائم رہتا تھا۔ عید کی صبح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد نیند آتی تھی مگر عیدگاہ پر والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھنے جانا ہے، یہ سوچ کر اُڑ جایا کرتی تھی۔ نئے کپڑے نئے جوتے پہن کر والد صاحب کے ساتھ نماز کیلئے نکلتا۔ والد صاحب اکثر بڑی چٹائی اپنے بغل میں دبائے ہوئے اور دوسرے ہاتھ سے میرا ہاتھ تھامیں ہوئے چلتے مگر میں یہ سوچتا تھا کہ ہم تو دو ہی لوگ ہیں پھر اتنی بڑی چٹائی کیوں ؟ اس سوال کا جواب عیدگاہ میں اسطرح سے ملتا کے بہت سے لوگ بغیر چٹائی کے ہی آجاتے تو والد صاحب انہیں اپنی چٹائی پر بیٹھنے کیلئے جگہ دیتے۔ نماز بعد عیدگاہ پر ہی والد صاحب سے بغل گیر ہونا ایک الگ ہی احساس پیدا کرتا۔ گھر میں داخل ہوکر زور سے سلام کرتا، سب سے پہلے امّی سے ملتا جوپیشانی چوم کر دعائیں دیتیں۔ بھلا یہ باتیں یہ کون بھول سکتا ہے۔ آج ماضی کی عیدکی یادیں رہ گئی ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان یادوں کو آج کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں لیکن یہ بہت مشکل ہے۔ 
عمران عمر، شیدا اردو ہائی اسکول، مالیگاؤں 
بچپن کی عید آج بھی یاد ہے


بچپن کی عید کا دور آج بھی یاد آتا ہے کہ اس وقت ہم کو (کم از کم) ۲؍روپے یا ( زیادہ سے زیادہ) ۵۰؍روپے عیدی ملا کرتی تھی اور دن بھر ہم اس رقم کو خرچ کیا کرتے تھے۔ آج بچوں کو۱۰۰؍روپے عیدی ملتی ہے مگر وہ سکون نہیں ملتا۔  
عبد السمیع فوزان تنگیکر، پنویل 
بدلی بدلی نظر آتی ہے عید


بچپن کی عید واقعی بچپن کی عید تھی۔ اس وقت عسرت تھی آج حالات قدرے بہتر ہیں اس کے باوجود جو لطف بچپن کی عید میں تھا اس کا تصور محال ہے۔ عید کے دن صبح صبح تیار ہوناکون بھول سکتا ہے۔ بمشکل سو پچاس روپے عیدی ملتی۔ اسے خرچ کرنے اور دو بارہ پیسوں کیلئے والدہ سے ضد کرنے کا کچھ الگ ہی لطف تھا۔ گھر میں بھائیوں کا سب کا کپڑا یکساں ہوتا۔ تھان سے کٹوا کر لایا جاتا اور ایک ہی درزی سے سلوایا جاتا۔ عید کی نماز کے بعد عید گاہ میں لگنے والے میلے میں جاکر سب سے پہلے کچھ کھایا پیا جاتا۔ اس کھانے پینے میں اس قدر مگن رہتے تھے کہ کپڑوں کے گندے ہونے کا احساس نہیں ہوتا چنانچہ اکثر کپڑوں پر کھانے کا مسالہ گرجاتا اور کپڑے خراب ہو جاتے۔ اسے اپنے انداز میں صاف کرنے کی کوشش میں کپڑامزید گندہ ہوتا۔ میلہ دیکھ کر گھر لوٹنے پر والدہ کپڑے کی حالت دیکھ کر کہتیں چلا اتار دے، عید میں پہننا ہے اس کو۔ ایک چیز جواب تک ذہن میں محفوظ ہے بلکہ جدید آلات کے آنے کے سبب اس کی کمی محسوس ہوتی ہے وہ ہے عید کی نماز کے لئے لوگوں کو بلانے کی خاطر لگائی جانے والی صدا۔ پہلے مائیک نہیں تھا تو گاؤں میں جن لوگوں کی آواز بلند ہوتی تھی وہ نماز سے قبل مسجد کی چھت پریا اس بلند جگہ پر جہاں سے اذان دی جاتی تھی، آواز لگاتے۔ لیکن اب عید کی صبح کوئی کسی کو نماز کے لیے آواز نہیں لگاتا، نہ ہی گھر میں بھائیوں کے یکساں کپڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی سو پچاس روپے کی عیدی میں کام چلتا ہے اب تو کچھ زیادہ ہی بدلی بدلی نظر آتی ہے عید الفطر۔ 
حافظ افتخاراحمدقادری، کریم گنج، پورن پور 
۲۰؍ سال پہلے کی عید اب یاد بن گئی ہے


بچپن کی‌عید کا مزہ آج بھی یاد آتا ہے۔ عید کی نماز کے بعد گھر میں دادا دادی جان ابا اماں سے پہلے عید ملنے کے بعد پھر عیدی جمع کر‌نے لگ جاتے اور اس کے بعد سیر وتفریح کیلئے جاتے تھے۔ آج وہ عید کو یاد کرتے ہیں کہ کیا دور تھا، اب وہ دور نہیں آسکتا۔ اس وقت کی خوشی اورملنا جلنا آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہے۔ آج تو پہلے سے زیادہ عیدی مل جاتی ہے مگر وہ ناکافی ہوتی ہے کیونکہ آج ہر چیزمہنگی ہوگئی ہے، اس کے علاوہ اور بھی کچھ بدل گیا ہے۔ ۲۰؍ سال پہلے کی عید الفطر اب یاد بن کر رہ گئی ہے۔ 
شکیل پٹھان، اولڈ پنویل 
عید مطلب نئے کپڑے، عیدی اور عیدگاہ!


زما نہ بڑی تیزی سے بدل گیا۔ آج جب ہم ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کل کی بات ہے۔ نہیں ! بات کو تقریباً۴۰؍ سال گزر چکے ہیں۔ عید پر سب سے زیادہ فکر نئے کپڑوں کی ہوتی تھی۔ نئے کپڑے کب ملیں گے۔ اکثر کپڑے اس وقت آتے جب ٹیلر اپنی دکان پر بورڈ لگا چکے ہوتے کہ’ نیا کام نہیں لیا جائے گا‘۔ پھر شروع ہوتا نیا ٹیلر تلاش کرنے کا سلسلہ، جب وہ مل جاتا تو گویا قلعہ فتح ہو گیا۔ مگر ٹیلر صاحب اس شرط پہ کپڑا لیتے کہ چاند رات پر ہی کپڑے ملیں گے۔ ان کی ہر شرط منظور تھی۔ چاند رات کو دوستوں کی محفل میں طے ہوتا کہ عید گاہ کیسے جانا ہے۔ دراصل ہمارے گاؤں میں عیدین کی نماز صرف عید گاہ پر ہی ادا کی جاتی ہے۔ عید گاہ ہمارے گھر سے تقریباً ۲؍ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ محلے کا ہر بچہ عید گاہ پر ضرور جا تا ہے۔ یہ روایت گاؤں میں آج بھی برقرار ہے۔ رات میں ہی محلے میں سروے کیا جاتا کہ کس کے گھر کے پاس ٹرک کو نہلایا جا رہا ہے ‌۔ اس کا یہ مطلب کہ یہ ٹرک کل عید گاہ جانے والا ہے۔ ٹرک ڈرائیور کو بھی خوشی ہوتی ہے کہ اس کے ٹرک میں زیادہ سے زیادہ بچے عید گاہ جانے والے ہیں۔ صبح نئے کپڑے پہن کر سارے دوست اس ٹرک کے پاس پہنچ جاتے۔ عید گاہ کا منظر اپنے آپ میں دلکش ہوتا۔ ہر جانب سے لوگ ہی لوگ آتے ہوئے نظر آتے۔ اگر قاضی صاحب سے پہلے عید گاہ پہنچ گئے تو قاضی صاحب اور خطیب صاحب کے قافلے کو آتا دیکھنا بھی بڑا دلکش ہوتا ہے۔ قاضی صاحب اور خطیب صاحب اپنی روایتی شیروانی اور پگڑی پہنے ایک گھوڑا گاڑی میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ان کے آگے ان کا جھنڈا لئے دو شخص چلتے رہتے اور ان کےآگے ایک بیل گاڑی میں نوبت اور شہنائی بجاتے ہوئے کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ شہر کے جس چوراہے سے قاضی صاحب کا یہ قافلہ گزرتا وہاں کے لوگ ان کے قافلے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح عید گاہ پہنچتے پہنچتے یہ قافلہ ہزاروں لوگوں پر مشتمل ہو جاتا ہے۔ عیدی ملنے کی خوشی میں عید گاہ سے گھر کا سفر کب ختم ہو جاتا معلوم ہی نہیں پڑتا۔ عید کے دوسرے روز (یعنی باسی عید) کو گاؤں کی درگاہ پر ایک عید میلا لگتا ہے جس میں کھانے پینے کی بہت ساری چیزوں کے علاوہ مختلف قسم کے جھولے آتے۔ وہاں جانا ہم بھائی بہنوں کے لیے لازمی ہوتا، گویا عیدی کے جو دس بیس روپےملتے تھے وہ اسی میلے کیلئے ہوتے تھے۔ اب بھی صرف بچپن کی یادوں کو تازہ کرنےکیلئے یہ میلہ دیکھنے چلاجاتا ہوں۔ 
ممتاز احمد شمشیر خان گولی بار، سانتا کروز
رات بھر گلی محلے میں رت جگے کا عالم ہوتاتھا

پاورلوم اور میناروں کے شہر مالیگاؤں کی شناخت اس کی منفرد تہذیب کی وجہ سے رہی ہے۔ ۶۵-۶۰؍ سال قبل آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، گنے چنے معروف محلے جو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واقع ہیں جن میں نیا پورہ، اسلام پورہ، خوشامد پورہ، رسول پورہ اور قلعہ وغیرہ شامل ہیں، کافی اہمیت کے حامل تھے۔ ہر محلہ اور علاقے سے دوستی اور یاری تھی۔ پرانے سکے اکنی، دونی کا چلن تھا جسے عید کی خوشیوں کیلئے جمع کیا جاتا تھا۔ غربت بہت زیادہ تھی مگر چیزیں سستی تھیں۔ چاند رات کی رونق اور اس کی چہل پہل، بازاروں میں لوگوں کا ہجوم اور بڑوں کی انگلیاں تھامے جوتے ( ہوائی چپل ) اور ٹوپی ( گاندھی ٹوپی ) کی خریداری اور رات بھر گلی محلوں اور گھروں میں رت جگے کا عالم اور علی الصبح نہا دھو کر، نئ قمیص اور پائجامہ اور سر پر ٹوپی پہن کر اپنے دوستوں اور بڑے بوڑھوں کے ساتھ لشکر والی عید گاہ کی جانب تکبیر کی صدائیں بلند کرتے، ساتھ ہی سنیما ہال پر لگے نئی فلموں کے پوسٹر پر اچٹتی نظر ڈالتے ہوئے عید گاہ پہنچتے مگرتھکان کا احساس تک نہ ہوتا۔ یاد رہے کہ پورے شہر کے لوگ لشکر والی عید گاہ پر ہی دوگانہ اد کرتے جو شہر سے کافی دور تقریباً۷-۶؍کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ رکشہ اور دیگر سواریاں ناپید تھیں، پیدل جانا اور پیدل دوسرے راستے سے گھر واپس آنا اور شیرخورما اور دیگر پکوانوں سے دوستوں اور رشتہ داروں کی ضیافت کرانا، ایسی خوشگوار دوستی اور بھائی چارے کا منظر جس پر انسانیت عش عش کرے۔ عید گاہ پر دوگانہ کے بعد ایک دوسرے سے گلے ملنا، مصافحہ کرنا اور عید کی مبارکباد پیش کرنا اور سب سے بڑی بات ہندوؤں کے سربراہان کا اپنا مسلم بھائیوں مذہبی، سیاسی اور سماجی لیڈران کو گلہائے عقیدت پیش کرنا، اور انہیں عید کی مبارک باد پیش کرنا، بڑا خوبصورت منظر پیش کرتا تھا۔ اب وہ یادیں عہد پارینہ ہو گئی۔ 
انصاری صادق، حسنہ عبدالملک مدعو، وومینس ڈگری کالج کلیان
بچپن کی عید کی بس یاد باقی ہے


عید الفطر مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ عید کی نماز ادا کرنے سے فطرہ کی تقسیم کی جاتی ہے تاکہ غریب بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔ اسی وجہ سے اس کو عید الفطر کھتے ہیں۔ بچپن میں عید کے موقع پر سال میں ایک ہی بار ایک نامور کمپنی کی چپل خرید لیا کرتے تھے جسے عید کے دن پہننے میں بہت خوشی محسوس ہوتی تھی۔ بچپن کی عید کی یہ بات اور بھی کئی باتیں اب تک یاد ہیں ۔ عظیم شاعر میر انیس نے کیا خوب کہا ہے؎
دنیا بھی عجب سراے فانی دیکھی /ہر چیز ں یہاں کی آنی جانی دیکھی/ جوآکے نہ جائے وہ بڑھا پا دیکھا /جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی/۔ 
رستم عبدالطیف پٹھان، سابق ڈرائنگ ٹیچر پٹیل ہائی اسکول ممبرا تھانے 
آج ہمارے بچوں کی عید کل ان کیلئےیاد گار بن جائیگی 


آج ہم سب جس عمر میں عید منا رہے ہیں، وہ عہد حاضر کے بچوں کے لیے آنے والے دونوں میں اتنا ہی یادگار ہو جائے گا، جتنا اس وقت ہمارے اپنے بچپن کی عید یادگارہے۔ بچپن کی عید کی تیاریوں میں بازار کی خریداری پر انحصار کم اور گھریلو مصنوعات پر زیادہ تھا، عید کے دن عید کا جوڑا پہنے جب ہم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گھروں میں شیر خورما کھانے نکلتے تھے تو ہراہل خانہ کی کوشش ہوتی تھی کہ پہلے ان کے یہاں کھا لیا جائے اور نہ جانے پر وہ اپنائیت کے ساتھ آواز دے کر بلاتے تھے۔ اس وقت سب کے دروازے کھلے تھے۔ یہ روایات دھیرے دھیرے ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ اب بن بلائے لوگ جانا نہیں چاہتے۔ وہ تشویش میں ہوتے ہیں کہ معلوم نہیں دروازے کے باہر سے آواز دینے پر دروازہ کھلتا ہے یا نہیں اور گھر کے افراد گھر کے اندر اپنی عید منانے میں مگن ہوتے ہیں۔ 
سعیدالرحمٰن محمد رفیق گرین پارک روڈ، شیل تھانے

بچپن کی عید کی بات ہی الگ تھی 


بچپن میں عید کے دن کی بات ہی نرالی ہوا کرتی تھی۔ عید کے آمد کی خوشی میں رمضان المبارک کا پورا مہینہ خوشی میں گزر جاتا تھا۔ نہ کسی بات کی فکر اور نہ کسی بات کی پروا۔ بس یہی خوشی ہوا کرتی تھی کہ عید کے دن عیدی ملے گی، سیر و تفریح ہوگیاور بھی بہت کچھ۔ اب جب یہ یاد آتا ہے تو ایک مسکراہٹ سی آجاتی ہے۔ اس بات پر کہ ہم کتنے معصوم تھے؟ اب جب ہم بڑے ہوگئے اور ذمہ داری آگئی تو محسوس ہوتا ہے کہ بچپن کی باتیں تو بس ایک دل کی تسلی ہوا کرتی تھیں۔ عورتوں کے لئے تو زندگی مشکل بن جاتی ہے۔ روزہ کی حالت میں عبادت اور افطاری کی تیاریوں میں وقت کب گزر جاتا ہے اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی ساتھ اب چونکہ زمانہ بدل گیا ہے، اور رمضان کا مقصد صرف روزہ اور عبادت نہیں رہ گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بازاروں میں رات گزارنا، مختلف انواع و اقسام کے پکوانوں سے اپنے دسترخوان سجانا، مختلف طرز کے لباسوں کی خریداری بھی ہو گیا ہے اور اب سیر تفریح تو دور عیدی بھی نہیں ملتی ہے۔ 
جوّاد عبدالرحیم قاضی (ساگویں، راجاپور، رتناگیری)
بچپن کی عید بے فکری، محبت اور سادگی کی علامت تھی 


بچپن کی عید ایک ایسی یادگار خوشبو کی مانند ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ مدھم تو ہو جاتی ہے لیکن کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ وہ دن تھے جب عید صرف نئے کپڑوں اور جوتوں اور عیدی تک محدود نہیں تھی بلکہ خلوص، محبت اور بے فکری کا حسین امتزاج ہوا کرتی تھی۔ بچپن کی عید میں ایک خاص قسم کی معصومیت تھی۔ نہ دنیا کے غم نہ فکریں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ....وہ پرانی عیدی کے پاکٹ جس میں نوٹ کم اور جذبات زیادہ ہوا کرتے تھے۔ 
رمضان کے آخری دن چاند رات پر مہندی لگانا، امی کے ساتھ گھر کے دروازے اور کھڑکیوں پر نئے پردے لگانا، عید کی نماز کے بعد شیر خرما کھانے کا لطف.. پھر رشتہ داروں کے یہاں جانا، محلے کی سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا، میلوں میں جانا یہ وہ یادیں ہیں جو دل کو اب بھی خوش کر دیتی ہیں۔ آج بھی جب وہ دن یاد آتے ہیں تو دل بے اختیار مسکرا اٹھتا ہے۔ 
مومن ناظمہ محمد حسن (لیکچرر، ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے )
بچپن کی عید سا لطف اب کہاں ؟ 


بچپن انسانی زندگی کا سب سے بہترین حصہ ہوتا ہے اور اس سے وابستہ کچھ تلخ و شیریں یادیں ذہن کی میراث بن جاتی ہیں۔ بچپن کی عیدیں آج بھی ذہن کے گوشوں میں اس طرح بسی ہوئی ہیں جیسے کل ہی بات ہو۔ بچپن کی عید سا لطف اب کہاں ؟ رمضان کی آمد کا بےچینی سے انتظاراس لئے بھی کیا جاتا تھا کہ نئے کپڑے جو بننے والے ہوتے تھے۔ چونکہ وہ زمانہ ہی کچھ ایسا تھا کہ سال بھرمیں صرف ایک جوڑا عید کے موقع ہی پر خریدا جاتا تھا اور دوستوں کی محفل میں بڑے فخر سے اس جوڑے کی کوالیٹی اور کس معروف ٹیلر کے یہاں اسے سلوایا گیا؟ اس پر سیرحاصل تبصرے کئے جاتے تھے اور اس پربھی دیگر ساتھیوں سے سبقت حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی تھی مگر آج ہر مہینے نیا جوڑا پہننے پر بھی وہ خوشی حاصل نہیں جو سال کے ایک جوڑے کو پہن کر ہوتی تھی۔ بعض اوقات تو معاشی تنگی کے سبب اس ایک جوڑے سے بھی محروم ہونا پڑتا تھا۔ اب بڑے ہونے پر عید کے چاند نظر آنے کا نہ وہ بچپن سا تجسس ہے نہ انتظار۔ قدریں کتنی تیزی سے بدل جایا کرتی ہیں ۔ ا س احساس سے دل دکھتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ بچپن کے وہی سنہرے دن لوٹ آئیں۔ ہم اپنے بچوں میں بھی اپنے بچپن کو تلاشتے ہیں مگر مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ شاید نسلِ نو کو بھی وہ بچپن نصیب نہیں جو ہمیں نصیب تھا۔ 
صابر مصطفےٰ آبادی(ساودہ)
بچپن کی عید کا زمانہ زندگی کا سب سے اچھا لمحہ ہوتا ہے


عید کی خوشی میں راتوں کی نیندیں اڑ جاتی تھی، کیونکہ اس وقت ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اور بہت اچھے طریقے سے عیدالفطر کا لطف لیتے تھے، سویاں، شیر خرما، پوڑی، سواری، طرح طرح کے پکوانوں کے ذائقے سے لطف اندوز ہوتے تھے اور سب سے بڑی خوشی ہمیں عیدی ملنے پر ہوتی تھی، کیونکہ جیب خرچ بہت معمولی ملتا تھا اور ہمیں عیدی کے پیسے سب سے وصول کرکےاپنی من پسند چیزیں خریدنے کی امید رہتی تھی۔ ہمیں یاد آتا ہےاپنا بچپن کا زمانہ، جب ہمیں عیدی ملتی تو ہم سب سے پہلے آئس کریم لے کر کھاتے تھے اور دوستوں کے ساتھ پیسے ملاکر پارٹی کیا کرتے تھے اور باسی عید کے دن تو سیرو تفریح تو ہمارے لئے لازمی حصہ بن جاتا تھا، ایک مرتبہ عید کے موقع پر ہم حاجی علی گھومنے جارہے تھے۔ وسئی سے ممبئی سینٹرل تک ٹکٹ لئے اور ٹرین پکڑے، ہمیں دادر اترکر مہا لکشمی کے لئے دھیمی ٹرین پکڑنی تھی، ایک صاحب ٹرین میں مشورہ د یا کہ آپ لوگ ممبئی سینٹرل چلے جایئے، بھیڑ زیادہ ہے، دادر سے آپ ٹرین میں نہیں چڑھ پائیں گے، ہم ویسے ہی کئے، ممبئی سینٹرل سے ٹرین پکڑ کر مہا لکشمی اتر ہی رہے تھے کہ ٹی سی نے ہمیں دیکھ لیا اترتے ہوئے، اور ہمیں پکڑلیا ہم نے ٹکٹ دکھایا تو، ٹی سی بولا یہ ٹکٹ نہیں چلے گا۔ ایک مشورہ ہمیں بھاری پڑا، بھیڑ سے بچنے کے لئے ہم نے کیا تھا، اس وقت ہمیں اتنا شعور نہیں تھا، بہر حال جتنا عیدی کے پیسے ملے تھے، سب ٹی سی نے خالی کر والئے، آدھا گھنٹہ پریشان کرکے چھوڑ دیا، یہ بھی باسی عید والا دن ہمیشہ ہمیں، یاد رہے گا۔ 
ایاز احمد قاسمی(مدنی مسجد وسئی پھاٹا )
گاؤں میں عید کے میلے یاد آتے ہیں 


بچپن کی یادیں جذباتی وابستگی کیساتھ دل سے جڑی ہیں۔ بچپن کی عید کی یادوں کو کریدنے کیلئے مجھے پچاس پچپن سال ماضی کو کھنگا لنا پڑا۔ کوئی چھ سات سال عمر رہی ہوگی۔ بڑی بے صبری کیساتھ رمضان المبارک کا انتظار رہتا تھا۔ ماموں ممانی خصوصا خالہ خالو، چچا چچی اور پھوپھا پھوپی کی طرف سے عیدی ملنے کی خوشی رہتی تھی۔ پورے ماہ کے روزے پا بندی کیساتھ رکھے جاتے تھے اور والد صاحب کی انگلی تھامے مسجدوں کی جانب چل پڑتے تھے۔ تیس روزے پورے ہونے کے بعد عید کے دن نیا لباس زیب تن کر تے، بھائیوں کے ساتھ فرط مسرت کیساتھ بغلگیر ہوتے اورگھرپہنچ کر والد ہ کے ہاتھوں بنے پکوان شر خرما اور سیوئیاں وغیرہ سے لطف اندوزہوتے۔ گاؤں میں لگے عید میلے میں جھولا جھولتے۔ بندروں کی کرتب بازی دیکھ کر لوٹ پوٹ ہو تے۔ دوسرے دن باسی عید کو کزن بھائی بہنوں والدین ماموں ممانی خالہ خالو اور پورے کنبہ کے ساتھ شہر ممبئی کی سیر کرتے۔ رانی باغ کی سیر کرنے نکل جاتے ۔ تیواسی یعنی عید کے تیسرے دن حاجی علی اور درگاہ ماہم کی زیارت کرتے۔ غرض بچپن کی عیدیں بڑے جوش و خروش کیساتھ مناتے اور جب تک بچپن برقرار رہا شدت کیساتھ ہر سال رمضان کا انتظار رہتا اور کیو نکر نہ ہو تا کہ آخرعیدی بھی تو ملتی تھی۔ بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی، وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے۔ 
زبیر احمد بوٹکے (نالا سوپارہ)

اس ہفتے کا عنوان
تفریحات کا شعبہ تیزی سے مستحکم ہورہا ہے۔ پہلے تفریح کے محدود ذرائع تھے مگر اب ہر دوسری چیز پر تفریح کا سامان موجود ہے۔ اسی پس منظر میں اس بار عنوان ہے : 
تفریحات کا بدلتا منظر نامہ
اس موضوع پر آپ دو تین پیراگراف پر مشتمل اپنی رائے لکھ کر انقلاب کے وہاٹس ایپ نمبر (8850489134) پر منگل کو شام ۸؍ بجے تک بھیج دیں۔ منتخب تحریریں ان شاء اللہ اتوار (۶؍ اپریل) اور اس کے بعد کے شمارے میں شائع کی جائینگی۔ 
نوٹ: مضمون مختصر اور جامع ہو اور موضوع پر ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK