• Mon, 15 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: اقلیتوں کے حقوق کا دن:آج کے حالات میں حصولِ حقوق کیلئے کیاکرناچاہئے؟

Updated: December 14, 2025, 4:17 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

ہندوستان میں ہر سال۱۸؍ دسمبر کو اقلیتوں کے حقوق کا دن (مائناریٹیز رائٹس ڈے) منایا جاتا ہے تاکہ مذہبی، لسانی اور نسلی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کا مقصد مساوات اور ثقافتی بقا کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ دن۱۹۹۲ء میں اقوامِ متحدہ کے اعلامیہ کی منظوری کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر قومی کمیشن برائے اقلیت کی جانب سے ملک بھر میں مختلف پروگرام منعقد ہوتے ہیں جن کا مقصد باہمی اتحاد کو فروغ دینا اور امتیازی رویوں کے خاتمے کیلئے کوشش کرنا ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے ہم نے قارئین سے مذکورہ سوال کیا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

تعلیمی بیداری اور قانونی حکمت عملی کا استعمال


بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں 
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہُنر کیا 
۱۸ ؍دسمبر کو یوم اقلیتی حقوق منانے کی اہمیت آج کے ہندوستانی تناظر میں بے حد بڑھ گئی ہے۔ یہ دن صرف ایک سالانہ تقریب نہیں، بلکہ ملک کے دستوری اقدار (مساوات، تنوع اور شمولیت) پر قائم رہنے کے عہد کی تجدید کا مطالبہ کرتا ہے۔ بڑھتے ہوئے سماجی فاصلوں اور حقوق کی پامالی کے واقعات کے پیش نظر، یہ دن اقلیتی برادریوں میں اعتماد کی بحالی اور بنیادی تحفظات کی یاد دہانی کا مؤثر ذریعہ ہے۔ 
اقلیتوں کو موجودہ حالات میں حقوق کے حصول کیلئے صرف دفاعی نہیں بلکہ تعمیری اور مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ہمیں ذیل میں دیئے گئے نکات پر کام کرنا ہوگا۔ 
تعلیم اور معاشی استحکام: تعلیم، ہنر مندی، اور معیاری اداروں تک رسائی کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے۔ معاشی خود انحصاری سماجی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کی بنیادی کنجی ہے اور اس سے سیاسی اداروں میں مؤثر نمائندگی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ 
باہمی اتحاد اور مکالمہ: مختلف اقلیتی طبقات (مسلمان، سکھ، عیسائی، دلت/بشمول دیگر) کے درمیان مشترکہ مشاورت اور اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی، اکثریتی طبقے کے بیدار حلقوں کے ساتھ تعمیری مکالمہ شروع کیا جائے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور باہمی اعتماد فروغ پائے۔ یہ سماجی مضبوطی قانونی جنگ کی کامیابی کی بنیاد بنے گی۔ 
فوری قانونی جدوجہد: حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں آئینی اداروں اور عدلیہ کا استعمال فوری، مربوط، اور مشترکہ طور پر کیا جائے۔ فوری رِٹ پٹیشنز (آرٹیکل۳۲/۲۲۶) کا استعمال اور مضبوط دستاویزی ثبوتوں (ویڈیو، گواہ) پر مبنی مشترکہ ’کلاس ایکشن‘ سب سے مؤثر ترین راستہ ہے۔ یو اے پی اے اور این ایس اے جیسے سخت قوانین کے غلط استعمال اور غیر آئینی ریاستی کارروائیوں کے خلاف بنیادی حقوق (آرٹیکل ۱۴، ۱۵، ۲۱) اور عبادت گاہوں کا تحفظ ایکٹ ۱۹۹۱ء سب سے بڑی ڈھال ہیں۔ 
خلاصہ: قانون اب بھی ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اگر تمام اقلیتی برادریاں مل جل کر، تعلیم اور شعور کی روشنی میں، تیزی اور حکمت عملی سے اس ہتھیار کو استعمال کریں گی، تو نہ صرف اپنے حقوق کا تحفظ ممکن ہوگا بلکہ ملک کی ترقی میں ان کی شراکت داری بھی یقینی ہو سکے گی۔ 
مرزا عبدالقیوم ندوی 
(ترجمان : آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن، اورنگ آباد)
تعلیمی، معاشی، سیاسی اور سماجی حیثیت کو مضبوط بنائیں 


یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ محض ایک رسم نہیں بلکہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے جس پر غور و فکرکے ساتھ ساتھ آئینی حقوق اور سماجی مساوات کیلئے عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ ’’موجودہ سیاسی و سماجی فضا میں جب شناخت کی بنیاد پر تفریق، عدمِ اعتماد اور خوف کے احساسات بڑھ رہے ہیں، یہ دن ہمیں باور کراتا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ دراصل جمہوری نظام کے استحکام کی ضمانت ہے۔ کسی بھی معاشرے کی صحت مند ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب، زبان، نسل، تحفظ اور برابری کے مواقع میسر ہوں۔ ‘‘ اقلیتی طبقے کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ جمہوری نظام میں کوئی بھی جماعت ملک کی خدمات کیلئے نہیں بلکہ اپنے مفاد کیلئے سرگرم رہتی ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت کے تحت وقف بورڈکی صورتِ حال، آئے دن ہورہےغیر اطمینان بخش عدالتی فیصلے اور الیکشن کمیشن کی بے لگام کار کردگی اس کی واضح مثالیں ہیں اور اقلیتی طبقہ خوش گمانی اور بد گمانی کے درمیان ہمیشہ معلق رکھا جاتا ہے۔ 
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اقلیتی طبقہ اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے حکومت ہی پرمکمل اعتماداور انحصار کیوں کرتا ہے؟ خود کوئی اقدام کیوں نہیں کرتا۔ مثال کیلئے اقلیتی طبقے نےتعلیمی، معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی سطح پر کوئی شناخت بنائی ہے یا نہیں، اگر بنائی ہے تو اکثریتی طبقے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں ؟ اقلیتی طبقے کو چاہئے کہ مذہبی شعور کے ساتھ ساتھ دنیوی اور عصری تقاضوں سے بھی باخبر ہو۔ موجودہ حالات میں اقلیتوں کیلئے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیمی، معاشی، سیاسی اور سماجی حیثیت، مضبوط بنانے کو اولین ترجیح دیں۔ مضبوط تعلیم، دستوری اور سیاسی شعور اور معاشی استحکام ایسے ہتھیار ہیں جو کسی بھی کمیونٹی کو اندرونی اعتماد عطا کرتے ہیں اوریہ سب کوئی عطیہ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ 
ڈاکٹر احرار احمد(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، ممبئی یونی ورسٹی)
عملی سطح پر مساوی مواقع، احترام اور تحفظ بھی ضروری ہیں 


ہندوستان میں ہر سال۱۸؍ دسمبر ’اقلیتوں کے حقوق کا دن‘ اس احساس کے ساتھ منایا جانا چاہئے کہ ایک مضبوط، باشعور اور ہم آہنگ معاشرہ اسی وقت وجود میں آ سکتا ہے جب ہر طبقہ اپنے مذہبی، لسانی اور تہذیبی تشخص کے ساتھ باعزت زندگی گزار سکے۔ اقوامِ متحدہ کے اعلامیے کی یاد میں منایا جانے والا یہ دن یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ آئینی حقوق اپنی جگہ اہم ہیں مگر عملی سطح پر مساوی مواقع، احترام اور تحفظ بھی ضروری ہیں۔ قومی کمیشن برائے اقلیتیں اس مقصد کیلئے مختلف پروگرام منعقد کرتا ہے، اگرچہ ان کا سماجی اثر محدود محسوس ہوتا ہے۔ تنوع، رواداری اور باہمی احترام پر مبنی سماج ہی اقلیتوں کی حقیقی ضرورت ہے۔ آج کے بدلتے حالات میں اس دن کی اہمیت اسلئے بھی بڑھ گئی ہے کہ ہر برادری کو اپنے کردار، ذمہ داری اور باہمی اتحاد پر نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 
اس پس منظر میں اقلیتوں کیلئے لازم ہے کہ وہ تعلیم، آگہی اور سماجی ذمہ داری کے ساتھ اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے منظم رہیں اور وہی انصاف اور توازن اپنے رویوں میں اپنائیں جو وہ دوسروں سے چاہتے ہیں۔ جہاں وہ اکثریت میں ہوں، وہاں مقامی اقلیتوں کے حقوق کا احترام بھی ان کی مشترکہ ذمہ داری ہے، چاہے کشمیر میں ہندو پنڈتوں کی مشکلات ہوں یا پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندو برادری کو درپیش مسائل، ایک منصف مزاج اور وسیع النظر طبقہ ہی اپنی جدوجہد کو اخلاقی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اعتدال پسندی، مکالمے اور مثبت سماجی کردار سے نہ صرف اقلیتوں کی آواز مضبوط ہوتی ہے بلکہ انہیں وہ وقار بھی ملتا ہے جو آئین نے ہر شہری کیلئے برابر رکھا ہے۔ ہندوستان کے تناظر میں مسلمانوں کی بڑی آبادی انہیں یہ ذمہ داری بھی دیتی ہے کہ وہ دوسری اقلیتوں کے مسائل کو سمجھیں، ان کا ساتھ دیں اور بہتر سماجی روابط قائم رکھیں تاکہ باہمی اعتماد اور ہم آہنگی فروغ پا سکے۔ 
فرید احمد خان(صدر اردو کارواں، ممبئی و اورنگ آباد)
جمہوریت صرف اکثریت کی حکمرانی نہیں بلکہ ہر حق کا تحفظ بھی ہے 


۱۸؍ دسمبر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہندوستان کا اصل حسن اس کے تنوع میں ہے اور اس کی طاقت اس کے اتحاد میں مضمر ہے۔ مذہب، زبان یا ثقافت کے اختلاف کے باوجود ہر شہری برابری، عزت اور بنیادی حقوق کا مستحق ہے۔ جمہوریت صرف اکثریت کی حکمرانی نہیں، بلکہ ہر آواز کی عزت اور ہر حق کے تحفظ کا نام ہے۔ ہمارا آئین روشنی کا مینار ہے جو ہر شہری کیلئے راہنما ہے: دفعہ۱۴؍ اور۱۵؍ مساوات کی ضمانت دیتے ہیں، دفعہ۲۵؍ تا۲۸؍ مذہبی آزادی کی حفاظت کرتے ہیں اور دفعہ۲۹؍ا ور۳۰؍ اقلیتوں کو ثقافتی ورثہ سنبھالنے اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کے حقوق فراہم کرتے ہیں۔ یہ دفعات محض قوانین نہیں ہیں بلکہ ہر فرد کے وقار اور تحفظ کے ستون ہیں۔ 
اقلیتوں کو بااختیار بنانے میں ہمارا فعال کردار انتہائی اہم ہے: سیاسی، سماجی اور تعلیمی میدان میں حصہ لینا، معیاری تعلیم اور ہنر کی ترقی کو فروغ دینا اور سرکاری اسکیموں سے بھرپور فائدہ اٹھانا۔ بین المذاہب مکالمہ اعتماد پیدا کرتا ہے اور تحقیق و شواہد تعصب کا سب سے مؤثر جواب ہیں۔ فیصلہ سازی کے عمل میں مؤثر شرکت اقلیتی ترقی کا بنیادی تقاضا ہے۔ سیاسی نمائندگی صرف ووٹ ڈالنے تک محدود نہیں بلکہ سماجی، تعلیمی اور مقامی اداروں میں فعال کردار بھی اسی کا حصہ ہے۔ 
ہندوستان کی عظمت اس کے تنوع اور ہر شہری کی آزادی میں مضمر ہے۔ جب ہر فرد خود کو محفوظ، باوقار اور بااختیار محسوس کرے، تبھی ملک حقیقی جمہوری بلندیوں اور ترقی کی روشنی کو چھو سکتا ہے۔ یہ۱۸؍ دسمبر ہمیں اس عزم کی یاد دلاتا ہے کہ ہر حق، ہر آواز اور ہر شہری ملک کیلئے قیمتی ہے اور ہمارا مشترکہ عزم ہی ملک کی ترقی کا سب سے مضبوط ستون ہے۔ 
سیّد خوش ناز جعفر حسین (اسسٹنٹ ٹیچر، ممبئی)
یہ دن کوئی رسمی تقریب نہیں بلکہ آئینی انصاف اور تجدید عہد کا دن ہے


ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کا دن کوئی رسمی تقریب نہیں بلکہ آئینی انصاف، قانونی مساوات اور سماجی ہم آہنگی کی بنیادی قدروں کی تجدیدِ عہد کا دن ہے۔ موجودہ حالات میں، جب مذہبی اور لسانی بنیادوں پر غلط فہمیاں، امتیازی رویّے اور عدمِ اعتماد کے واقعات سامنے آ رہے ہیں، اس دن کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ آئینِ ہند کے آرٹیکل۱۴، ۱۵، ۲۱، ۲۵ ؍اور آرٹیکل ۲۹؍ اور ۳۰؍ اقلیتوں کو مساوی مواقع، مذہبی آزادی، ثقافتی و تعلیمی شناخت اور باعزت زندگی گزارنے کا دستوری تحفظ فراہم کرتے ہیں، جو ہر ریاستی ادارے کیلئے لازم الاتباع ہے۔ 
ان حالات میں اقلیتوں کیلئے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ وہ محض اپنے حقوق سے باخبر نہ رہیں، بلکہ ان کے نفاذ کیلئے مؤثر، قانونی اور آئینی راستوں سے رجوع کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں عدالت عالیہ، عدالت عظمیٰ، نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز یا متعلقہ سرکاری فورمز سے قانونی چارہ جوئی کرنا ہی وہ راستہ ہے جسے آئین نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے۔ قانون ہمیشہ انہیں مدد فراہم کرتا ہے جو اپنے حقوق کا دفاع سنجیدگی، وقار اور اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں۔ 
۱۸؍ دسمبر کا دن اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ اقلیتوں کی اصل طاقت تعلیم، قانونی شعور، باہمی اتحاد اور جمہوری، پرامن جدوجہد میں پوشیدہ ہے۔ ایک مضبوط، کثرت پسند اور انصاف پر مبنی ہندوستان اسی وقت ممکن ہے جب ہر شہری اپنے حقوق کے تحفظ اور ان کے احترام کیلئے آئینی نظام پر مکمل اعتماد کے ساتھ عمل کرے۔ 
ایڈوکیٹ مہ جبین منظور احمد خان (قانون داں، گوونڈی)
آج کے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی حالات میں اس دن کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے


اس دن کا مقصد مذہبی، لسانی اور نسلی اقلیتوں کے حقوق کے فروغ، ان کے تحفظ اور ملک کی ہمہ رنگ ثقافت میں ان کے مثبت کردار کو اُجاگر کرنا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایک جمہوری ملک کی اصل طاقت اس کی متنوع آبادی اور سب کیلئے مساوی مواقع ہیں۔ آج کے بدلتے ہوئے سماجی و سیاسی حالات میں اس دن کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ایک طرف ملک میں ترقی، ٹیکنالوجی اور تعلیم کے نئے دروازے کھل رہے ہیں، تو دوسری طرف بعض جگہوں پر غلط فہمیاں، تعصبات اور باہمی دوریاں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں اقلیتی برادری کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آئینی حقوق سے باخبر رہے اور ان کے تحفظ کیلئے پُرامن، منظم اور دانش مندانہ کوششیں کرے۔ 
سب سے پہلی ضرورت تعلیم کی ہے۔ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو کسی بھی برادری کو بااختیار بناتی ہے، اسے معاشی آزادی اور سماجی عزت دیتی ہے۔ اقلیتی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم، پیشہ ورانہ مہارتوں اور مسابقتی امتحانات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ دوسری اہم بات قانونی آگہی ہے۔ اقلیتوں کو اپنے حقوق، حکومتی اسکیموں اور آئینی تحفظات کے بارے میں واضح معلومات حاصل کرنی چاہئیں تاکہ وہ موقع ملنے پر ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر مثبت کردار ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ سماجی ہم آہنگی، بین المذاہب مکالمہ، اور یکجہتی کے جذبے سے ملک کی مجموعی فضا بہتر ہوتی ہے۔ اقلیتوں کو چاہئے کہ وہ نفرت یا اشتعال انگیزی کا جواب ہمیشہ حکمت، اخلاق اور قانونی راستوں سے دیں۔ 
آخر میں، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہندوستان کی خوبصورتی اس کی گنگا جمنی تہذیب میں ہے۔ جب اقلیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرتی ہیں، تو ملک مضبوط ہوتا ہے اور جمہوریت پروان چڑھتی ہے۔ 
مومن طہور محمد شبیر (لیب اسسٹنٹ رئیس جونیئر کالج، بھیونڈی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK