Inquilab Logo Happiest Places to Work

قاری نامہ: مسلم حکمرانوں سے متعلق نفرت انگیزی کے اسباق کے کیا نتائج نکلیں گے؟

Updated: July 28, 2025, 5:16 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

’قاری نامہ‘ کے تحت انقلاب کو بہت ساری رائے موصول ہوئیں۔ ان میں سے وقت پر پہنچنے والی منتخب آرا کو شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔

These efforts of NCERT will sow seeds of hatred in innocent minds which may prove destructive for the integrity of the country in the future. Photo: INN.
این سی ای آرٹی کی ان کوششوں سے معصوم ذہنوں میں نفرت کی بیج پیدا ہوگی جو آگے چل کر ملک کی سالمیت کیلئے تباہ کن بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔ تصویر: آئی این این۔

ملک کے مستقبل کیلئے خطرہ


تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے نام پر جس طرح مسلم حکمرانوں کو یکطرفہ طور پر ظالم اور جابر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، وہ صرف ایک مذہب یا قوم پر حملہ نہیں ہے بلکہ ملک کی گنگاجمنی تہذیب پر کاری ضرب ہے۔ مغل حکمرانوں اور مسلم بادشاہوں نےبرصغیر میں عدلیہ، تعمیرات، تعلیم، ادب، موسیقی اور فنون میں جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، انہیں دانستہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تاج محل، قطب مینار، جامع مسجد اردو زبان اور صوفی روایتیں مسلم حکمرانی کے وہ پہلو ہیں جو ہندوستانی تہذیب کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ تاج محل کی شان تو دکھائی جائے لیکن اس کے بانی شاہجہاں کو سخت گیر حکمراں کے طور پر بیان کیا جائے؟ ایسی تعلیم کا براہ راست اثر نئی نسل کی سوچ پر پڑے گا جو ملک کے اتحاد و سالمیت کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ تعلیمی ادارے نفرت نہیں، علم پھیلانے کیلئے ہوتے ہیں۔ اگر نصاب کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت زہر آلود کیا گیا تو اس کا انجام نفرت، تشدد اور سماجی تفریق کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ جب کسی قوم یا مذہب کو مسلسل منفی انداز میں پیش کیا جائے تو اس کانتیجہ سماجی نفرت مذہبی تقسیم اور معاشرتی تصادم کی صورت میں نکلتا ہے۔ 
رضوان ہمنوا سر ( ہاشمیہ ہائی اسکول ممبئی )
یہ ایک منظم اور منصوبہ بندسازش ہے


تعلیمی نصاب کو ایک مخصوص رنگ میں رنگنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے، وہ دراصل ملک کی گنگا جمنی تہذیب، سماجی ہم آہنگی، قومی یکجہتی، بھائی چار گی اور سماجی اقدار کو پامال کرنے کی منظم اور منصوبہ بندسازش ہے۔ اٹل بہاری کے دور میں مر لی منوہر جو شی وزیر تعلیم ہوا کرتے تھے۔ ان کی ایما پر تاریخ کے حقائق کو توڑمروڑ کر ایک نئی اور من گھڑت تاریخ لکھنے کیلئے آر ایس ایس نظریے کے حامل نام نہاد مؤرخین کی اک فوج تیار کی گئی۔ ان متعصب اور نام نہاد مورخین نے بابر، اکبر، اورنگ زیب اور دیگر مسلم بادشاہوں کو ظالم، جابر، قاتل اور سفاک بنا کر پیش کرنے کے ساتھ ہی انہیں پوری انسانی آبادی کا دشمن بھی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ نہ صرف تاریخ سے چشم پوشی ہے بلکہ معصوم بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کر نے کی مذموم کوشش بھی ہے۔ اب اسی ’تاریخ‘کو نصابی شکل دی جارہی ہے۔ اس میں مغل حکمرانوں کی اصل تصویر دکھانے کے بجائے آر ایس ایس نواز مورخین نے اپنی پسند کےمطابق منفی اندازمیں پیش کیا ہے تاکہ ملک کی دیگر اقوام مثلاً سکھوں، پارسیوں اور جینیوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مغل، ہندوؤں کے ساتھ ہی دیگر طبقوں کے بھی دشمن تھے۔ 
زبیر احمد بوٹکے ( نالا سوپارہ) 
یہ کوشش سماجی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتی ہے


نیشنل کریکیولم فریم ورک(این سی ایف ۲۰۲۳) کے تحت ’این سی ای آر ٹی‘ نے جماعت ہشتم میں مغل حکمرانوں کو’جابر‘ اور ’مندر شکن‘ جیسا نام دے کر منفی زاویے سے پیش کیا ہے۔ اس قسم کے متعصبانہ اسباق نہ صرف علمی دیانت کے خلاف ہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی سنگین نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب تاریخ کو زہر آلود انداز میں پڑھایا جاتا ہے تو طلبہ کے ذہنوں میں تعصب، نفرت اور تقسیم کی فضا جنم لیتی ہے، جو سماجی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتی ہے۔ مغلیہ دور کے فنون، ثقافت، نظم و نسق اور بین الثقافتی امتزاج جیسے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرنا تاریخ کے توازن کو بگاڑتا ہے۔ یہ تبدیلیاں ایک خاص سیاسی ایجنڈے کی عکاسی کرتی ہیں، جہاں مسلم حکمرانوں کی خدمات کو دانستہ طور پر مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ ماضی کے حقیقی تناظر سے محروم ہو جائیں گے اور موجودہ معاشرتی مسائل کو صحیح سیاق و سباق میں سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔ ایسی تعلیمی حکمت عملی فرقہ وارانہ خلیج کو مزید وسیع کریگی، جس سے قومی اتحاد، سماجی یگانگت اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچے گا۔ یہ روش نوجوان نسل کی تنقیدی سوچ، حقیقت پسندی اور فہم و فراست کو محدود کر دے گی۔ 
عبید انصاری ہدوی( غورى پاڑہ، بھیونڈی)
اس کا تصور ہی خوفناک ہے


تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کا کام تیزی سے جاری ہے۔ اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کا پورا انتظام’این سی ای آر ٹی‘ نے کر رکھا ہے کہ کسی بھی طرح طلبہ کے ذہنوں میں فرقہ واریت کا زہر سرایت کر جائے۔ اسی کے تحت اب اسکولی نصاب میں تبدیلی کے بعد طلبہ کو یہ’سمجھایا‘ جائےگا کہ ’مغل دور‘ہندوستانی تاریخ کا سیاہ ترین باب تھا جس میں ہندوؤں پر بے پناہ ظلم ہوئے۔ دراصل فرقہ پرست تنظیمیں چاہتی ہیں کہ تعلیمی اداروں میں بھی فرقہ پرستی کا ماحول پیدا ہو اور وہاں بھی طلبہ کے گروپوں کے مابین امتیاز پر مبنی سلوک کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے سے دورکر دیا جائے لیکن مستقبل میں اس کے جو بھیانک اثرات مرتب ہوں گے وہ طویل مدتی طور پر قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ مثلاً اس سے معاشرتی تقسیم، فرقہ وارانہ تشدد اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک بڑھےگا، اس کے ساتھ ہی اس کا گہرا اثر ہندوستانی فن، ثقافت پر بھی ہوگا جس سے پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ مسخ ہوگی جو اپنی رنگا رنگ تہذیب کے حوالے سے ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ اگر خدا نخوستہ ایسا ہوتا ہے تو مستقبل میں ملک کی کیا تصویر ہوگی، اس کا تصور ہی خوفناک ہے۔ 
رضوان عبدالرازق قاضی ( کوسہ ممبرا)
مختلف مذاہب کے درمیان دشمنی میں اضافہ ہوگا


نفرت انگیز اسباق معاشرے میں مسلمانوں کے خلاف تعصب، نفرت اور دشمنی کو فروغ دیں گے، جس سے فرقہ واریت اور نسلی کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے۔ ایسے اسباق طلبہ کے ذہنوں کو پراگندہ اور تاریخی حقائق کو مسخ کریں گے۔ مسلم حکمرانوں کی فتوحات، عدل، علم دوستی اور ثقافتی خدمات کو نظر انداز کرکے صرف منفی پہلوؤں پر زور دینا دراصل طلبہ کو متعصب بنانا اور اُنھیں تاریخی حقائق سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔ ایسے اسباق مختلف مذاہب کے درمیان دشمنی کو بڑھاوا دیں گے، بالخصوص مسلمانوں کے اندر ایک خوف کا ماحول پیدا کریں گے۔ افسوس کی بات ہے محض سیاسی فائدے کیلئے طلبہ کی منفی انداز میں ذہن سازی کی کوشش کی جارہی ہے، جس سے ملک میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ 
اظہرالدین ظاہر (کاسودہ، جلگاؤں )
جھوٹ کو سندِ تعلیم کا درجہ دیا جا رہا ہے


این سی ای آر ٹی کے حالیہ فیصلے جن کے تحت اسکولی نصاب میں بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں، صرف تعلیمی ترمیم نہیں بلکہ ایک منظم نظریاتی یلغار کا تسلسل ہیں۔ تاریخ کو اس طرح مسخ کیا جا رہا ہے کہ نئی نسل کے ذہنوں میں ایک متعصب خاکہ بیٹھ جائے۔ مسلم حکمراں اور مغلوں کا ذکر صرف تلوار، جزیہ، فتوحات اور سختی کے تناظر میں کیا گیا ہے اور ان کی گنگا جمنی تہذیب، عوامی فلاح اور صوفی روایت کو دانستہ نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ شہروں کے ناموں کی تبدیلی بھی اسی سوچ کا تسلسل ہے جہاں شناخت کو مٹانا ہی نیا قومی بیانیہ بنتا جا رہا ہے۔ بطور معلم، جب میں نے ان نئے نصابی خاکے کا باریک بینی سے جائزہ لیا تو دل بےحد مغموم ہوا۔ طلبہ کے ہاتھوں میں سچ کے بجائے ایک گھڑا ہوا اور تعصب سے آلودہ بیانیہ تھما دیا گیا ہے۔ یہ محض نصابی ترمیم نہیں بلکہ ایک نسل کی فکری تربیت کو ایک خاص قالب میں ڈھالنے کی منظم سازش ہے۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کر دیا جائے، تو اس کے مستقبل کی بنیادیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں صرف مغل حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ برصغیر میں مسلم تشخص، تہذیب اور تاریخی وجود کو مٹانے کی کوشش ہیں۔ نصاب، جو کسی بھی قوم کی فکری بنیاد ہوتا ہے، اب سیاسی ایجنڈے کی نذر ہو رہا ہے۔ جن درسی کتابوں کو روشنی کا ذریعہ ہونا تھا وہ تعصب، نفرت اور تقسیم کا آلہ کار بنتی جا رہی ہیں۔ سچ حذف کیا جا رہا ہے اور جھوٹ کو سندِ تعلیم کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ تعلیم جب جھوٹ پر قائم ہو، تو نئی نسل نہ صرف گمراہ ہوتی ہے بلکہ اصل تاریخ سے نابلد ہوکر فکری زوال کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم صرف تماشائی نہ بنے رہیں بلکہ اس تعصبات سے بھرے نصابی یلغار کے خلاف علمی اور جمہوری احتجاج کریں اور آواز بلند کریں۔ یہ خاموشی ہماری نسلوں کی فکری بربادی پر مہرِ تصدیق بن سکتی ہے۔ سچائی کا دفاع کرنا صرف تاریخ دانوں کی نہیں بلکہ ہر باشعور معلم، سرپرست والدین اور شہری کی ذمہ داری ہے۔ 
آصف جلیل احمد (چونابھٹّی، مالیگاؤں )
تاریخ، تاریخ ہے، جسےنہ جھٹلایا جا سکتا ہے، نہ مٹایا جا سکتا ہے


آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے ساتھ ہی بی جے پی کی حکومتوں کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ اور ظالمانہ ہے۔ ملک کی مسلم اقلیت کو سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی سطح پر زک پہنچانے کیلئے سبقت لے جانے کی کوشش میں سب ایک دوسرے پر گرتے پڑ رہے ہیں اور اب انھوں نے معصوم ذہنوں کو مسموم کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے کہ بچپن ہی سےمسلم حکمرانوں کے تعلق سے نفرت پر مبنی اسباق پڑھا دیئے جائیں تاکہ بڑے ہو کر وہ مسلم اقلیت کو دشمن سمجھنے لگیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ طلبہ کمرہ جماعت ہی سے مسلم طلبہ کے تفریق آمیز رویہ اختیار کرنے لگ جائیں۔ ایسے میں جب یہ بچے بڑے ہوں ہوگے تو سماج کیلئے مشکلات ہی پیدا کریں گے...لیکن جب کبھی وہ تاریخ کا مطالعہ یا سامنا کریں گے تو ان کی رسوائی بھی ہو گی کیونکہ تاریخ لکھی جا چکی ہے، جسےنہ جھٹلایا جا سکتا ہے، نہ مٹایا جا سکتا ہے۔ 
سعیدالرحمان محمد رفیق (گرین پارک روڈ، شیل تھانے)
تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو ہزیمت اٹھانی پڑے گی


ملک میں مسلم مخالف ماحول اپنے عروج پر ہے۔ برسر اقتدار حکومت اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کا کوئی ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ نصابی کتابوں میں جس طرح مغل حکمرانوں کی ہرزہ سرائی کی کوشش کی گئی ہے، اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے تاریخ داں ڈاکٹر روچیکا شرما اور دیگر انصاف پسندوں نے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر حکومت کی منشاء کی پول کھول دی ہے۔ نصابی کتابوں میں غلط بیانی سے یہ نقصان ضرور ہوگا کہ ملک کی گنگا جمنی تہذیب متاثر ہوگی اور کم عمری ہی سے بچوں کے ذہنوں میں اپنے ہم وطنوں کی تئیں نفرت کے جذبات پیدا ہوں گے۔ اس کی مثالیں ہم نے ماضی قریب میں دیکھی بھی ہیں، لیکن حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ یہ دور سوشل میڈیا کا ہے اور جس طرح منفی پروپیگنڈا پھیلایا جاتا ہے اس کے کاؤنٹر ری ایکشن بھی سامنے آجاتے ہیں۔ یہ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ اب تاریخ پر حملے کا اور مضبوطی کے ساتھ دفاع کیا جائے۔ اخبارات، رسالوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے منفی پروپیگنڈوں کا حتی الامکان ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسکولوں میں اساتذہ کو ایک متوازی نصاب کےذریعے طلبہ میں بیداری اور آگہی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ رات چاہے کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو صبح سورج طلاع ضرور ہوگا۔ 
مومن فہیم احمد عبدالباری (معلم، صمدیہ ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
تاریخ کو زہریلا بنانے والی سوچ 


تاریخ کو نفرت کے چشمے سے دیکھنا نہ صرف سچائی پر ظلم ہے بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے خطرہ بھی ہے۔ تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اور نفرت پر مبنی نصاب سماج کو بدامنی اور فسادات کی طرف لے جاتا ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں ایسی سوچ فساد، جان و مال کے نقصان اور عوامی بے چینی کا سبب بن سکتی ہے۔ بدقسمتی سے کچھ سیاسی طاقتیں اس نفرت کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہیں کہ جس میں مسلم حکمرانوں کے خلاف تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے مخصوص ووٹ بینک کو تو خوش کیا جا سکتا ہے مگر اس کا نقصان پورے ملک کو اٹھانا پڑتا ہے اور حقیقی مسائل جیسے تعلیم و ترقی مہنگائی، ٹیکس اورصحت وغیرہ پس منظر چلے جاتے ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے خلاف پھیلائی گئی منفی تاریخ نے ہندو مسلم تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے اور معاشرتی اتحاد کو کمزور کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخی نصاب میں توازن قائم رہے۔ سچائی پر مبنی تعلیم دی جائے تاکہ ہماری نئی نسل کے نمائندے ایک پرامن اور متحدہ قوم بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ مختصر یہ ہے کہ ہمیں ماضی سے نفرت نہیں بلکہ عبرت لینے کی اشد ضرورت ہے۔ 
شیخ نسرین عارف ( رابعہ گرلز ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)
تاریخ کو مذہب کی عینک سے دیکھنا درست نہیں 


تعلیم کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے جو نئی نسل کے ذہنوں کو شعور، تاریخ اور اقدار سے آشنا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے، آج ملک میں کچھ مخصوص نظریات کے تحت تاریخ کو اپنے حساب سے لکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ این سی ای آر ٹی کے تازہ نصاب میں مغل حکمرانوں کو صرف ’ظالم، جابر، سفاک اورمندر شکن‘ کے طور پر پیش کرنا نہ صرف تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ ایک مخصوص فرقے کے خلاف منظم نفرت کو فروغ دینے کی خطرناک کوشش بھی ہے۔ اگر نئی نسل کو اسی طرح صرف یک رُخی انداز سے تاریخ پڑھائی جائےگی، تو وہ نہ تو اپنے ماضی کو سمجھ پائیں گے اور نہ ہی ایک ہم آہنگ اور پرامن معاشرے کے قیام میں مثبت کردار ادا کر سکیں گے۔ نفرت انگیز تعلیم ذہنوں کو زنگ آلود کر دیتی ہے اور معاشرے کو بھی تقسیم کرتی ہے۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ تاریخ کو غیر جانبداری اور تحقیق کی روشنی میں پڑھایا جائے نہ کہ سیاسی مقاصد کے تحت۔ تاریخ کے صفحات کو مسخ کرنے سے وقتی فائدہ شاید حاصل ہو جائے مگر قوموں کے بکھرنے کا عمل بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ 
مومن ناظمہ محمد حسن (ستیش پردھان گیان سادھنا کالج، تھانے )
سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی مذموم کوشش ہے


’این سی ای آر ٹی‘کی ۸؍ ویں کی نئی کتاب میں مغلیہ سلطنت کے تعلق سے پورے دور کو منفی نظریہ سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب طلبہ کو دہلی سلطنت، مغلوں اور مراٹھوں کے ادوار سے متعارف کراتی ہے۔ پہلے ہی باب میں پُرتشدد واقعات خصوصاً جنگ اور خوں ریزی کا ذکر کیا گیا ہے، جس کیلئے ذمہ دار مسلم حکمرانوں کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کا مقصد طلبہ کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بونا ہے۔ یہ دراصل ہندو مسلم پولرائزیشن کی راہ ہموار کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ مغلیہ سلطنت اور دہلی سلطنت کے معتبر حوالوں کیلئے ملک کے مایہ ناز مورخین ڈاکٹر تارا چند، جادوناتھ سرکار، پروفیسر عرفان حبیب اور پروفیسر ستیش چندرا کی مستند تحقیقی کتب سے رجوع کیا جاتا ہے۔ این سی ای آر ٹی کی جانب سے ایسی نفرت انگیز اور بے بنیاد تبدیلی سے سیاسی جماعتیں فائدہ تو اٹھا سکتی ہیں مگر یہ ملک کیلئے طویل مدتی خسارے کا باعث بن سکتا ہے۔ 
افتخار احمد اعظمی(سابق مدیر ضیاء، مسلم یونیورسٹی علیگڑھ)
اس سےہندو مسلم اتحاد مزید خراب ہو سکتا ہے


مغل حکمرانوں سےمتعلق نفرت کی جو آ گ بھڑکائی جا رہی ہے، اس کے برے نتائج نکل سکتے ہیں ۔ ان اسباق سے طلبہ کے اذہان کو فرقہ واریت کی جانب ڈھکیلا جا رہا ہے۔ انھیں ایک نیا رخ دے کر مشتعل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے اکثریتی برادری کےنسل نو کو مسلم حکمرانوں سے نفرت ہوگی۔ نفرت و تعصب کا یہ زہر جب اپنی انتہا کو پہنچے گا تو ملک کی سالمیت اور اتحاد کا نقصان ہو گا۔ مغلوں سے نفرت اور مراٹھوں کی شان میں قصیدہ خوانی سے ہندو مسلم اتحاد مزید خراب ہو سکتا ہے۔ اس سے نفرت اور تعصب کی آ گ بھڑک سکتی ہے جو ملک کے امن اور ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور ہندو مسلم اتحاد کو انتشار میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ دراصل آ نے والی نسلوں کو حقائق سے نا بلد کر کے فرقہ واریت کی آ گ پر سیاست کی روٹی سینکنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ سیاسی فائدے کیلئے ملک کی تاریخ سے گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کا فیصلہ شکست و فتح پر نہیں ہوگا بلکہ وطن عزیز کی بربادی، ملکی انتشار، منافرت اور فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ہندو مسلم اتحاد کو ٹھیس پہنچے گا بلکہ ملک کی عالمی سطح پر رسوائی ہوگی اور ملک کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو گی۔ 
مقصود احمد انصاری (سابق معلم رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK